تباہی کے منظر میں نم آنکھوں سے اپنوں کے لیے امید، 40-30 فٹ ملبے میں دفن ایک گاؤں میں قیامت کا منظر

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 12, 2025380 Views


آفت کے فوراً بعد دھرالی میں 2 لاشیں ملی تھیں لیکن وہ ملبے سے باہر تھیں۔ اس کے بعد سے ملبہ کھود کر ایک بھی لاش نہیں مل سکی ہے۔ کھدائی کے کام میں سب سے بڑی رکاوٹ ملبے میں بڑی بڑی چٹانوں کا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div><div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

i

user

کوئی اپنوں کو تلاش رہا ہے، تو کوئی ہاتھوں میں مٹی اور ملبہ لیے اپنے لاپتہ مکان کے نشان تلاش رہا ہے، تو کوئی تصویر لے کر التجا کر رہا ہے کم از کم لاش ہی تلاش دو، تاکہ آخری رسومات ادا کی جا سکے۔ کوئی غم زدہ چہرہ کے ساتھ آنکھوں میں آنسو لیے قیامت خیز تباہی کے آثار دیکھ رہا ہے۔ اسی کے ساتھ امدادی ٹیم کچھ کچھ مشینوں اور کدال-پھاؤڑوں سے ملبہ ہٹانے کا کام کر رہے ہیں، لیکن اس کی رفتار اتنی سست ہے کہ مہینوں لگ جائیں گے، ٹنوں مٹی-ملبے کے نیچے دبے ’کچھ‘ کو باہر نکالنے میں۔ یہ منظر اتراکھنڈ کے دھرالی گاؤں کا ہے، جہاں 5 اگست کو قدرت کا قہر قیامت بن کے ٹوٹ پڑا اور پہاڑوں پر کہیں اوپر سے آیا پانی کا سیلاب اپنے ساتھ مٹی-پتھر، درخت-پودے اور زندگیوں کو ختم کرتا ہوا دھرالی کے سینے کو روند گیا۔

اس قیمات کے گزر جانے کے بچے ہوئے نشان میں زندگی کی تلاش تو کی جا رہی ہے، لیکن کیا وہ نتیجہ خیز ہو گا، کہنا مشکل ہے۔ روزنامہ ’بھاسکر‘ کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی اب تک صرف 2 لاشیں برآمد کی جا سکی ہیں، وہ بھی ان لوگوں کی جو ملبے اور دلدل کے اوپر تھیں۔ بقیہ تقریباً 80 ایکڑ رقبے پر پھیلے ملبے اور مٹی میں تو کچھ تلاش کیا جانا ہی ناممکن لگ رہا ہے۔ روزنامہ ’بھاسکر‘ کی رپورٹ کے مطابق دھرالی گاؤں کا زیادہ تر حصہ ملبے میں دفن ہو چکا ہے۔ مین مارکیٹ، دکانیں، ہوٹل اور ریستوراں ملبے کے نیچے کہاں پر ہیں، اس کا اندازہ دھرالی میں رہنے والے لوگ بھی نہیں لگا پا رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیلاب اتنی تیزی سے آیا کہ مکانات کئی کئی میٹر دور تک کھسک گئے ہیں۔ ایک گھر تو گاؤں سے تقریباً 200 میٹر کھسک کر چلا گیا۔

