دہلی پولیس نے بہار ایس آئی آر کے خلاف مارچ کو روکا، اپوزیشن لیڈروں کو حراست میں لیا

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 11, 2025383 Views


سوموار کو اپوزیشن لیڈروں نے بہار ایس آئی آر کے خلاف پارلیامنٹ ہاؤس سے الیکشن کمیشن کے دفتر تک مارچ نکالا تھا۔ اس دوران راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں قائدحزب اختلاف ملیکارجن کھڑگےاور راہل گاندھی سمیت اپوزیشن کے ارکان پارلیامنٹ کو دہلی پولیس نے حراست میں لیا۔

لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور کانگریس کے رہنما راہل گاندھی دیگر ارکان کے ساتھ ٹی ایم سی رکن پارلیامنٹ میتالی باگ کی صحت کے بارے میں   دریافت کرتے ہوئے، جو سوموار 11 اگست 2025 کو نئی دہلی میں انڈیا بلاک کے ممبران پارلیامنٹ کے احتجاجی مارچ کے دوران بیمار پڑ  گئیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف ملیکارجن کھڑگے اور راہل گاندھی سمیت اپوزیشن کے اراکین پارلیامنٹ کو آج (11 اگست)  دہلی پولیس نے حراست میں لیتے ہوئے بہار میں ووٹر لسٹ کی ‘خصوصی نظر ثانی’ کے خلاف ان کےاحتجاجی مارچ کو روک دیا۔

حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ ایس آئی آرکے خلاف بینرز اٹھائے ہوئے تھے، وہ پارلیامنٹ ہاؤس سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے دفتر تک مارچ کرنے والے تھے۔ انہیں پولیس نے ٹرانسپورٹ بھون کے قریب بیریکیڈز لگا کرروک دیا، جہاں انہوں نے احتجاجی دھرنا دیا ۔

سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو اور مہوا موئترا اور سشمیتا دیو  سمیت ترنمول کانگریس کے کئی ممبران پارلیامنٹ پولیس کی جانب سے مارچ کو روکنے کے لیے کھڑی کی گئی رکاوٹوں پر چڑھتے ہوئے دیکھے گئے۔

سوموار11اگست 2025  کو نئی دہلی میں حزب اختلاف کے ‘انڈیا’ بلاک کے ممبران پارلیامنٹ کے مکر دوار سے الیکشن کمیشن تک احتجاجی مارچ کے دوران سیکورٹی اہلکار کی نگرانی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

یادو نے کہا، ‘وہ ووٹ روک رہے ہیں، ہم  لوگوں کے ووٹ کے  حق  کوبچانے کے لیے بیریکیڈز کو پار کر رہے ہیں۔ تاکہ الیکشن کمیشن ان لوگوں کے حوالے سے کارروائی کرے جن کے نام خارج کیے گئے ہیں۔ میں نے خود 18 ہزار ہٹائے گئے ووٹوں کی فہرست دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے حلف نامہ مانگا تھا، ہم نے دیا۔ انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔’

گاندھی نے نامہ نگاروں سے کہا، ‘وہ (الیکشن کمیشن) بات نہیں کرنا چاہتے۔ سچائی ملک کے سامنے ہے۔ یہ لڑائی سیاسی نہیں ہے – یہ جمہوریت اور آئین کے تحفظ اور ‘ایک شخص، ایک ووٹ’ کے حق کی لڑائی ہے۔ اس لیے ہم ایک صاف ستھری اور شفاف ووٹر لسٹ چاہتے ہیں۔’

اس کے بعد ارکان پارلیامنٹ کو حراست میں لیتے ہوئے  بسوں میں سنسد مارگ پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔

اس سے قبل اتوار کو الیکشن کمیشن نے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور جنرل سکریٹری (میڈیا اور کمیونی کیشن کے انچارج) جئے رام رمیش کو خط لکھ کر کہا تھا کہ وہ ‘جگہ کی کمی’ کی وجہ سے آج کی میٹنگ کے لیے گاڑیوں کے نمبروں کے ساتھ 30 اراکین کے نام فراہم کریں۔

رمیش نے کمیشن کو خط لکھ کر کہا تھااپوزیشن  کے تمام ارکان  پارلیامنٹ الیکشن کمیشن کے دفتر تک مارچ نکالیں گے اور تمام ایم پی خود کو بہارایس آئی آر تک محدود نہ رکھتے ہوئے بہت سے مسائل پر اجتماعی طور پر الیکشن کمیشن سے ملنا چاہتے ہیں۔

رمیش نے سوموار کو صحافیوں کو بتایا،’ہمارا مطالبہ، ہماری درخواست بالکل واضح ہے، تمام اپوزیشن ممبران پارلیامنٹ پرامن مارچ نکال رہے ہیں، مارچ کے اختتام پر ہم ایس آئی آر اور دیگر مسائل پر اجتماعی طور پر میمورنڈم پیش کرنا چاہتے ہیں، ہم نے وفد کا مطالبہ نہیں کیا، زبان صاف تھی – تمام اپوزیشن ممبران پارلیامنٹ اجتماعی طور پر میمورنڈم سونپنا چاہتے تھے۔اب ہمیں الیکشن کمیشن کے دفتر تک پہنچنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔پارلیامنٹ ہاؤس  کے ٹھیک سامنے جمہوریت  پر حملہ کیا جا رہا ہے، اس کو قتل کیا جا رہا ہے۔’

اس مارچ میں اپوزیشن کے بڑے رہنما شامل ہوئے ، جن میں این سی پی (ایس سی پی) کے سربراہ شرد پوار، ڈی ایم کےایم پی ٹی آر بالو، سنجے راوت (ایس ایس – یو بی ٹی)، ڈیرک اوبرائن (ٹی ایم سی)، کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا کے ساتھ ساتھ ‘انڈیا’  بلاک  سےآر جے ڈی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے دیگر اراکین پارلیامنٹ نے شرکت کی۔

کانگریس ایم پی پرینکا گاندھی واڈرا، ٹی ایم سی ایم پی ساگریکا گھوس دیگر لوگوں کے ساتھ نئی دہلی میں ‘انڈیا’ بلاک کے اراکین پارلیامنٹ کے ذریعے منعقدہ احتجاجی مارچ کے دوران۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

کھڑگے نے کہا، ‘اگر حکومت ہمیں الیکشن کمیشن تک پہنچنے نہیں دیتی ہے تو ہمیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ وہ کس چیز سے ڈرتے ہیں؟ یہ ایک پرامن احتجاج ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘یہ  وی وی آئی پی لوگوں کا مارچ تھا، اس لیے کسی ناخوشگوار واقعے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ ہم سب  300 لوگوں کو ایک ہال میں بٹھا کر ہماری باتیں سن سکتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم 30 ارکان بھیجیں۔ ہم یہ کیسے طے کر سکتے ہیں کہ ہمارے اتحادیوں میں سے کس کو جانا چاہیے؟ اگر وہ ہم سے ہال میں ملتے تو ہم اپنے تحفظات ان کے سامنے رکھتے۔’



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...