دی وائر کے خلاف آسام پولیس کی کارروائی کے خلاف میڈیا اداروں کا احتجاج، کہا

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 19, 2025372 Views


پریس کلب آف انڈیا اور انڈین ویمن پریس کور نے آسام پولیس کی طرف سے دی وائر اور اس کے صحافیوں کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر پر مایوسی کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ہی  بی این ایس کی سخت دفعہ 152 کو ‘پریس کو خاموش کرنے کا ہتھیار’ قرار دیا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ مذکورہ  معاملے اسی دفعہ کے تحت درج کیے گئے ہیں۔

علامتی تصویر (تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: پریس کلب آف انڈیا اور انڈین ویمن پریس کور نے آسام پولیس کی جانب سے دی وائر اور اس کے صحافیوں کے خلاف کی گئی انتقامی کارروائی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے دو مہینے میں دوسری بار نیوز پلیٹ فارم کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 152 لاگو کی ہے۔

واضح ہو کہ 12 اگست کو سپریم کورٹ نے دی وائر کی عرضی پر ایک نوٹس جاری کیا تھا جس میں سیڈیشن کے نئے قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا اور اس کے صحافیوں بشمول بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کو آسام پولیس کی جانب سے جولائی میں موریگاؤں میں درج ایک کیس میں کسی بھی ‘تعزیری کارروائی’ سے تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔

اسی دن گوہاٹی کرائم برانچ نے ریاستی پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایک نئی’سیڈیشن’ ایف آئی آر میں وردراجن اور سینئر صحافی کرن تھاپر کو سمن جاری کیا تھا ۔ دی وائر کو اس کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی۔

اب دونوں میڈیا تنظیموں کے بیان میں کہا گیا ہے، ‘یہ قابل ذکر ہے کہ سمن 12 اگست 2025 کو جاری کیے گئے تھے، جبکہ جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوائےمالیہ باگچی کی سپریم کورٹ کی بنچ نے وردراجن اور دی وائر کے تمام صحافیوں کو آسام پولیس کی جانب سے 11 جوالائی 2025 کو موریگاؤں میں دفعہ 152 اور بی این ایس کی دیگر دفعات کے تحت  درج کی گئی ایف آئی آر  (0181/2025)میں کسی بھی تعزیری کارروائی سے تحفظ فراہم کیا تھا ۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘اب، آسام پولیس نے بغیر کوئی وجہ بتائے ایک اور ایف آئی آر درج کی ہے اور وردراجن، تھاپر کو 22 اگست کو گوہاٹی میں کرائم برانچ کے تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہونے کو کہا ہے – اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو انہیں گرفتار کرنے کی دھمکی دی  گئی ہے۔’

اس میں کہا گیا ہے، ‘غورطلب ہے کہ مئی 2022 میں سپریم کورٹ نے سابقہ تعزیرات ہند کی دفعہ 124اے کے تحت سیڈیشن کی کارروائی اور فوجداری مقدمات کو معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔بی این ایس کی دفعہ 152 دفعہ 124اے کی ہی ایک نئی شکل ہے۔ گزشتہ ہفتے اپنی رٹ پٹیشن میں دی وائر نے بی این ایس کی دفعہ 152 کے جواز کو بھی چیلنج کیا ہے اور سپریم کورٹ نے آسام حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کیا ہے۔’

اس بیان پر پریس کلب آف انڈیا کے صدر گوتم لاہڑی، پریس کلب آف انڈیا کے جنرل سکریٹری نیرج ٹھاکر، انڈین ویمن پریس کور کی صدر سجاتا راگھون اور انڈین ویمن پریس کور کی سکریٹری ادیتی بہل کے دستخط ہیں۔

وہ لکھتے ہیں، ‘ہم سپریم کورٹ کی جانب سے دی وائر اور وردراجن کو گزشتہ ہفتے دی گئی ریلیف کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن ان کے اور کرن تھاپر کے خلاف نیا مقدمہ درج کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دفعہ 152 ہندوستان میں میڈیا کو نشانہ بنانے کا ہتھیار بن چکی ہے۔’

اس میں کہا گیا ہے، ‘دستخط کرنے والے میڈیا ادارے دی وائر کے صحافیوں کے خلاف درج کیے گئے ان مقدمات کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں، ساتھ ہی بی این ایس کی سخت دفعہ 152 کو بھی واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 19(1)اے میں درج اظہار رائے کی آزادی کے لیے خطرہ ہے۔ جیسا کہ آسام پولیس کی کارروائیوں میں دیکھا جا سکتا ہے، بی این ایس کی دفعہ 152 کا استعمال پریس کو خاموش کرانے کے لیے ہتھیار کے طور پر کیا گیا ہے۔’



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...