رپورٹ کے مطابق دھرالی کا جو اوپری حصہ پہاڑوں کے دامن میں تھا، وہاں کچھ مکانات اب بھی باقی ہیں۔ وہاں پر ایک مندر ہے، جہاں 5 اگست کو حادثہ والے دن ہاردودھ میلہ منعقد کیا گیا تھا۔ زیادہ تر گاؤں والے مندر اور میلے میں تھے۔ اسی وجہ سے کچھ لوگوں کی جانیں بچ گئیں۔ ان میں سے ایک چاہت دوان ہے۔ چاہت گیارہویں جماعت میں پڑھتی ہیں۔ دھرالی میں آئی تباہی میں اس کے مکان کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کا چھوٹا سا 5 کمروں والا عارضی گھر، سیب کا باغ اور کھیت ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ وہ خوف میں ہیں اور کہتی ہیں کہ یہاں تو کچھ بچا ہی نہیں، اب تو حکومت انہیں کہیں اور آباد کرا دے۔ اسی طرح مہیش پوار بھی دھرالی میں اپنے آبائی گھر میں رہتے تھے۔ اس کے گھر کے قریب 15 دیگر خاندان رہتے تھے۔ تباہی کے وقت مہیش مندر میں ہونے والے ہاردودھ میلے میں گئے تھے۔ وہ بچ گئے، لیکن ان کا آبائی گھر ملبے کے نیچے دب چکا ہے۔

اتراکھنڈ کے دھرالی میں ہوئی تباہی پر اب تک سرکاری طور پر نہ تو مرنے والوں کی تعداد سامنے آئی ہے اور نہ ہی کتنا نقصان ہوا ہے اس کی کوئی تفصیلات آئی ہے۔ لیکن گراؤنڈ پر کسی طرح پہنچے مختلف اخبارات اور میڈیا اداروں کے رپورٹرز نے جو کچھ لکھا اور دکھایا ہے، اسے محسوس کر کے روح کانپ رہی ہے۔ دھرالی میں تباہی کے بعد سے سرکاری طور پر ’اے این آئی‘ اور ’پی ٹی آئی‘ جیسی خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ راحت اور بچاؤ کا کام جاری ہے اور اب تک کتنے لوگوں کو بچا کر محفوظ مقامات یا کیمپوں میں لے جایا گیا ہے۔ لیکن اس پر خاموشی ہے کہ کتنے لوگوں کی جانیں تلف ہوئی ہیں، کتنے زخمی ہوئے ہیں، کتنے گھر تباہ ہوئے ہیں، کتنی دکانیں اور ہوٹل وغیرہ غائب ہوئے ہیں اور کتنے ملبے تلے دب گئے ہیں۔

دھرالی میں ویسے تو آفت کے بعد سے ہی مسلسل 8 دنوں سے راحت اور بچاؤ کا کام جاری ہے۔ ملبہ ہٹا کر لاشوں کو نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب تک سڑک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے کھدائی کے لیے بڑی مشینیں نہیں پہنچ پائی ہیں۔ کھدائی میں لگی چھوٹی مشینیں گیلی مٹی میں پھنس رہی ہیں۔ اس لیے کھدائی صرف ہاتھوں سے ہی کی جا رہی ہے۔ آفت کے فوراً بعد دھرالی میں 2 لاشیں ملی تھیں لیکن وہ ملبے سے باہر ہی تھیں۔ اس کے بعد سے ملبہ کھود کر ایک بھی لاش نہیں مل سکی ہے۔ کھدائی کے کام میں سب سے بڑی رکاوٹ ملبے میں بڑی بڑی چٹانوں کا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 80 ایکڑ پر پھیلا ملبہ 30-40 فٹ اونچا ہے۔ ملبے میں پتھروں کے ساتھ بہہ کر آئی مٹی اور ریت بھی ہے جو کھدائی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اب تک جو بھی مشینیں کسی نہ کسی طرح دھرالی تک پہنچی ہیں، ان سے ملبہ تو ہٹا دیا جاتا ہے، لیکن فوراً ہی گیلا ملبہ ارد گرد سے پھر اکٹھا ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب دھرالی سے چند کلومیٹر دور مادھوی پریڈ گراؤنڈ سرکاری ہیلی کاپٹروں کی آواز سے کانپتا رہتا ہے۔ اس جگہ کو عارضی کیمپ کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں دھرالی میں پھنسے ہوئے لوگوں کو لانے اور پھر دھرالی میں امداد بھیجنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس گراؤنڈ میں موجود ’نیوز لانڈری‘ کے لیے رپورٹنگ کرنے والے گوئنکا ایوارڈ یافتہ سینئر صحافی ہردیش جوشی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جن لوگوں کو لایا جا رہا ہے، ان میں دھرالی کا ایک بھی مقامی باشندہ نہیں ہے۔ صرف ایسے لوگوں کو لایا جا رہا ہے جو یا تو سیاح ہیں یا کسی اور کام سے دھرالی گئے تھے۔ اس کیمپ میں موجود دھرالی کے کچھ لوگوں سے ہردیش جوشی نے گفتگو کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دھرالی میں کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں نہ تو معلومات دی جا رہی ہیں اور نہ ہی یہ بتایا جا رہا ہے کہ امدادی سامان کسے دیا جا رہا ہے۔ دھرالی کے مقامی باشندہ نوین نے بتایا کہ وہ دھرالی جا کر اپنوں کی خیریت دریافت کرنا چاہتا ہے، لیکن کسی نہ کسی بہانے انہیں روک دیا جا رہا ہے۔ ایسے ہی دھرالی کی بندو ہیں۔ اس کا بھائی اور اس کے ساتھ آنے والی خاتون کا دیور لاپتہ ہے، لیکن انہیں نہ تو ان کے رشتہ داروں کے بارے میں کچھ بتایا جا رہا ہے اور نہ ہی انہیں دھرالی لے کر جایا جا رہا ہے۔ قیامت خیز تباہی کے 8 دن گزرنے کے بعد بھی نہ تو دھرالی تک سڑک کا رابطہ قائم ہوا ہے اور نہ ہی کوئی اور انتظام ہو پایا ہے۔ مقامی لوگوں کے اندازے کے مطابق کم از کم 60 افراد لاپتہ ہیں۔ ان میں سے بہت سے بہار، جھارکھنڈ اور نیپال کے مزدور ہیں۔ نیپال سے آئے کچھ لوگ تصویروں کے ساتھ اپنوں کو ادھر ادھر تلاش کر رہے ہیں۔

