غزہ: ’برادر … میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا‘

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 20, 2025368 Views


آج کا غزہ صرف بموں اور ناکہ بندیوں کی کہانی نہیں۔ یہ بھوک کی کہانی ہے۔ ایسی قحط سالی جو قحط یا آفت سے نہیں، بلکہ منصوبہ بند جبر سے پیدا کی گئی ہے۔ غزہ کے عوام کے پیٹ ہی خالی نہیں بلکہ دنیا کی روح بھی خالی ہو چکی ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

حال ہی میں ہندوستانی جریدے آؤٹ لک نے مجھے فلسطین کے محبوس علاقہ غزہ پر آئی نئی آفت یعنی قحط و بھوک پر رپورٹ لکھنے کی فرمائش کی۔ میں نے نوے کی دہائی کے اوائل سے شورش زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کی ہے۔ کشمیر، شام، فلسطین، آذربائجان۔ آرمینیا جنگ، افریقہ، ہندوستان کے اندر نکسل واد کے متاثرہ علاقے اور کسی حد تک شمال مشرقی ریاستوں میں جنگ و شورش کو کور کرتے ہوئے ہمیشہ سمجھا کہ میرے دل میں وہ سختی آ گئی ہے جو اس پیشے اور شورش کو رپورٹ کرنے کے لیے ضروری ہے۔

آؤٹ لک کی اسٹوری کے لیے جب میں نے غزہ میں ایک صحافی اور مقامی سول سوسائٹی کے ساتھ وابستہ والینٹر دوست کو فون کیا، جن کے ساتھ خبروں کے حوالے سے پچھلے دوبرسوں سے ایک تعلق سا بن گیا تھا، تو کئی بار میسیج کرنے اور کال کرنے کے بعد جب انہوں نے فون اٹھایا، تو ان کی آواز لرز رہی تھی۔ لگتا تھا کہ جیسے وہ کہیں دور سے سرگوشیوں میں بات کر رہے تھے۔ ان کے الفاظ تھے؛

برادر… میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ جیسے ہی ایک روٹی ملتی ہے، آپ کو فون کروں گا۔

وہ فون کبھی نہیں آیا۔ اور میں نے دوبارہ کال کرنے کی ہمت نہیں کی۔

میں دیر تک ہاتھ میں فون تھامے بیٹھا رہا۔میں سن ہوگیا تھا۔ حیران صرف اس کے الفاظ پر نہیں، بلکہ اس وقار پر بھی جس کے ساتھ اس نے وہ جملہ ادا کیا۔ اس لمحے مجھے لگا کہ میں نے گناہ کیا ہے۔ بھوکے انسان سے خبر مانگنے کا کیا حق بنتا ہے؟

اُس لمحے مجھے اتنی شرمندگی ہوئی جتنی کبھی کسی فوجی ناکے پر تلاشیاں دیتے ہوئے نہیں ہوئی ہے۔ اس ایک لمحے، میں رپورٹر نہیں رہا۔ میں ایک اخلاقی انہدام کا گواہ بن گیا۔

غزہ انسان کو توڑ دیتا ہے۔ یہاں رپورٹنگ گولیوں کے زاویوں، جنگ بندیوں یا مذاکرات کے بارے میں نہیں، بلکہ بھوک کے بارے میں ہے اور پوری دنیا کے شرم کے بارے میں ہے۔

آج کا غزہ صرف بموں اور ناکہ بندیوں کی کہانی نہیں۔ یہ بھوک کی کہانی ہے۔ ایسی قحط سالی جو قحط یا آفت سے نہیں، بلکہ منصوبہ بند جبر سے پیدا کی گئی ہے۔ غزہ کے عوام کے پیٹ ہی خالی نہیں بلکہ دنیا کی روح بھی خالی ہو چکی ہے۔

اس تحریر کے لیے میں نے 28 سالہ ابو رمضان سے بات کی، جو غزہ کے شہر النصر کا رہائشی ہے۔ اس کی گفتگو تلخی اور بے یقینی سے لبریز تھی۔جب میں نے ڈھٹائی اور انتہائی بے شرمی سے پوچھا کہ آج کیا کھاؤ گے، اُس نے جواب دیا؛

