خاموش! عدالت جاری ہے، ہندوتوادیوں کی زبان بولتی ہے… اپوروانند

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 9, 2025361 Views


نہرو پلیس کی بھیڑ منظم نہیں تھی۔ ضروری نہیں کہ یہ لوگ بجرنگ دل یا آر ایس ایس کے اراکین ہوں۔ وہ فلسطین کا پرچم دیکھتے ہی مشتعل ہو گئے۔ ویسے ہی جیسے عدالت غزہ کے لیے ہمدردی کی بات سنتے ہی ناراض ہو گئی۔

عدالت، تصویر آئی اے این ایسعدالت، تصویر آئی اے این ایس

i

user

ہم ہندوستان کے کئی علاقوں میں پولیس اور ہندوتوا بھیڑ کو ایک ہی طرح سے کام کرتے دیکھ چکے ہیں۔ خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کے معاملے میں۔ لیکن جب عدالت بھی ہندوتوادی حب الوطنوں کی طرح دلیل پیش کرنے لگے، تب الرٹ ہو جانا چاہیے۔ سمجھ جانا چاہیے کہ پانی سر سے اوپر جا چکا ہے۔ یہ تنبیہ ملی ممبئی اور دہلی کے 2 واقعات سے۔

ایک واقعہ بامبے ہائی کورٹ کا ایک تبصرہ ہے، اور دوسرا دہلی کے نہرو پلیس میں بھیڑ کا رد عمل۔ دونوں کا تعلق غزہ میں اسرائیل کے ذریعہ جاری قتل عام سے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بامبے ہائی کورٹ کے کمرے اور دہلی کے نہرو پلیس میں کیا یکسانیت ہے؟

’فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف ہندوستان میں آواز اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمارے پاس اپنے ہی اتنے مسائل ہیں!‘ یہ کوئی سڑک چلتا آدمی نہیں بول رہا ہے، بامبے ہائی کورٹ نے سی پی آئی (ایم) کو یہ پھٹکار لگائی جب اس نے عدالت کے آگے غزہ میں اسرائیل کے ذریعہ کیے جا رہے قتل عام کے خلاف مظاہرہ کی اجازت طلب کرتے ہوئے عرضی لگائی۔

پولیس نے اس احتجاجی مظاہرہ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد سی پی آئی (ایم) نے عدالت سے اجازت مانگی تھی۔ عدالت نے اجازت دینا تو دور، عرضی دہندگان کو نصیحت دے ڈالی کہ وہ ’حب الوطن بنیں‘، اپنے ملک کے مسائل پر توجہ دیں۔ باہر اتنی دور غزہ میں کیا ہو رہا ہے، اس سے انھیں کیا لینا دینا ہے۔

حب الوطنی اور فلسطینیوں کے تئیں یکجہتی میں مخالفت کیونکر ہو، یہ سوال عدالت سے پوچھا جا سکتا ہے۔ ’حب الوطن بنو‘، اس حکم کا مطلب کیا یہ ہے کہ دوسروں کے دکھ درد سے کوئی رشتہ نہ رکھو اور خود غرض بن جاؤ؟ کیا حب الوطنی یہ سکھلاتی ہے کہ ہم خود میں گم ہو جائیں اور اپنے چاروں طرف جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے آنکھ کان بند کر لیں؟

حب الوطنی کی جتنی بھی تشریحات دنیا بھر کے عظیم فلسفیوں نے کی ہیں، اس میں تنگ نظری کی کہیں جگہ نہیں ہے۔ وہ علیحدگی پسند نہیں ہے۔ کیا فلسطین لفظ میں کچھ ہے جو محب وطن کان کو کھٹکتا ہے؟

کچھ دوست کہہ سکتے ہیں کہ یہ جج کا فوری رد عمل بھر تھا، اور یہ انھوں نے اپنے حکم میں نہیں لکھا۔ ہمارے لیے فکر کی بات یہ فوری رد عمل ہی ہے۔ کوئی کسی کو حب الوطن ہونے کے لیے نصیحت دینے کا حق رکھتا ہے، یہ بات ہی باعث فکر ہونی چاہیے۔ لیکن اس سے آگے یہ فکر کی بات ہے کہ جج کہہ رہے ہیں کہ حب الوطن ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ کسی اور سے ہمدردی نہ دکھلائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...