بھارت کو خدشہ ہے کہ چین کے علاقے تبت میں مجوزہ میگا ڈیم خشک موسم میں ایک بڑے دریا کے پانی کے بہاؤ کو 85 فیصد تک کم کر دے گا، اسی خدشے کے باعث نئی دہلی نے اثرات کو کم کرنے کے لیے اپنے ڈیم کی منصوبہ بندی کو تیز کر دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق بھارتی حکومت 2000 کی دہائی کے اوائل سے منصوبوں پر غور کر رہی ہے تاکہ تبت کے آنگسی گلیشیئر سے آنے والے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کیا جا سکے جو چین، بھارت اور بنگلہ دیش میں نچلی طرف بہاؤ والے علاقے میں رہنے والے 10 کروڑ سے زائد لوگوں کو سہارا دیتا ہے۔
تاہم یہ منصوبے بھارت کی سرحدی ریاست اروناچل پردیش کے مکینوں کی پرتشدد مزاحمت کے باعث رکے ہوئے ہیں جو خوفزدہ ہیں کہ اس منصوبے کے بعد ان کے گاؤں ڈوب جائیں گے اور ان کا طرزِ زندگی تباہ ہو جائے گا۔
دسمبر میں چین نے اعلان کیا کہ وہ سرحدی علاقے میں دنیا کا سب سے بڑا ہائیڈرو پاور ڈیم بنائے گا، یہ ڈیم دریائے یارلونگ زانگبو پر تعمیر کیا جا رہا جو تبت کے بعد بھارتی ریاستوں اروناچل اور آسام سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش کی جانب بہتا ہے۔
چین کی جانب سے اس اعلان کے بعد نئی دہلی کو خدشات پیدا ہوگئے تھے کہ ان کا دیرینہ حریف دریا پر اپنے کنٹرول کو بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ دریا آنگسی گلیشیئر سے نکلتا ہے اور بھارت میں ’سیانگ‘ اور ’برہم پترا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
چین کے اس ڈیم پر نئی دہلی کے خدشات ایک سرکاری تجزیے میں بیان کیے گئے ہیں، جس کی تفصیلات ’رائٹرز‘ نے 4 ذرائع سے تصدیق کے بعد حاصل کیں اور پہلی بار رپورٹ کی جا رہی ہیں۔
بیجنگ نے ڈیم کی تعمیر سے متعلق تفصیلی منصوبے جاری نہیں کیے، مگر بھارتی تجزیے میں سرکاری اداروں جیسے سینٹرل واٹر کمیشن کی پچھلی تحقیق کو مدِنظر رکھا گیا اور چینی منصوبے کے متوقع حجم کو بھی شامل کیا گیا، جو جولائی میں شروع ہوا اور جس پر تقریباً 170 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
نئی دہلی کا اندازہ ہے کہ چینی ڈیم بیجنگ کو 40 ارب مکعب میٹر پانی موڑنے کی اجازت دے سکتا ہے، جو ایک کلیدی سرحدی مقام پر سالانہ وصول ہونے والے پانی کا تقریباً ایک تہائی بنتا ہے۔
یہ اثر خاص طور پر غیر مون سون مہینوں میں شدید ہوگا، جب درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور بھارت کے کئی علاقے بنجر ہو جاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ منصوبہ بیجنگ کے جانب سے ممکنہ طور پر تباہ کن پانی کے ریلیز کو بھی کم کرسکتا ہے۔
اگر ڈیم کو کم از کم سطح پر رکھا جائے، یعنی اس میں 50 فیصد سے کم پانی ذخیرہ کیا جائے تو وہ چینی ڈھانچے میں کسی شگاف کے نتیجے میں خارج ہونے والے اضافی پانی کو مکمل طور پر جذب کر سکے گا۔
دوسری جانب، دو ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بھارت اس تجویز پر بھی غور کر رہا ہے کہ اپنے ڈیم کو ہمیشہ 30 فیصد خالی رکھا جائے تاکہ کسی بھی غیر متوقع بہاؤ کو سنبھالا جا سکے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ’رائٹرز‘ کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ہائیڈرو پاور منصوبوں نے ’سخت تحقیق‘ سے گزر کر یہ ثابت کیا ہے کہ ان سے نیچے والے ممالک کے پانی، ماحول یا ارضیات پر کوئی منفی اثر نہیں ہوگا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ چین ہمیشہ سرحد پار دریاؤں کی ترقی اور استعمال کے بارے میں ذمہ دارانہ رویہ رکھتا آیا ہے اور بھارت اور بنگلہ دیش جیسے نیچے کے ممالک کے ساتھ طویل مدتی بات چیت اور تعاون جاری رکھا ہے۔
نریندر مودی کا دفتر اور بھارت کی وزارتیں (پانی اور خارجہ امور) نے ’رائٹرز‘ کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
سرکاری ہائیڈرو پاور کمپنی این ایچ پی سی نے بھی تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
ادھر، بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اعلیٰ سفارتکار ایس جے شنکر نے 18 اگست کو اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات میں ڈیم پر خدشات کا اظہار کیا۔
جے شنکر کے نائب نے بھی اگست میں قانون سازوں کو بتایا کہ حکومت شہریوں کی زندگیاں اور روزگار محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، جن میں ڈیم کی تعمیر بھی شامل ہے۔
واضح رہے کہ خود بھارت پر بھی یہ الزام ہے کہ وہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ بھارت نے رواں سال پانی کے حوالے سے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو خود ہی معطل کردیا ہے۔
تاہم، ایک بین الاقوامی ٹربیونل نے فیصلہ دیا ہے کہ بھارت کو معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے، لیکن نئی دہلی کا کہنا ہے کہ اس پینل کو دائرہ اختیار حاصل نہیں۔