انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے)کے سربراہ رافیل گروسی نے جمعرات یعنی 26 جون کو کہا کہ ایران نے پہلے اپنے جوہری پروگرام کی نگرانی کرنے والی ٹیموں کو بہت محدود تعاون دیا تھا اور تحقیقات کے دوران کوئی شفافیت نہیں تھی۔
آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے یہ بات امریکہ کی جانب سے ایرانی جوہری افزودگی کے تین پلانٹس پر بنکر بسٹر بم گرائے جانے کے چند روز بعد کہی۔ انہوں نے کہا کہ وہ تعاون کر رہے تھے لیکن یہ محدود تھا۔ ایسے بہت سے سوالات تھے جن کا ایران مناسب جواب نہیں دے رہا تھا۔ ریڈیو فرانس کے انٹرنیشنل شو میں انہوں نے کہا کہ یورینیم کے ایسے آثار ملے ہیں جہاں انہیں نہیں ملنا چاہیے تھا اور ان کے (ایران کے) جوابات تکنیکی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں تھے، شفافیت نہیں تھی۔
امریکہ ایران کے ساتھ نئے جوہری سیکورٹی معاہدے پر بات چیت کر رہا تھا۔ جب یہ واضح ہو گیا کہ اسرائیلی میزائل ایران کی فورڈو افزودگی کی سہولت تک نہیں پہنچ سکتے جو کہ ایک پہاڑ کے نیچے سینکڑوں میٹر کی بلندی پر تعمیر کی گئی ہے تو امریکہ نے بنکر بسٹر بم سے حملہ کر دیا۔ تاہم یہ حملہ اسرائیل کے اس دعوے کے بعد ہوا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے دہانے پر ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ایران واقعی جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے، یہ دعویٰ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا ہے، گروسی نے اعتراف کیا کہ ایران کے پاس ممکنہ طور پر 10 جوہری ہتھیار بنانے کا مواد اور ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی بموں کی وجہ سے ایران کے ایٹمی پروگرام کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فورڈو جوہری افزودگی پلانٹس میں سینٹری فیوجز شاید اب کام نہیں کر رہے ہیں۔ تاہم آئی اے ای اے کے سربراہ نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس دعوے سے فاصلہ برقرار رکھا کہ ایران کے جوہری مراکز کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے بجائے، انہوں نے کہا کہ اس کی صلاحیتیں کم ہو گئی ہیں۔