بھارتی پولیس نے کرناٹک کے دھرمستھلا مندر میں صفائی کرنے والے ایک سابق کارکن کو گرفتار کر لیا ہے، جس نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ اسے مجبور کیا گیا تھا کہ وہ ان سیکڑوں خواتین کی لاشیں دفنائے جنہیں پہلے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کر دیا گیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بی بی سی کو ایک عہدیدار نے بتایا کہ اس شخص کو ’جھوٹی گواہی‘ (پرجری) کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
جولائی کے اوائل میں، درمیانی عمر کے اس شخص نے پولیس کو شکایت درج کرائی تھی اور ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔
اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی اور اب تک وہ عوام کے سامنے مکمل سیاہ لباس، نقاب اور ماسک پہن کر آیا ہے۔
پولیس شکایت میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 1995 سے 2014 تک مندر میں صفائی کا کام کرتا رہا، اور الزام لگایا کہ اسے مجبور کیا گیا کہ وہ ان لڑکیوں اور نوجوان خواتین کی لاشیں دفنائے جنہیں بے رحمی سے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا تھا۔
اس نے 5 مبینہ واقعات کی تفصیل بیان کی اور کہا کہ مزید کئی واقعات بھی ہوئے تھے، اس شخص نے دعویٰ کیا کہ کچھ متاثرہ بچیاں نابالغ تھیں۔
اس نے کہا کہ وہ 2014 سے چھپ کر رہ رہا تھا اور اب اپنی خلشِ ضمیر کو دبانے کے لیے واپس آکر سب کچھ بیان کر دیا۔
اس شخص نے کسی کا نام نہیں لیا لیکن ’مندر انتظامیہ اور اس کے عملے‘ کو مورد الزام ٹھہرایا، مندر کے سربراہ نے ان الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا ہے۔
مندر کے ایک ترجمان نے کہا کہ وہ مکمل تحقیقات کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید ہے کہ پولیس ’حقائق سامنے لائے گی‘۔
شکایت میں، سابق صفائی کارکن نے الزام لگایا کہ مندر کے عہدیدار اسے لاشوں سے چھٹکارا پانے پر مجبور کرتے تھے اور پولیس کو بتایا کہ اگر اسے اور اس کے خاندان کو تحفظ دیا جائے تو وہ ان عہدیداروں کے نام بتا سکتا ہے۔
کرناٹک کے وزیر داخلہ گنگا دھرائیہ پرمیشور نے گزشتہ ہفتے ریاستی اسمبلی کو بتایا تھا کہ اسے تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے، سابق کارکن نے کہا کہ اس نے خفیہ طور پر ایک قبر سے ایک ڈھانچہ نکال کر اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔
دو سینئر پولیس افسران (جو اس تفتیش سے واقف ہیں) کے مطابق کرناٹک حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے بعد میں 16 مشتبہ قبروں میں سے 2 مقامات سے انسانی باقیات برآمد کیں۔