تجزیہ کاروں کے مطابق چین پر ٹیرف میں 90 دن کی یہ مہلت ٹرمپ کی پالیسی میں غیر یقینی کا ایک اور ثبوت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی تجارتی حکمت عملی میں اکثر اچانک تبدیلی آتی ہے اور ٹیرف کے نفاذ یا ترمیم کے فیصلے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کیے جاتے ہیں۔ ماضی میں بھی ٹرمپ نے بعض ممالک یا مخصوص شعبوں پر بھاری ٹیرف کا اعلان کیا، لیکن چند دن یا ہفتوں بعد انہیں واپس لے لیا، ان میں رد و بدل کیا یا ان پر عمل درآمد روک دیا۔
اپریل کے اوائل میں ٹرمپ نے ’ریسیپروکل‘ یعنی جیسے کو تیسا ٹیرف کا اعلان کیا تھا، لیکن یہ اقدامات کئی بار مؤخر یا منسوخ کیے گئے اور بالآخر گزشتہ ہفتے نافذ ہونے سے قبل دوبارہ روک دیے گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آئندہ 90 دن میں امریکہ اور چین کسی تجارتی معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو یہ عالمی منڈیوں میں ایک مثبت اشارہ ہوگا، بصورت دیگر ٹیرف جنگ دوبارہ شدت اختیار کر سکتی ہے، جس کے عالمی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