افسوس کہ ابھی تک ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ کھانا کہا ں سے لائیں گے۔ ہر دن اپنی تقدیر لاتا ہے۔ کبھی باسی روٹی کا ٹکڑا، کبھی بالکل کچھ نہیں۔ کبھی تلخ زعتر میں ڈوبا ہوا نوالہ—وہ بھی اگر زعتر میسر ہو۔

میں نے پوچھا کہ بھوک کیسی لگتی ہے؟ وہ لمحہ بھر رکا، پھر ایسا جواب دیا جو ہمیشہ یاد رہے گا؛

یہ ایسے ہی ہے جیسے دل میں خنجر مارا جائے اور ہاتھ بندھے ہوں۔ آپ اپنے بچوں کو بھوک سے روتے دیکھتے ہیں اور انہیں کچھ دینے کا وعدہ بھی نہیں کر پاتے۔ تسلی کا کوئی لفظ نہیں —بس خاموشی رہ جاتی ہے۔

جیب میں پیسے ہیں لیکن خریدنے کو کچھ نہیں۔چولہے پر سمندر کا پانی چڑھا دیتے ہیں۔ بچے اس کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ اب اور تب کھانا تیار ہو جائےگا اور اس چولہے کو دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے قائم امدادی مراکز’موت کے پھندے’ ہیں۔ جب وہاں جاتے ہیں، تو بھروسہ نہیں ہوتا ہے کہ واپس پیروں پر چل کر آسکیں گے۔’سب جانتے ہیں کہ امدادی مراکز کے سامنے خطرات ہیں۔ یا تو آٹے کا سفید تھیلا لے کر واپس آؤ گے، یا سفید کفن میں۔ پھر بھی جانا پڑتا ہے۔ کوئی راستہ نہیں ہے۔’

غزہ میں میں بھوک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج اب ایک بند گلی بن چکا ہے۔ ڈاکٹروں کی مہارت میں کمی نہیں ہے۔  ان کی لگن بھی مثالی ہے۔ لیکن جب مسلسل محاصرہ اور مکمل محرومی ہو، تو ڈاکٹر کیسے کسی مریض کو غذا کھانے کو لکھ سکتا ہے، جس نے ہفتوں سے کھانا نہیں دیکھا؟ ابو رمضان کہتا ہے؛

یہ سست موت ہے۔ اور ہم سب اسے اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

پھر بھی وہ کہتا ہے، انسانوں میں بھلائی باقی ہے’اگر کسی کے پاس روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ہو،جو کبھی اضافی نہیں ہوتا، وہ پڑوسی کے ساتھ بانٹ لیتا ہے، اس یقین پر کہ کل وہی نیکی واپس ملے گی۔ ہم سب موت کے پھندوں کی طرف اکٹھے جاتے ہیں۔ اگر ایک شہید ہو جائے تو دوسرا آٹا دونوں گھروں  کے لیے لے آتا ہے، تاکہ دونوں خاندان زندہ رہ سکیں۔’ لیکن زندہ رہنے میں کیا باقی بچا ہے جب“زندگی”کا تصور ہی چھین لیا گیا ہو؟

ابو رمضان  مجھے بتا رہے تھے؛

‘یہ جینا نہیں، یہ صرف بچنا ہے۔ ہر چیز بدل گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی عادتوں سے لے کر ہمارے باطن تک۔ جب سے بھوک نے قبضہ کیا ہے، آئینے میں دیکھنا بھی عذاب ہو گیا ہے۔ ہمارے چہرے ہمارے جیسے نہیں لگتے، بس کھوکھلے، تھکے ہوئے سائے۔“

اس کا کہنا تھا کہ دنیا کو ابھی بھی غزہ کی اصل صورتحال کا ادراک نہیں ہے۔ ‘میڈیا کوریج کے باوجود، کوئی نہیں سمجھتا۔ اگر سمجھتے، واقعی ہمیں دیکھتے، تو یہ جنگ ایک دن بھی نہ چلتی۔’

میں نے جب پوچھا کہ دنیا کے لیے کیا پیغام ہے، تو اس کی آواز ذرا تیز ہوئی اور اس نے کہا؛

بس دنیا کو کہیں کہ جا گ جاؤ۔ اس سے پہلے کہ تاریخ تم پر لعنت بھیجے۔ ایک دن تم خود ہم سے بھی بدتر حالت میں کھانے کے محتاج ہو گے۔ قیامت کے د ن  ہم تمہارے منہ پر گواہی دیں گے۔

ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کی ایک نئی رپورٹ میں’غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن(جی ایچ ایف)’کو، جو امریکی و اسرائیلی سرپرستی میں چل رہا ہے،’ظلم کی تجربہ گاہ’قرار دیا گیا ہے۔ صرف سات ہفتوں میں ان مراکز کے باہر 1,800 ہلاکتیں درج کی گئیں۔ 100 کے قریب بچوں کو گولی لگی—بعض کو سیدھا سر یا سینے میں۔زخمیوں کی نوعیت—سر میں گولیاں، سینے میں زخم—ثابت کرتی ہے کہ یہ حادثے نہیں۔

امدادی مراکز ہدف اور  ذلت کے میدان بن چکے ہیں، جن کی حفاظت امریکی نجی ٹھیکے دار کرتے ہیں۔ بچ جانے والے کہتے ہیں پیغام صاف ہے؛ بھوکے مرو، یا کھانے کے لیے کوشش کرتے مرو۔ٹی وی پر امدادی ٹرکوں کی تصاویر چلتی ہیں، مگر زمین پر حقیقت مختلف ہے۔

مارچ سے، جب اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات کے دوران امداد کی ناکہ بندی کی، خطے کو ایک منصوبہ بند بھکمری میں جھونک دیا گیا۔ وزارتِ صحت کے مطابق اب تک کم از کم 251 افراد—جن میں 100 بچے شامل ہیں —بھوک سے مر چکے ہیں۔ غزہ کی صحافی راشا ابو جلال لکھتی ہیں کہ امدادی ٹرک  بھی راستے میں لُوٹ لیے جاتے ہیں یا چند گروہوں کے قبضے میں چلے جاتے ہیں۔غزہ کی ضروریات کے لیے روزانہ 500–600 ٹرک درکار ہیں۔مگر اسرائیل 100 سے بھی کم ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دیتا ہے۔

چھ بچوں کے باپ خالد تنیرہ کہتے ہیں؛

یہ امداد سب تماشہ ہے۔ ایک فوجی طیارے نے سات فضائی غباروں سے آٹے کے تھیلے ہمارے محلے کے اوپر گرائے۔ ہزاروں لوگ ان پر ٹوٹ پڑے—حالانکہ وہ سامان چند درجن خاندانوں کے لیے بھی کافی نہ تھا۔

 صحافی ابو جلال اپنی حالت زار بتاتی ہیں کہ دو دن سے امدادی کھانے کا انتظارکرنے کے بعد انہوں نے 25 ڈالر میں ایک کلو آٹا خریدا، جو مشکل سے ایک ڈالر کا ہوتا تھا۔ اب شیر خوار بچوں کا دودھ 80 ڈالر فی ڈبہ ہے، جو پہلے 10 ڈالر تھا۔ مائیں اپنے زیورات بیچ کر بچوں کو کھلا رہی ہیں۔

غزہ کے کالم نگار طلال اوکل لکھتے ہیں؛’جب تک امدادی رسائی بہتر نہیں ہوتی اور سکیورٹی بحال نہیں ہوتی، بھوک مزید افراد کو ہلاک کرے گی۔’بین الاقوامی فضائی ڈراپ ایک المیہ تماشا ہیں۔ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے انہیں ‘بے اثر اور خطرناک’بتایا ہے۔

ایک نرس نے بتایاکہ امدادی جگہوں پر ایک پانچ سالہ بچہ ہجوم میں کچلا گیا، جس کی وجہ سے اسکا چہرہ دم گھٹنے سے نیلا پڑ گیا تھا۔ ایک  آٹھ سالہ بچے کے سینے میں امداد لیتے ہوئی گولی لگی۔’ہم صرف چند زخمیوں کا علاج کر پاتے ہیں۔ یہ جنگ نہیں رہی۔ یہ کچھ اور ہے۔  جنگ سے بھی زیادہ مہیب اور تاریک۔’

بیالیس سالہ خدیجہ خدیر کہتی ہیں؛

میرے چار بچے بھوک سے سکڑ رہے ہیں۔ ہم تین چار روز کے بعد ایک روٹی کھاتے ہیں اور یہ غزہ میں آجکل ایک لگزری ہے۔

