امریکی ٹیرف کے باعث شدید دباؤ، نریندر مودی نے ٹیکس اصلاحات کا اعلان کر دیا – World

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 17, 2025373 Views



بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی گزشتہ 8 برسوں کی سب سے بڑی ٹیکس کٹوتیاں اگرچہ سرکاری آمدنی پر دباؤ ڈالیں گی، تاہم کاروباری حلقوں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے اس اقدام کو سراتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اصلاحات امریکا کے ساتھ جاری تجارتی تنازعے میں نریندر مودی کی شبیہ کو بہتر بنائیں گی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2017 کے بعد سب سے بڑی ٹیکس اصلاحات کے طور پر مودی حکومت نے ہفتہ (16 اگست) کو گُڈ اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے پیچیدہ نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا اعلان کیا ہے۔

جس کے تحت اکتوبر سے روزمرہ ضروریات کی اشیا اور الیکٹرانکس کی قیمتیں کم ہوں گی، جس کا فائدہ صارفین کے ساتھ ساتھ نیسلے، سام سنگ اور ایل جی جیسی کمپنیوں کو بھی ہوگا۔

اسی دوران، یومِ آزادی کی تقریر میں مودی نے بھارتی عوام پر زور دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مقامی مصنوعات استعمال کریں۔ یہ مطالبہ اُن کے حامیوں کی اُن آوازوں سے ہم آہنگ ہے جو امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کر رہے ہیں، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 27 اگست سے بھارت سے درآمدات پر ٹیرف 50 فیصد کر دیا ہے۔

یہ ٹیکس کٹوتیاں حکومت کو بہت مہنگی پڑیں گی کیونکہ جی ایس ٹی سب سے بڑا ریونیو جنریٹر ہے۔ آئی ڈی ایف سی فرسٹ بینک کا کہنا ہے کہ یہ کٹوتیاں بھارت کی جی ڈی پی کو اگلے 12 ماہ میں 0.6 فیصد تک بڑھا تو دیں گی لیکن اس اقدام سے ریاستی اور وفاقی حکومت کو سالانہ 20 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔

نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ریسرچ فیلو رشید قدوائی نے کہا کہ باوجود اس کے، کہ ماہرین کے مطابق، اس اقدام سے کمزور اسٹاک مارکیٹ کے سہارا ملے گا ساتھ ہی مشرقی ریاست بہار کے اہم انتخابات سے قبل نریندر مودی کو سیاسی فائدہ بھی پہنچے گا۔

انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی میں کمی کے اثرات سب پر آئیں گے، جب کہ انکم ٹیکس کی کٹوتیاں صرف 3 سے 4 فیصد آبادی پر اثر ڈالتی ہیں۔

رشید قدوائی کے مطابق نریندر مودی یہ سب اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ امریکی پالیسیوں کے باعث شدید دباؤ میں ہیں، یہ اقدام اسٹاک مارکیٹ کو بھی سہارا دے گا، جو اب سیاسی طور پر بھی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔

بھارت نے 2017 میں ایک بڑا ٹیکس سسٹم متعارف کرایا تھا جس کے تحت ریاستی ٹیکسز کو ختم کرکے پورے ملک میں یکساں جی ایس ٹی نافذ کیا گیا، تاکہ معیشت کو یکجا کیا جا سکے۔

تاہم، آزادی کے بعد کی سب سے بڑی ٹیکس اصلاحات کو اس کے پیچیدہ ڈیزائن پر تنقید کا سامنا رہا، کیونکہ اس میں 4 مختلف شرح، جن میں 5 فیصد، 12 فیصد، 18 فیصد اور 28 فیصد رکھی گئی تھیں۔

نئے نظام کے تحت گاڑیوں اور الیکٹرانکس پر عائد 28 فیصد ٹیکس کی شرح ختم کر دی گئی ہے،اور تقریباً تمام 12 فیصد کیٹگری کی اشیا کو کم کر کے 5 فیصد کے زمرے میں ڈالا جائے گا، جس سے زیادہ تر پیک شدہ غذائی اشیا اور اشیائے ضرورت کی قیمتیں کم ہوں گی۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 28 اور 12 فیصد والے زمرے پچھلے مالی سال میں بھارت کے تقریبا 250 ارب ڈالر کے جی ایس ٹی ریونیو کا 16 فیصد حصہ تھے۔

بہار سیاسی طور پر کلیدی ریاست ہے اور وہاں نومبر تک انتخابات متوقع ہیں، ووٹ وائب ایجنسی کے ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا کہ ریاست میں روزگار کی کمی کی بنیادی وجہ کے باعث اپوزیشن کو سبقت حاصل ہے۔

کمیونیکیشن کنسلٹنٹ اور بھارتی پی آر فرم پرفیکٹ ریلیشنز کے شریک بانی دلیپ چیریان نے کہا کہ کسی بھی ٹیکس کٹوتی کو عوامی سطح پر پذیرائی ملتی ہے لیکن اس کے وقت کا تعین ہمیشہ سیاسی ضرورتوں سے جڑا ہوتا ہے، یہ فیصلہ ایک طرف مایوسی کو ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف اس بات کو بھی کہ بہت زیادہ اور تباہ کن ٹیکسز کی شرح کیخلاف عوامی ردِعمل بڑھ رہا ہے۔

مودی کی حکمراں جماعت بی جے پی نے اس اعلان کو اپنے سیاسی بیانیے کا حصہ بنا لیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ دیوالی کے موقع پر ہر بھارتی کے لیے ’زیادہ روشن تحفہ، سادہ ٹیکس اور زیادہ بچت‘ موجود ہیں۔

امریکا کے غیر متوقع ٹیرف اعلان کے بعد تجارتی مذاکرات بھی ناکام ہو گئے، مودی نے کسانوں، ماہی گیروں اور مویشی پالنے والوں کے تحفظ کا بھی عزم کیا، امریکا اور بھارت کے درمیان بنیادی اختلافات زرعی، ڈیری مارکیٹ اور روسی تیل کی خریداری روکنے پر تھے۔

خیال رہے کہ 25 سے 29 اگست تک دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا دور بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔

0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...