وہ سات سوال جن کے جواب الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس میں نہیں ملے

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 18, 2025366 Views


الیکشن کمیشن نے بہار میں ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کے تنازعہ اور ‘ووٹ چوری’ کے الزامات کی وضاحت  پیش کی، لیکن اہم سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ راہل گاندھی سے حلف نامہ طلب کیا گیا، جبکہ بی جے پی ایم پی  انوراگ ٹھاکر پر خاموشی اختیار کی گئی۔ غیر ملکی تارکین وطن، دستاویزوں اور ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں پر کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا۔

چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار 17 اگست 2025 کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران۔ (تصویر: پی ٹی آئی/اتل یادو)

نئی دہلی: اپوزیشن پارٹیوں کی تنقید  کے درمیان ، جہاں ‘ووٹ چوری’ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں اور بہار میں ووٹر لسٹ کی متنازعہ اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) مشق جاری ہے، جس میں ڈرافٹ لسٹ سے 65 لاکھ ووٹروں کے نام ہٹا دیے گئے ہیں، چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے اتوار (17 اگست) کو اپنی پہلی پریس کانفرنس کی۔

ایک گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والی اس پریس کانفرنس میں کمار نے یہ واضح نہیں کیا کہ الیکشن کمیشن نے کرناٹک کی مہادیو پورہ اسمبلی سیٹ سے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی چوری کے الزام پر کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی سے حلف نامہ کیوں طلب کیا ہے، اور بی جے پی ایم پی  انوراگ ٹھاکر سے ایسا کوئی حلف نامہ کیوں نہیں مانگا گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ انوراگ ٹھاکر نے بھی رائے بریلی، وایناڈ، ڈائمنڈ ہاربر اور قنوج میں ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں کا الزام لگایا تھا اور راہل گاندھی، پرینکا گاندھی واڈرا، ابھیشیک بنرجی اور اکھلیش یادو سے لوک سبھا رکن پارلیامنٹ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

کمار نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ بہار میں کتنے فارم مطلوبہ دستاویزوں کے ساتھ جمع کرائے گئے ہیں اور ایس آئی آرکے دوران کتنے غیر قانونی تارکین وطن پائے گئے۔ انہوں نے اس الزام پر بھی کچھ نہیں کہا کہ یہ پوری مشق ریاست میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو لاگو کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل ایس آئی آر کیوں کرایا جا رہا ہے، اور وہ بھی سیلاب کے موسم میں، کمار نے جواب دیا کہ یہ  عمل جولائی 2003 میں بھی کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس وقت اسمبلی انتخابات اکتوبر 2005 تک منعقد ہونے والے نہیں تھے۔

کمار کی پریس کانفرنس بیان بازی سے بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے ووٹر لسٹ میں گھر کے نمبر کے سامنے ‘صفر’ لکھے جانے کے بارے میں اٹھائے گئے سوال کو غریبوں کے ساتھ ‘مذاق’ قرار دیا۔ یہی نہیں، کمار نے دعویٰ کیا کہ فہرست میں ایک ووٹر کا نام کئی بار آنا ‘ووٹ چوری’ کا ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ اس شخص نے ایک سے زیادہ مرتبہ ووٹ دیا ہے۔

یہاں تک کہ انہوں نے لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی کو الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ وہ سات دن کے اندر حلف نامہ داخل کریں یا پوری قوم سے معافی مانگیں۔

الیکشن کمشنر کی پریس کانفرنس کے سات نکات یہ ہیں جنہیں کسی بھی سوال کے جواب کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا؛

راہل گاندھی سے حلف نامہ مانگا گیا ، لیکن بی جے پی سے نہیں

گیانیش کمار نے اپنی پریس کانفرنس کے آغاز میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے لیے کوئی ‘حکمران پارٹی یا اپوزیشن’ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا، ‘الیکشن کمیشن کے لیے نہ تو کوئی حکمران جماعت ہے اور نہ ہی اپوزیشن؛ سب برابر ہیں. سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔’

لیکن پریس کانفرنس میں کمار نے گاندھی کے الزامات کو ‘بے بنیاد’ قرار دیا اور حلف نامہ کا مطالبہ کیا۔

کمار نے کہا؛

اگر کسی ووٹر کے حوالے سے شکایت موصول ہوتی ہے تو الیکشن کمیشن اس کی تحقیقات کرتا ہے۔ لیکن اگر یہ الزام ڈیڑھ لاکھ ووٹروں کے خلاف ہے تو کیا ہمیں بغیر کسی ثبوت یا حلف نامے کے ڈیڑھ لاکھ ووٹروں کو نوٹس بھیجنا چاہیے؟ کیا یہ قانونی ہوگا؟ نہ کوئی ثبوت ہے نہ حلف نامہ۔ کیا ہم ڈیڑھ لاکھ ووٹروں کو ایس ڈی ایم (سب ڈویژنل مجسٹریٹ) کے دفتر میں بلا کر کہیں کہ آپ نقلی ووٹر ہیں؟ کیا ووٹر ثبوت نہیں مانگیں گے؟ بغیر کسی ثبوت کے، حقیقی ووٹرز کے نام حذف نہیں کیے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا؛

