بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
یہ شعر زندگی کی دھیمی آہٹ کو پہچاننے کی فطری صلاحیت کو بیان کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے فراق کے بچپن میں ہی ان کے مقدر کی جھلک دکھائی دینے لگی تھی۔ ایک خوشحال ہندو کایستھ خاندان میں پیدا ہوئے، ان کے والد منشی گورکھ پرساد ’عبرت‘ خود بھی اردو شاعر اور وکیل تھے۔ انہوں نے فراق کو بچپن ہی سے ادب سے روشناس کرایا۔ اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعد ازاں گورنمنٹ جبلی کالج سے میٹرک میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔ لکھنؤ کرسچین کالج سے تعلیم جاری رکھی اور پھر الہ آباد کے سینٹرل کالج سے بی اے مکمل کیا۔ 1930 میں آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور امتیاز کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ 1916 میں بی اے کے طالب علم کی حیثیت سے اپنی پہلی غزل مشاعرے میں سنائی، جو اس بات کا اعلان تھی کہ ایک عظیم شاعر ابھر رہا ہے۔ 18 برس کی عمر میں کشور دیوی سے شادی ہوئی، لیکن ازدواجی زندگی کی پیچیدگیاں بعد کی شاعری میں گہری اداسی کے رنگ بھر گئیں۔ مثلاً
ایک مدت سے تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
یہ ابتدائی دور ہی ان کی لسانی قابلیت کی بنیاد تھی، جس نے انہیں ایک ماہر لسانیات اور فصیح قلم کار بنایا۔