ایرانی انقلاب کی غلط تصویر پیش کی جاتی ہے

AhmadJunaidJ&K News urduJune 28, 2025360 Views


اس نایاب انٹرویو میں ایران کے اس وقت کے صدر علی خامنہ ای نے ہندوستانی مسلمانوں کے خدشات، مغربی میڈیا کے رویے، ایران کی خارجہ پالیسی، کردوں کے مطالبات اور فرانس جیسے ممالک کے کردار پر کھل کر بات کی ہے۔ یہ بات چیت اسلامی انقلاب کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے ایک کمیاب دستاویز ہے۔

تصویر بہ شکریہ:خامنہ ای ڈاٹ آئی آر


سال1979کے ایرانی انقلاب کے چند سال بعد جب اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے سامنے اپنی شناخت قائم کر رہا تھااور سمت طے کر رہا تھا، معروف ہندوستانی ادیبہ اور صحافی ناصرہ شرما نے اس وقت کے ایرانی صدر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کیا تھا۔ یہ بات چیت نہ صرف ہندوستان اور ایران کے تعلقات کے بارے میں ایک اہم اور تاریخی حوالہ ہے بلکہ اسلامی انقلاب، آزادی صحافت، کردوں کے مسئلے اور مغربی طاقتوں کے کردار جیسے پیچیدہ سوالوں کے ضمن میں بھی اس کی غیر معمولی اہمیت  ہے۔

لہذا،آج جب ایران کے بارے میں ایک بار پھر دنیا بھر میں بحث چھڑ گئی ہے، یہ تاریخی انٹرویو نئی روشنی ڈالتا ہے ۔


♦♦♦

ایرانی انقلاب ہندوستان کے 12 کروڑ مسلمانوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ وہ اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اس وقت وہ لاتعداد قتل اور نوجوانوں کی پھانسی سے فکرمند ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آج ایران میں کیا ہو رہا ہے؟

ہمارے حقیقی  مسائل کو کوئی نہیں سمجھتا۔ ہندوستان کے مسلمان اس قلیل مدت میں ہوئے انقلاب کے دوران ہماری حصولیابیوں سے ناواقف ہیں۔ میڈیا ہر جگہ ادھوری خبریں دیتا ہے، چاہے وہ ہندوستان ہو یا دنیا کا کوئی اور حصہ۔ پریس پھانسیوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور سچائی کو چھپاتا ہے۔ ہمارے مقاصد کو غلط طریقےسے پیش کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں، میں ہندوستان گیا تھا اور وہاں کے لوگوں سے بات کی تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہمارے انقلاب سے خوش ہیں۔ انہیں ایران میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں درست معلومات کی ضرورت ہے۔ اگر کچھ لوگ ان پھانسیوں پر تنقید کرتے ہیں تو میرے خیال میں ان کے پاس مکمل معلومات نہیں ہیں۔ جب دوسرے لوگ ہتھیار اٹھا لیتے ہیں تو کوئی بھی خاموش کیسے بیٹھ سکتا ہے۔ بیرونی طاقتوں نے ہمارے انقلاب کے خلاف سازش کی ہے اور وہ اقتدار کو براہ راست یابلاواسطہ  دھمکی دے رہے ہیں۔

انہوں نے ایران میں اسلام مخالف جذبات کو پھیلایا ہے۔ تاہم، اسلامی جمہوریہ نے متعدد لوگوں کو معاف کیا ہے اور انہیں اسلامی اخلاق سکھایا ہے اور انہیں اسلامی روحانیت سے متاثر کیا ہے۔ ٹیلی ویژن پروگرام ایسی مثالیں دکھاتے ہیں، جہاں لوگوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لوگوں کو مارتے ہیں، بسیں جلاتے ہیں، سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور مسلح مظاہرے کرتے ہیں۔ وہ مجرم ہیں اور انہیں اسلامی قانون کے تحت پھانسی دی جانی چاہیے۔ حال ہی میں ایسے عناصر کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں ملک کمزور ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان اور دیگر جگہوں پر ہمارے دوست ہماری مذمت نہیں کریں گے اگر ان کے پاس تمام حقائق ہوں۔