الیکشن کمیشن ہر ووٹر کے ساتھ ڈھال کی طرح کھڑا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ غلط تجزیہ اور حقائق کے ساتھ پی پی ٹی دکھا کر اور یہ کہہ کر کہ ‘اس خاتون نے دو بار ووٹ ڈالا ہے’ ، الیکشن کمیشن فوری ایکشن لے گا- تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ بغیر حلف نامے کے اتنے سنگین معاملے میں کارروائی کرنا قانون اور آئین دونوں کے خلاف ہو گا۔

سات اگست کو اپنی پریس کانفرنس میں گاندھی نے الزام لگایا تھا کہ بی جے پی اور الیکشن کمیشن کے درمیان ‘ملی بھگت’ ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کی ووٹر لسٹ دکھائی اور دعویٰ کیا کہ مہادیو پورہ میں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ چوری ہوئے ہیں۔

صحافیوں نے کمار سے سوال کیا کہ جب بی جے پی ایم پی انوراگ ٹھاکر نے بھی لوک سبھا کے ممبران پارلیامنٹ راہول گاندھی (رائے بریلی)، پرینکا گاندھی واڈرا (وائناڈ)، اکھلیش یادو (کنوج) اور ابھیشیک بنرجی (ڈائمنڈ ہاربر) کے خلاف ووٹر لسٹ میں بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے تھے، تو پھر کمیشن ان سے  حلف نامہ کیوں طلب نہیں کر رہا ہے؟

لیکن کمار نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ بی جے پی رکن پارلیامنٹ سے حلف نامہ کیوں نہیں مانگا جا رہا۔

قاعدہ 20(3)(بی) کا ترجیحی استعمال

راہل گاندھی سے ان کا نام لیے بغیر حلف نامہ طلب کرتے ہوئےکمار نے رجسٹریشن آف الیکٹرز رولز، 1960 کے رول 20(3)(بی) پر زور دیا۔

انہوں نے کہا؛

اگر آپ اس انتخابی حلقے کے ووٹر ہیں، تو آپ فارم 6، 7 اور 8 کو پُر کر سکتے ہیں اور انہیں مقررہ وقت کی حد کے اندر بوتھ لیول افسران کے پاس جمع کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس حلقے کے ووٹر نہیں ہیں، تو آپ کے پاس قانون کے تحت صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے رول 20(3)(بی)۔

کمار نے مزید کہا؛

اس میں لکھا ہے کہ اگر آپ اس انتخابی حلقے کے ووٹر نہیں ہیں تو آپ بطور گواہ شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو الیکشن رجسٹریشن آفیسر کے سامنے حلف اٹھانا ہوگا اور یہ حلف اسی شخص کی موجودگی میں لیا جائے گا جس کے خلاف آپ نے شکایت کی ہے۔

دی وائر نے پہلے رپورٹ کیا تھا کہ رول 20(3)(بی)صرف اس وقت لاگو ہوتا ہے جب الیکشن کمیشن کی طرف سے ایک ڈرافٹ ووٹر لسٹ کو نظر ثانی کی مشق کے بعد تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد دعوے اور اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔

ماہرین نے کہا کہ گاندھی کے الزامات کا تعلق مہادیو پورہ لوک سبھا حلقہ کے 2024 کے انتخابات سے ہے اور انتخابات ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لہٰذا، کیس رول 20(3)(بی) کے دائرہ کار میں نہیں آتا ہے۔

کمار نے یہ وضاحت نہیں کی کہ رول 20(3)(بی) کا اطلاق صرف ان دعوؤں اور اعتراضات پر ہوتا ہے جو مسودہ ووٹر لسٹ تیار ہونے کے بعد اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کے بجائے، گاندھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اگر غلطیوں کو 45 دنوں کے اندر نہیں اٹھایا جاتا ہے، تو یہ ‘عوام کو گمراہ کرنے’ کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا؛

اگر آپ 45 دن کی مقررہ مدت میں ووٹر لسٹ میں غلطیوں پر اعتراض نہیں کرتے اور پھر ‘ووٹ چوری’ جیسے غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں تو کیا یہ عوام کو گمراہ  کرنا نہیں ہے؟ یہ ہندوستان کے آئین کی توہین کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