دھرالی میں صورتحال یہ ہے کہ تین-چار منزلہ کچھ مکانوں کی صرف چھتیں نظر آ رہی ہیں، باقی سب ملبے تلے دب گیا ہے۔ کچھ گھروں کی پہلی منزل ملبے سے بھری ہوئی ہیں، لیکن وہاں تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ’نیوز لانڈری‘ کے آشیش آنند کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے دھرالی جاتے ہوئے تباہی کا منظر دیکھا ہے۔ اترکاشی-گنگوتری ہائی وے تباہی کی گواہی دے رہی ہے۔ تباہ شدہ سڑکیں، لینڈ سلائیڈنگ کے زخم اور ٹوٹے ہوئے پل اس علاقے میں ہوئی تباہی کی داستان سنا رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے اب تک لاپتہ افراد کا کوئی ڈیٹا جاری نہیں کیا ہے۔ آفت کے چھٹے دن ضلع مجسٹریٹ پرشانت آریہ نے ایس ڈی ایم کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے، جو آفت میں لاپتہ، زخمی اور مرنے والوں کی رپورٹ پیش کرے گی۔ لیکن یہ رپورٹ اب تک سامنے نہیں آئی۔

جہاں تک راحت اور بچاؤ کا سوال ہے تو اس میں این ڈی آر ایف، ایس ڈی آر ایف، آئی ٹی بی پی، فوج اور پولیس انتظامیہ مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان تمام فورسز کو ملا کر اب تک کوئی 125 جوان گراؤنڈ زیرو پر ہیں۔ ’دینک بھاسکر‘ نے این ڈی آر ایف کے کمانڈنٹ سدیش کمار سے بات کی، انہوں نے کہا کہ ان کے پاس موجود تمام ٹیکنالوجی اور مشینیں ریلیف میں استعمال ہو رہی ہیں۔ ان میں گراؤنڈ پینیٹریٹنگ ریڈار، ریسکیو ریڈار، وکٹم لوکیٹنگ کیمرہ، روٹری ریسکیو سا، تھرمل امیجنگ کیمرہ اور ہائیڈرولک اسپلٹ کٹر جیسی ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...