میری سمجھ میں ایران کی خارجہ پالیسی بہت سے تجربات اور واقعات کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر، ابوالحسن بنی- صدر (1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد پہلے صدر جو 1981 میں فرانس چلے گئے) کےپیرس آنے سے پہلے، فرانس اگر دوست نہیں تھا، تو دشمن ملک بھی نہیں تھا۔ ایران کی خارجہ پالیسی کو عموماً کمزور اور تغیر پذیرماناجاتا ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی یقینی طور پر کمزور نہیں ہے، حالانکہ ہماری سفارتی سرگرمیاں جتنی ہونی چاہیے، اتنی نہیں ہیں۔ ہماری ترجیحات واضح ہیں، اور ہم نے دنیا کو گروہوں میں تقسیم کیا ہے – برادر ممالک، دوست ممالک، غیر جانبدار ممالک اور دشمن ممالک۔ دشمن ممالک وہ ہیں جو ہم پر حملہ کرتے ہیں اور اسلام کے خلاف ہیں۔ باقی یا تو برادرانہ، دوستانہ یا غیر جانبدار ہیں۔ آپ نے فرانس کا ذکر کیا۔ بنی-صدر کے وہاں پناہ لینے سے پہلے ہی فرانس نے ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ یہ نہ تو ہمارا دوست تھا اور نہ ہی غیر جانبدار، لیکن ہمارے خلاف پابندیاں لگانے والے بڑے یورپی ممالک میں پہلا ملک تھا۔ فرانس کے بارے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ نہیں ہے، خاص طور پر ہمارے معزز امام کے وہاں قیام کی خوبصورت یادوں کے پیش نظر۔ لیکن فرانس نے بارہا اپنے انقلاب مخالف اور ایران مخالف ارادوں کو ثابت کیا ہے۔ اس نے سامان اور فوجی ساز و سامان فراہم نہیں کیا ہے۔ اس نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ اس لیے یہ ملک ہمارا دوست نہیں ہو سکتا۔ فرانس نے ہمارے ملک کے سیاسی حتیٰ کہ غیر سیاسی مجرموں کو بھی پناہ دی ہے۔ اس نے ہمارے دشمن عراق کو ہتھیار بھی فراہم کیے ہیں۔ ان دنوں ایرانی فضائیہ فرانسیسی میراج طیاروں کو مار گرا رہی ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ دشمن صرف وہ ملک ہے جو ہم پر براہ راست حملہ کرتا ہے؟ نہیں، حملہ صرف ایک ‘مسلح حملہ’ نہیں ہوتا، بلکہ یہ سیاسی حملہ، اقتصادی حملہ یا کچھ بھی ہو سکتا ہے جو حقیقت میں ایران کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ فرانس ہمارا دشمن ہے۔

زیادہ تر ممالک دوستانہ ہیں۔ ایران اور ہندوستان دو عظیم ممالک ہیں جو دوستانہ تعلقات پر یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان نے ہماری کوئی مدد نہیں کی اور نہ ہی ہمیں کسی مدد کی امید ہے، چاہے وہ سیاسی ہو یا کوئی اور، پھر بھی ہماری دوستی گہری ہے۔

فرانس نے ایرانی مخالفین کا ایک مرکز بنا رکھا ہے، یہاں تک کہ شاہی خاندانوں کی ایک انجمن بھی، لیکن فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو ایران میں آزادانہ کام کرنے کی اجازت ہے، جبکہ دیگر ایجنسیوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ یہ متضاد صورتحال کیوں ہے؟

ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں نیوز ایجنسیاں خود مختار ہیں۔ ہمارے یہاں دنیا بھر کی خبر رساں ایجنسیاں کام کرتی ہیں، جن میں اے ایف پی بھی شامل ہے۔ کچھ ایجنسیاں خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے مطابق خبریں پیش کرتی ہیں۔ ہم ان تمام ایجنسیوں کو کام کرنے دیتے ہیں۔ ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک میں آزادی کو ظاہر کرتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں بعض ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر سخت موقف اختیار کرنا پڑتا ہے، مثال کے طور پر ہم نے ایک امریکی صحافی کو یہ ظاہر کرنے کے لیے ملک سے نکال دیا کہ ہم ملک دشمن سرگرمیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔

کردستان اور دیگر اقلیتی علاقوں کے مسئلے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا انہیں خود مختاری دی جائے گی؟