کمار نے مزید کہا؛

یا تو حلف نامہ دیجیے یا ملک سے معافی مانگ لیجیے۔ کوئی تیسرا آپشن نہیں ہے۔ اگر ہمیں سات دن کے اندر حلف نامہ نہیں ملتا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور جو شخص یہ کہہ رہا ہے کہ ‘ہمارے ووٹر فرضی ہیں’ اسے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔

ایس آئی آر کا عمل جولائی 2003 میں ہوا تھا، لیکن  یہ نہیں بتایا کہ اس سال الیکشن ہی نہیں تھے

کمار سے بہار میں ایس آئی آر کے وقت کے بارے میں سوال کیا گیا تھا – یہ انتخابات سے ٹھیک پہلے کیوں کیا جا رہا ہے اور ایسے وقت میں جب ریاست مانسون کے سیلاب کا شکار ہے۔

اس پر کمار نے کہا کہ جب یہ مشق 2003 میں ہوئی تھی تو جولائی میں ہی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا؛

سوال آیا ہے کہ جولائی میں کیوں کیا جا رہا ہے جبکہ موسم ٹھیک نہیں  رہتا۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب 2003 میں بہار میں ایس آئی آر کیا گیا تھا، تو یہ 14 جولائی سے 14 اگست کے درمیان کیا گیا تھا۔ تب بھی یہ کامیابی سے ہوا اور اب بھی تمام فارم جمع  کر لیے گئےہیں۔

تاہم، انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ 2003 میں بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے  ہی نہیں تھے۔

مارچ 2000 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور جے ڈی یو لیڈر نتیش کمار نے اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ سے ایک دن پہلے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے بعد راشٹریہ جنتا دل کی رابڑی دیوی وزیر اعلیٰ بنیں۔ وہ 2005 کے اسمبلی انتخابات تک اس عہدے پر رہیں۔

دی وائر نے رپورٹ کیا ہے کہ 2003 کا ایس آئی ارآرڈر دستیاب نہیں ہے، اس لیے اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ اس سال یہ عمل کب تک جاری رہا۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ایس آئی ار کا عمل اسمبلی انتخابات (2005) کے مقررہ وقت سے پہلے ہی شروع کر دیا گیا تھا۔

کمار نے 2004 میں جاری کردہ تفصیلی نظرثانی کے حکم کے بارے میں بھی سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ اس حکم میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ چونکہ اسی سال اروناچل پردیش اور مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، اس لیے نظر ثانی انتخابات کے بعد ہی کی جائے گی۔ دی وائر نے اس آرڈر کی ایک کاپی دیکھی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ قانون کے مطابق ہر الیکشن سے قبل نظرثانی کا عمل ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہار میں اس سال جنوری میں مختصر نظر ثانی کی گئی تھی، لیکن نومبر میں ہونے والے انتخابات کے لیے یہ کافی نہیں تھا۔ اسی لیے جولائی کوالیفائنگ  تاریخ مقرر کی گئی۔

غیر قانونی تارکین پر کوئی جواب نہیں

بہار میں 24 جون کو ایس آئی آر کا اعلان کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ یہ عمل کئی وجوہات کی بنا پر ضروری ہے، جن میں سے ایک ووٹر لسٹ میں ؛غیر قانونی غیر ملکی تارکین وطن’کا نام شامل ہونا ہے۔

الیکشن کمیشن نے پہلے کچھ میڈیا اداروں کو  ‘ذرائع’ کے توسط ست بتایا تھا کہ ووٹر لسٹ میں نیپال، میانمار اور بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن پائے گئے، لیکن ان کی تعداد ظاہر نہیں کی گئی۔

پریس کانفرنس میں جب ان غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو کمار نے کوئی اعداد و شمار نہیں بتائے۔ انہوں نے کہا؛

میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے آئین کے مطابق، صرف ہندوستانی شہریوں کو لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں ووٹ دینے کا حق ہے۔ دوسرے ممالک کے لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ اگر ایسے لوگ نامزدگی فارم بھرتے ہیں، تو ایس آئی آر کے عمل کے دوران انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کچھ دستاویز جمع کروانے ہوں گے، جن کی تصدیق 30 ستمبر تک ہو جائے گی۔ جو لوگ ہندوستانی شہری نہیں ہیں، ان کا پتہ چل جائے گا اور انہیں ووٹر کے طور پر شامل نہیں کیا جائے گا۔

کمار نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ کیا یہ ایس آئی آر عمل درحقیقت نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کو لاگو کرنے کی سمت ایک قدم ہے۔

مطلوبہ دستاویزوں کے ساتھ کتنے فارم موصول ہوئے؟

الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ جب 25 جولائی کو ایس آئی آر کے عمل کے دوران فارم جمع کرانے کا مرحلہ مکمل ہوا تھا،  تب ووٹروں سے 99.8 فیصد فارم جمع ہو چکے تھے۔

