راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایک سابق رکن نے دعویٰ کیا ہے کہ آر ایس ایس، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل کے سینئر رہنماؤں نے 2004 سے 2008 کے دوران پورے بھارت میں مہلک بم دھماکوں کی منصوبہ بندی کرکے انہیں انجام دیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’دی وائر‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یشونت شندے نے الزام عائد کیا کہ یہ سازش ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی تھی، تاکہ فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکایا جائے اور ہزاروں لوگوں کو صرف سیاسی طاقت کے حصول کے لیے قتل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آر ایس ایس، وی ایچ پی، بجرنگ دل اور بی جے پی کے کچھ لوگوں کی سازش تھی جن کے ذہن نہایت مکروہ اور فاسد تھے، اور یہ سب محض اقتدار کے لیے کیا گیا، وہ ملک کو آگ میں جھونک دینا چاہتے تھے تاکہ اقتدار ہمیشہ ان کے پاس رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی طور پر مفلوج ہونے کے بعد انہوں نے 1989 میں ایودھیا کے مسئلے کا استعمال کر کے 82 سے 84 نشستیں حاصل کیں، پھر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور انہوں نے کشمیر کا سہارا لے کر اٹل بہاری واجپائی کو بار بار وزیرِ اعظم بنوایا۔
یشونت شندے نے الزام لگایا کہ ہندو-مسلم فسادات، پاکستان میں حملے اور کشمیر کے واقعات سب ایک منصوبے کا حصہ تھے تاکہ سیاسی طاقت حاصل کی جاسکے۔
انہوں نے آر ایس ایس کے رہنما اندرَیش کمار پر الزام لگایا کہ وہ اس منصوبے کے سربراہ تھے، 2000 کے آس پاس اندرَیش کمار نے انہیں ناندیڑ کے ایک گروپ سے ملوایا جس نے بعد میں فوج سے اسلحہ کی تربیت حاصل کی، اور منصوبہ یہ تھا کہ انہیں پاکستان بھیجا جائے تاکہ وہ عام شہریوں پر حملہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ گروپ ٹائم بم بنانے کی تربیت لے رہا تھا اور انہیں ہدایت دی گئی تھی کہ عوامی اجتماعات جیسے مسلمانوں کی شادیوں کی تقاریب کو نشانہ بنایا جائے، اور انہوں نے جا کر یہ کارروائیاں کیں۔
یشونت شندے نے یاد کیا کہ 2006 میں ناندیڑ میں بم تیار کرتے وقت ایک بم حادثاتی طور پر پھٹ گیا، جس سے آر ایس ایس کا ایک رکن ہلاک ہو گیا۔
ان کا الزام تھا کہ اس سازش میں راکیش دھاوڈے اور روی دیو بھی شامل تھے، شندے کے مطابق پرگیہ اور پروہت جیسے لوگ صرف ’مہرے‘ تھے، جنہیں اصل منصوبہ سازوں کو بچانے کے لیے قربان کیا جا سکتا تھا۔
1994 میں آر ایس ایس میں شامل ہونے والے یشونت شندے کا کہنا تھا کہ انہوں نے اندر سے اس سازش کو ناکام بنانے کی کوشش کی لیکن جان کے خطرے کے باعث کھل کر مخالفت نہ کر سکے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی نئی تحقیقات کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد انہوں نے عوامی طور پر بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