یہ کرد نہیں، بلکہ امریکہ ہے جو خود مختاری کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کرد صرف روزگار، روٹی اور اچھی زندگی چاہتے ہیں۔ ہمارے لیے کرد، ترک، بلوچ اور فارسی سب ایک ہیں۔ ہماری حکومت سب کے لیے خوشحالی اور خوشی لانے کے لیے پرعزم ہے، خواہ ان کی ذات، مذہب یا نسل کچھ بھی ہو۔ ہم سب کے لیے روٹی، فلاح، مکمل روزگار، مکان اور ان کی اخلاقی اور روحانی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو کردوں کے لیڈر کہتے تھے اور خود مختاری چاہتے تھے انہیں کردوں نے خود ہی نکال دیا ہے۔ آج تمام کرد شہر جمہوری اسلامی کے کنٹرول میں ہیں، اور کرد خود ان ملک دشمن عناصر کے خلاف لڑ رہے ہیں جو غاروں اور سڑکوں کے کنارے چھپ کر لوگوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے مفید انسانی وسائل میں سے ایک ‘ پیشمرگان کرد مسلمان ‘ ہے۔ وہ ان لوگوں کے خلاف لڑتے ہیں جو بین الاقوامی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور حقیقی کرد نہیں ہیں۔

ایران علیحدگی پسند تحریکوں سے نبرد آزما ہے اور اس بات کا خطرہ ہے کہ ملک متحد نہ رہے۔ افواہیں ہیں کہ اس میں سوویت یونین کا ہاتھ ہے؟

ہم اصل دشمن کو جانتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہےکہ اس میں مغربی اور امریکی ہاتھ زیادہ نظر آتا ہے۔ وہ کسی حد تک عراق اور دیگر کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ ہم الرٹ ہیں اور ان سےاپنی قوم کی حفاظت کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ انقلاب مخالف عناصر ایران سے باہر بہت سرگرم ہیں اور سامراجیوں کی واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایران میں انقلابی ترقی پسند عناصر کو روزانہ پھانسی دی جا رہی ہے۔ اس طرح ملک سامراج کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کی طاقت کھو رہا ہے۔ آپ کا اندازہ کیا ہے؟

میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ آپ اپنے آپ کو انقلابی کہنے والوں کو انقلاب مخالف سمجھتے ہیں۔ پرانے ساواکی (ایران کے شاہی ریاست کی خفیہ پولیس) اور وہ لوگ جنہوں نے ان کے خلاف لڑائی لڑی  اور اب جمہوری اسلامی کے خلاف بھی وہی کر رہے ہیں، دونوں ہی انقلاب مخالف ہیں۔ ہم ان لوگوں کو انقلابی سمجھتے ہیں جو دراصل انقلابی ہیں اور ان کا انقلاب مخالفوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جن کے کردستان کے جنگجوؤں سے روابط ہیں اور جو فرانس جیسے ممالک میں بھاگ گئے ہیں ان کو آپ ایران مخالف سمجھتے ہیں۔

ایک محقق کی حیثیت سے میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ رائلسٹ  مختلف شکلوں میں انتشار پھیلاتے ہیں، کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی مارکسزم کے نام پر، اور مجاہدین اور کمیونسٹوں (گوریلوں) جیسے لوگوں کو بدنام کرتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ خواہ ایک پاسدار مارا جائے یا ایک مجاہد ، میں اسے ایران کا نقصان سمجھتی ہوں۔

آپ محقق ہیں، مجھے بتائیں کیا مسعود رجوی رائلسٹ ہیں؟ اگر وہ ایک رائلسٹ ہیں تو آپ کا سوال درست ہے اور اگر وہ ان انقلابی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے کئی سال جیل میں گزارے اور آج کردستان کے جاگیرداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں،سعودی عرب سے پیسے لےرہے ہیں اور فرانس جیسے ملک میں پناہ لے رہے ہیں تو یقین مانیں کہ صرف رائلسٹ ہی انقلاب مخالف نہیں ہیں بلکہ وہ تمام لوگ جو آج اسلامی انقلاب کے خلاف برسر پیکار ہیں، چاہے وہ آج کا مسعود رجوی ہویا کل کا علی امیری،بختیار اور اویسی،  ان کے نام اور لقب پر مت جائیے۔ یہ انقلاب کے دشمن ہیں۔

(ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے)



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Follow
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...