ٹرمپ اور مودی کی وہ ’ کشیدہ’ ٹیلی فون کال، جس نےبھارت سے متعلق دہائیوں پرانی امریکی پالیسی بدل ڈالی – World

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 8, 2025360 Views



رواں سال مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد نئی دہلی کے حکام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے پر سخت برہم تھے کہ انہوں نے چار روزہ جنگ کا خاتمہ کرایا۔

بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق جب امریکی صدر بار بار اس بات پر زور دیتے رہے کہ انہوں نے ایک ایٹمی جنگ کو روکا، تو بھارتی سفارتکاروں نے عوامی سطح پر ان کے مؤقف کی مخالفت شروع کر دی۔

یہ کشیدگی 17 جون کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک فون کال میں اپنے عروج پر پہنچی، یہ بات چیت اس وقت ہوئی، جب ٹرمپ کینیڈا میں منعقدہ گروپ آف سیون سربراہی اجلاس سے قبل ہی روانہ ہو گئے تھے اور بھارتی رہنما سے بالمشافہ ملاقات نہ کر سکے تھے۔

اس 35 منٹ کی گفتگو میں مودی نے ٹرمپ سے کہا کہ دونوں ممالک نے پاکستان کی درخواست پر براہ راست جنگ بندی پر بات چیت کی، جو بھارت کی بمباری کے بعد ہوئی تھی، بھارتی سرکاری بیان کے مطابق مودی نے کہا کہ بھارت ’ کبھی بھی ثالثی کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی کرے گا’ اور مزید کہا کہ ٹرمپ ’ غور سے سن رہے تھے۔’

مودی کو یہ وضاحت اس لیے ضروری لگی کیونکہ انہیں معلوم ہوا کہ ٹرمپ اگلے دن پاکستانی آرمی چیف سید عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کرنے والے ہیں۔

بھارتی حکام کے مطابق اگرچہ سویلین پاکستانی قیادت سے ملاقات پر کوئی اعتراض نہ تھا، لیکن پاکستانی آرمی چیف سید عاصم منیر کو مدعو کرنا پاکستانی فوج کو بین الاقوامی جواز دینا سمجھا گیا، اس خدشے کے پیش نظر کہ ٹرمپ مودی اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کا انتظام کر سکتے ہیں، مودی نے وائٹ ہاؤس کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور کروشیا کے طے شدہ دورے کو ترجیح دی۔

اگرچہ امریکا نے کبھی براہ راست یہ درخواست نہیں کی کہ مودی جنگ بندی میں ٹرمپ کے کردار کو تسلیم کریں، لیکن نئی دہلی کے حکام کے مطابق اس فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس کے لہجے میں تبدیلی محسوس کی گئی، ان کا کہنا تھا کہ جب ٹرمپ نے بھارت پر کھلے عام تنقید شروع کی، تو یہ تعلقات میں بگاڑ کا واضح اشارہ تھا۔

مئی اور جون کے واقعات دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں حیران کن اضافے کی وضاحت کرتے ہیں، جو اس ہفتے اس وقت اپنے عروج پر پہنچا جب ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ امریکی منڈی میں بھارتی برآمدات پر 50 فیصد ٹیرف لگائیں گے، جس میں نصف حصہ روسی تیل کی خریداری پر جرمانے کے طور پر شامل ہے۔

اگرچہ ٹرمپ نے کسی معاہدے کے امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا، لیکن بھارت پر ان کے تیز و تند بیانات نے امریکا کی دہائیوں پر محیط اس کوشش کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کا مقصد دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کو چین کے توازن کے طور پر ساتھ ملانا تھا۔

اس مہینے ٹرمپ نے بھارت کو ایک ’ مردہ’ معیشت قرار دیا، جس میں’ قابلِ نفرت’ تجارتی رکاوٹیں ہیں، ٹرمپ نے کہا تھا کہ بھارت کو یوکرینیوں کی ہلاکت پر کوئی فکر نہیں، جون کی اس کال کے بعد سے مودی اور ٹرمپ کی بات نہیں ہوئی۔

سابق امریکی سفیر ایریک گارسیٹی نے کہا کہ’ لگاتار امریکی حکومتوں کے بنائے ہوئے محتاط اتفاقِ رائے نے تقریباً تین دہائیوں سے دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتوں کو قریب کیا، اور اگر اس مسئلے کو جلد حل نہ کیا گیا تو حکومت کا یہ رویہ اس پیش رفت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، امید ہے کہ دونوں دارالحکومتوں میں ہوش مندانہ سوچ غالب آئے گی، کیونکہ داؤ بہت بڑا ہے۔’

بھارت کی وزارت خارجہ نے مزید معلومات کے لیے بھیجی گئی ای میل کا جواب نہیں دیا۔

وائٹ ہاؤس نے بھی اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ امریکا-بھارت تعلقات کیسے بگڑے اور بھارت-پاکستان جنگ بندی میں ٹرمپ کے کردار کی تفصیلات کیا ہیں۔

جمعرات کو ایک بریفنگ میں امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ٹومی پگوٹ نے کہا تھا کہ ٹرمپ بھارت کے ساتھ تجارتی عدم توازن اور روسی تیل کی خریداری سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