غزہ میں میڈیا آفس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسماعیل الثوابتا کا کہنا تھا کہ قحط براہِ راست اسرائیلی فوجی محاصرے کا نتیجہ ہے۔ برسوں سے کھانے، ایندھن اور دواؤں کی منظم پابندی، اور تقسیم کے راستوں کی بار بار توڑ پھوڑ نے صورتحال بگاڑ دی ہے۔ محفوظ رسائی ناممکن ہوگئی ہے۔ خطے میں بدترین قحط کا شروع ہو چکا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے 26 جنوری، 28 مارچ، اور 24 مئی 2024 کو واضح حکم دیا کہ اسرائیل’بلا رکاوٹ ‘انسانی امداد کی رسائی یقینی بنائے اور شہریوں کی حفاظت کرے۔ مگر اسرائیل اب بھی گزرگاہیں بند رکھتا ہے، ریلیف روکتا ہے، اور تقسیم مراکز کو نشانہ بناتا ہے۔

میں نے ان سے سوال کیا کہ مغربی حکومتوں کا کیا کردار رہا ہے، تو فلسطینی رہنما کا کہنا تھا کہ زیادہ تر نے اسرائیل کو عسکری و سیاسی سہارا دیا،یا قانونی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا۔ اس سے رکاوٹیں قائم رہیں۔ انہوں نے نہ تو“ڈی کنفلکشن”درست کیا، نہ ہی گزرگاہیں کھولیں، نہ ہی عدالتی احکام منوائے۔

میں نے  اسماعیل الثوابتا سے پوچھا کہ آپ کے گھرانے نے آج اور اس ہفتے کیا کھایا؟ ان کا کہنا تھا کہ کئی روز کے بعد آج ان کو دال کا سوپ نصیب ہوا ہے۔ چند روز قبل تھوڑے سے چاول پانی کے ساتھ حلق سے اتارے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی زندگی کا  بھی سب سے کڑا لمحہ ہے۔گھر میں بیٹی روٹی مانگتی ہے اور وہ اس کو دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ امدادی مراکز پر اسرائیلی اکثر سر، گردن اور ٹانگوں میں گولیاں مارتے ہیں۔  لوگ تھوڑی تھوڑی چیزیں بانٹتے ہیں۔ ایک کلو پھلیاں دس لٹر پانی میں ابال کر کئی گھروں میں بانٹ دی جاتی ہیں۔ یہ یکجہتی ابھی باقی ہے، محاصرے اور روزانہ  ہلاکتوں  کے باوجود لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ فلسطینی لیڈر نے بتایا کہ انہوں نے پچھلے دو ماہ میں 16 کلو وزن کھو دیا۔”میرے کزنز   مازن نے 51 کلو، اور ماہر نے 46 کلووزن کھو دیا ہے۔

بھوک کو ہتھیار بنایا گیا ہے۔فلسطینی اب اس ذلت پر مجبور ہیں کہ اسرائیلی ٹرک ان کی اپنی زمین پر روٹیاں لائیں اور ان کو بھوکی آبادی کے سامنے پھینک کر ان کا تماشہ دیکھے۔ اس دوران کسی فوجی کا دل چاہا تو فائرنگ شروع کردیتا ہے۔ اتنی تذلیل کیسے کوئی قوم برداشت کرسکتی ہے۔

بطور صحافی میرا قلم رُک جاتا ہے۔ بھوک نے الفاظ چھین لیے ہیں۔ میں کیا لکھوں جو اس باپ کے دکھ کا مداوا و ہو جو اپنے بچے کو سُوکھتے ہوئے دیکھ کر کڑتاہے۔ وہ ماں جس نے پانی کا برتن چولہے پر رکھا ہے اور بچے اس کی طرف دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں، یا اس نوجوان کے خون کا بدلہ لے جس کی قیمت بس آٹے کاتھیلہ تھا۔

جب آنے والی نسلیں یہ باب پڑھیں گی تو وہ یہ نہیں پوچھیں گی کہ فلسطینی کیوں غصے میں تھے۔ وہ پوچھیں گی؛ دنیا کیسے کھاتی رہی، قحط صرف جسمانی نہیں، اخلاقی اور سیاسی ہے۔یہ حکمتِ عملی ہے۔ جب غزہ بھوکا مر رہا تھا؟ اور پھر بھی دنیا کو خوش فہمی کھلائی جاتی رہی اور وہ اس کو نوش کرتی رہی۔



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...