بھارت کے مرکزی بینک (ریزرو بینک آف انڈیا- آر بی آئی) نے قرض دہندگان کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان سے بالواسطہ طور پر آنے والے ان فنڈز کی جانچ پڑتال میں اضافہ کریں، کیوں کہ ان پیسوں کے اسلحے کی خریداری میں استعمال ہونے کا ’بڑاخطرہ‘ موجود ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق یہ بات بھارتی ایجنسیوں کی تحقیقات کے بعد 6 اگست کی تاریخ کے ایک خط (جو رائٹرز نے دیکھا) میں کہی گئی ہے۔
پاکستان سے بھارت کو براہِ راست رقوم کی منتقلی زیادہ تر ممنوع ہے، اور ہر لین دین کے لیے مرکزی بینک کی منظوری ضروری ہے۔
آر بی آئی نے پاکستان کو اسلحے کی مالی معاونت کے تناظر میں ایک ’بڑے خطرے‘ والا دائرہ اختیار قرار دیا اور بھارتی تحقیقات کا حوالہ دیا، لیکن اپنی دریافتوں کی تفصیل نہیں بتائی۔
بھارتی حکومت کے معاملے کی معلومات رکھنے والے ایک ذرائع کے مطابق تفتیشی حکام نے یہ پایا کہ کچھ پاکستانی شہریوں نے دوسرے ممالک کے ذریعے بھارت میں رقوم منتقل کیں۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ بھارت کے بینکاری ذرائع پاکستان کی طرف سے اسلحے کی فنڈنگ کے لیے استعمال ہونے کے انتہائی خطرے سے دوچار ہیں، یہ ذریعہ میڈیا سے بات کرنے کا مجاز نہیں تھا اور اس نے اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا۔
مرکزی بینک نے پہلے ہی بینکوں کے لیے منی لانڈرنگ اور اسلحے و دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے عمومی رہنما اصول وضع کر رکھے ہیں، لیکن پاکستان کی طرف توجہ مبذول کرانے والی ہدایت غیر معمولی ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا نے ’رائٹرز‘ کی تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے صدر ظفر مسعود نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کے منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے اقدامات نہایت سخت اور مضبوط ہیں۔
آر بی آئی کے خط میں بینکوں اور نان بینک قرض دہندگان کو یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان پر عالمی پابندیوں اور قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
خط میں یہ نوٹ کیا گیا کہ جون 2025 کی ایک رپورٹ میں عالمی منی لانڈرنگ مخالف واچ ڈاگ (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس – ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کے سرکاری ادارے نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس نے میزائل کی تیاری کے لیے اشیا درآمد کرتے وقت انہیں ظاہر نہ کرکے پابندیوں سے بچنے کی کوشش کی۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ’رائٹرز‘ کی تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
خط میں شمالی کوریا کو بھی ایک اعلیٰ خطرے والا دائرہ اختیار قرار دیا گیا اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ماضی میں عائد کی گئی پابندیوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