ٹومی پگوٹ نے کہا تھا کہ’بھارت ایک اسٹریٹجک شراکت دار ہے جس کے ساتھ ہمارا کھلا اور صاف مکالمہ جاری رہے گا، خارجہ پالیسی میں آپ ہر وقت ہر چیز پر 100 فیصد اتفاق نہیں کر سکتے۔’

سال کے اوائل میں جب ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس لوٹے تو ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنے پہلے دور کے دوران مودی کے ساتھ بننے والے گرم جوش تعلقات کو مزید آگے بڑھائیں گے، امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’ دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان تعلقات پہلے سے کہیں بہتر ہیں،’ جبکہ مودی نے ٹرمپ کو ’میرا عزیز دوست‘ کہا تھا۔

اپریل کے اوائل میں ٹرمپ کے ’ لبریشن ڈے’ ٹیرف کے بعد دونوں ممالک نے تیزی سے تجارتی مذاکرات شروع کیے، نائب صدر جے ڈی وینس نے چند ہفتے بعد بھارت کا دورہ کیا اور دونوں فریقوں نے معاہدے کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

تاہم جیسے جیسے ہفتے گزرتے گئے، مذاکرات مزید مشکل ہوتے گئے، چین کے ساتھ ٹرمپ کے معاہدے کے بعد بھارت کا رویہ سخت ہونے لگا، اور نئی دہلی نے امریکا کی جانب سے اسٹیل اور ایلومینیم پر اضافی ڈیوٹی کے جواب میں جوابی ٹیرف لگانے کی دھمکی دی، جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلوں اور زرعی رسائی جیسے پرانے مسائل پر بھی کشیدگی سامنے آئی۔

پھر بھارت-پاکستان جنگ بندی پر اختلاف اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ٹرمپ کے سخت مؤقف کا معاملہ آ گیا، جنہوں نے یوکرین کے ساتھ جنگ بندی کی امریکی کوششوں کی مزاحمت کی، جولائی کے وسط میں دباؤ بڑھانے کے لیے ٹرمپ نے روسی تیل درآمد کرنے والے ممالک پر بھاری ٹیرف کی دھمکی دی اور بھارت اس کی براہِ راست زد میں آ گیا۔

بھارتی حکام اب بھی معاہدے تک پہنچنے پر پُراعتماد تھے اور ایک تجویز ٹرمپ کی میز پر بھیج دی گئی تھی، اس امکان کو دیکھتے ہوئے کہ امریکی صدر کسی بھی وقت معاہدے کا اعلان کر سکتے ہیں، مودی نے اپنی ٹیم کو ایک خیرمقدمی بیان تیار کرنے کی ہدایت دی تھی

لیکن صدر نے دیگر کئی ممالک کے ساتھ معاہدے کا اعلان کر کے بھارت کو حیران کر دیا، پھر 30 جولائی کو ٹرمپ نے 25 فیصد ’ جوابی’ ٹیرف کا اعلان کیا، جس کے روس کے معاملے پر تناؤ میں مزید اضافہ ہو جس کے بعد بھارت پر اس ہفتے مزید بھاری ڈیوٹی عائد کردی گئی۔

ایک بھارتی اہلکار نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، کئی غلطیوں کا اعتراف کیا، ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کاروں نے زرعی لابی، مڈویسٹرن سینیٹرز اور ڈیری کوآپریٹوز کی طاقت کو کم سمجھا، اور ایک متبادل منصوبہ تیار کرنے میں ناکام رہے جو ٹرمپ کے دباؤ بڑھانے کی صورت میں فوری کامیابی دے سکتا۔

اس ہفتے ٹرمپ کی جانب سے کشیدگی بڑھانے کے بعد مودی نے چھوٹے کسانوں کے مفادات کے تحفظ کا عزم کیا تھا، جبکہ ان کی حکومت نے امریکی ٹیرف کو ’ غیر منصفانہ، بلا جواز اور نامناسب’ قرار دیا تھا، پھر بھی، صورتحال سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت جوابی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا اور حکام یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ کیا کچھ رعایتیں، خاص طور پر زراعت اور ڈیری کے شعبے میں، دے کر کوئی معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

اسی وقت، مودی امریکا کی جانب حالیہ جھکاؤ پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران بھارت نے سوویت یونین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلق قائم کیا تھا تاکہ امریکا کے پاکستان کے ساتھ اتحاد کا مقابلہ کیا جا سکے۔ دہائیوں تک نئی دہلی روسی حمایت پر بھروسہ کرتا رہا، بشمول 1971 کی پاک-بھارت جنگ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں۔

بھارت کے سابق ہائی کمشنر نوادپ سُری نے کہا کہ’ روس کے ساتھ تعلق پرانا اور آزمودہ ہے۔ جب جب امریکا نے نئی دہلی کو مایوس کیا، بشمول اقوام متحدہ میں، ماسکو بھارت کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا رہا۔ تیل موجودہ کہانی کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ وہ ایسے ملک کے طور پر سامنے آئے جو امریکی دباؤ کے آگے جھک گیا ہو۔’

0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...