لیکن اس پورے عمل میں سب سے بڑا تنازعہ یہ ہے کہ کمیشن نے ووٹروں کی اہلیت ثابت کرنے کے لیے 11 دستاویزوں کی فہرست طے کی تھی۔ فارم کو ان دستاویزوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جمع کرنا تھا۔ کمار نے اس بارے میں کوئی واضح جواب نہیں دیا کہ مطلوبہ دستاویزوں کے ساتھ کتنے فارم جمع کرائے گئے ہیں، یا اب یہ فرق کیوں کیا جا رہا ہے کہ بوتھ لیول افسران کے ذریعہ کن ووٹروں کی ‘سفارش’ کی گئی تھی اور کن کی ‘سفارش نہیں کی گئی’۔

کمار نے کہا؛

بہار میں جاری ایس آئی آر کے عمل کے دوران کتنے لوگوں نے دستاویز جمع کرائے ہیں، کتنے کی سفارش کی گئی ہے اور ہر بوتھ سطح کے افسر نے کیا سفارش کی ہے، اس کے اعداد و شمار جمع کرنے کا عمل ابھی جاری ہے۔ الیکشن کمیشن ملٹی لیول فریم ورک پر کام کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘پہلے بوتھ لیول آفیسر، پھر بوتھ لیول سپروائزر، پھر ایس ڈی ایم، پھر ڈی ایم اور آخر میں چیف الیکٹورل آفیسر۔ نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی کوئی اور قانونی عمل کے بغیر ووٹ جوڑسکتا ہے۔ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ اس ڈی سینٹرلائز ڈھانچے کے تحت کتنے دستاویز لیے گئے ہیں یا نہیں، یہ اب بھی ایس ڈی ایم کی سطح پر جاری ہے۔ یہ معلومات سامنے آئیں گی۔ ابھی کچھ کہنا درست نہیں ہوگا۔’

مکان نمبر ‘زیرو

ایسی خبریں آئی ہیں کہ بہار کی ووٹر لسٹ میں بہت سے ووٹروں کے گھر کا نمبر ‘0’ (صفر) درج ہے۔ اس پر کمار نے کہا کہ اس طرح کے اندراجات پر سوال اٹھانا غریب ووٹروں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا؛

بہت سے لوگوں کے پاس اپنا گھر نہیں ہوتا، لیکن ان کے نام ووٹر لسٹ میں درج ہوتے ہیں۔ پھر ان کا پتہ کیا دیا جاتا ہے؟ وہی جگہ جہاں وہ رات کو سوتے ہیں‘ کبھی سڑک کے کنارے، کبھی پل کے نیچے، کبھی بجلی کے کھمبے کے پاس۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ جعلی ووٹر ہیں تو یہ ہمارے غریب ووٹرز، بہنوں، بھائیوں اور بزرگوں کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔

کمار نے کہا کہ کروڑوں لوگوں کے پتے صفر لکھے جاتے ہیں کیونکہ ان کی پنچایت یا میونسپلٹی نے ان کے گھروں کو نمبر نہیں دیے ہیں۔ ایسے میں الیکشن کمیشن ان ووٹرز کو ایک خیالی نمبر دیتا ہے جو کمپیوٹر پر ‘0’ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔

انہوں نے واضح کیا، ‘اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ووٹر نہیں ہیں۔’

ووٹر لسٹ میں نام کے بار بار اندراج کا معاملہ

راہل گاندھی نے الزام لگایا تھا کہ کئی مقامات پر مختلف پولنگ بوتھ پر ایک ہی ووٹر کا نام درج ہے۔

اس پر کمار نے کہا کہ اگر کسی ووٹر کا نام ووٹر لسٹ میں کئی بار درج ہو تب بھی وہ صرف ایک بار ووٹ ڈال سکتا ہے۔

تاہم، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ووٹر لسٹ میں ایک ووٹر کا نام بار بار کیوں درج کیا جا رہا ہے۔

گاندھی نے 7 اگست کو اپنی پریس کانفرنس میں کئی ایسی مثالیں دکھائی تھیں جہاں مختلف بوتھوں کی ووٹر لسٹوں میں ووٹروں کے نام بار بار پائے گئے۔

کمار نے کہا، ‘ایک ووٹر صرف ایک بار ووٹ دے سکتا ہے۔ اگر اس کا نام ووٹر لسٹ میں دو بار درج ہے تو یہ ووٹ چوری کیسے  ہے؟ یہ ممکن نہیں ہے۔ ہر ووٹر صرف ایک بار ووٹ دے سکتا ہے۔ اسی لیے ہم نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ڈیٹا کا غلط تجزیہ کیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ووٹر لسٹ غلط ہے، اس لیے ووٹنگ بھی غلط ہوئی۔ لیکن ووٹر لسٹ اور ووٹنگ دونوں الگ چیزیں ہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...