25 جولائی 2025ء کو الجزیرہ ویب سائٹ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل پاکستان میں ’بلوچوں کی جدوجہد کو یرغمال‘ بنانے یا اس سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ جولائی 1948ء سے پاکستان کو صوبہ بلوچستان میں کئی سورشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جوکہ گزشتہ 77 سالوں سے وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں۔
قبائلی سورشوں سے لے کر بائیں بازو کی ’آزادی‘ کی بغاوتوں اور علیحدگی پسند ذیلی قوم پرست تحریکوں تک، بلوچستان متعدد بلوچ قوم پرست تنظیموں اور تحریکوں کا شاہد رہا ہے۔
ان میں سے کچھ اب بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے وفاقی نظام کا حصہ رہ کر بلوچ عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ تاہم گزشتہ 10 سال یا اس سے زائد عرصے سے مزید ایسے گروہ سامنے آئے ہیں جو پاکستان سے مکمل آزادی کے خواہاں ہیں۔
دنیا بھر کی بیشتر علیحدگی پسند تحریکوں کی طرح بلوچ ’آزادی‘ کے گروپس کو بھی بیرونی ممالک کی مدد حاصل رہی ہے۔ عام طور پر ایسی تحریکوں کی بیرونی حمایت کے بغیر بقا ممکن نہیں۔ تاہم بیرونی مدد حاصل کرنے کا ہمیشہ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ تحریکیں کامیاب بھی ہوں گی۔
بلاشبہ ایسے مواقع آئے ہیں کہ جب بیرونی مدد سے علیحدگی کی تحریکیں اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اس سلسلے کی ایک مثال سابقہ مشرقی پاکستان ہے جہاں بنگالی قوم پرست جنہوں نے بھارت سے عسکری مدد لی اور پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنایا۔
ایک اور مثال کوسوو لبریشن فرنٹ (کے ایل ایف) ہے۔ یہ سب سے پہلے کوسوو کے علاقے کو یوگوسلاویا سے آزاد کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ 1992ء میں یوگوسلاویا کے ٹوٹنے اور کوسوو کے سربیا کا حصہ بننے کے بعد، کے ایل ایف نے پھر سربیا کے خلاف اپنی لڑائی پر توجہ مرکوز کی۔
کے ایل ایف اس وقت تک اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتا رہا کہ جب تک نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) ممالک نے اس کی حمایت شروع نہ کی۔ نیٹو سلوبودان مولوسووچ کی قیادت میں سربیا کی قوم پرست حکومت کو برطرف کرنا چاہتا تھا۔ 1990ء کی دہائی کے اواخر میں کے ایل ایف کے جنگجوؤں اور مخبروں نے سلوبودان حکومت کو ختم کرنے میں نیٹو کی مدد کی جس مقصد کے لیے نیٹو کے طیاروں نے سربیا کی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
2000ء میں سلوبودان مولوسووچ کا تخت الٹ چکا تھا۔ اس کے بعد نیٹو نے کے ایل ایف کو سرکاری فورس میں تبدیل کرنے میں مدد دی اور 2008ء میں سربیا سے آزادی کا اعلان کرنے تک کوسوو میں اپنے فوجی دستے تعینات رکھے۔
لیکن زیادہ تر معاملات میں بیرونی مدد، محض علیحدگی پسند تحریکوں کو کچھ دیر جاری رکھنے میں مدد کرسکتی ہیں۔ زیادہ تر یہ بیرونی عناصر ان تحریکوں کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ناکام رہے اور بعض اوقات ایسا پالیسی وجوہات کی بنیاد پر ہوا۔ محقق جوشوا سی انڈر ووڈ کے مطابق اگر علیحدگی پسند تحریک کو بیرونی فوجی حمایت حاصل نہیں ہوتی تو وہ عموماً ناکام ہوجاتی ہے۔
جوشوا سی انڈر ووڈ نے سری لنکا میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کی مثال دی ہے۔ ایل ٹی ٹی ای جو شمالی سری لنکا میں تامل لوگوں کے لیے ایک الگ وطن بنانا چاہتی تھی، اس نے 1983ء سے 1987ء تک سری لنکا کی حکومت کے خلاف پُرتشدد مہم چلائی۔
بھارتی ماہر تعلیم رجت گنگولی کے مطابق اس عرصے کے دوران بھارت نے ایل ٹی ٹی ای کے عسکریت پسندوں کو ہتھیار اور تربیت فراہم کی۔ لیکن 1987ء میں بھارت کی جانب سے تامل علیحدگی پسندوں کی حمایت کو برے خیال کے طور پر دیکھا جانے لگا کیونکہ یہ خدشہ تھا کہ اس سے یہ تحریک بھارت کے اپنے تامل اکثریتی علاقوں میں پھیل سکتی ہے جبکہ ایل ٹی ٹی ای نے دیگر تامل گروہوں پر حملے شروع کر دیے تھے جنہیں بہت سے بھارتی تامل شہریوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ بھارت سری لنکا میں مسلسل عدم استحکام پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ وہ سری لنکا کو پاکستان کا حامی سمجھتا ہے۔ سری لنکا نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرکے اس کا ازالہ کیا جس کے تحت بھارتی فوجیوں کو سری لنکا میں کام کرنے اور تامل عسکریت پسندوں سے لڑنے میں سری لنکن فوجیوں کی مدد کرنے کی اجازت دی گئی۔
سی انڈر ووڈ کے مطابق جب بھارت نے ایل ٹی ٹی ای کو فوجی امداد دینا بند کردی تو اس کی بقا خطرے میں پڑ گئی۔ اور پھر 2009ء تک سری لنکا کی مسلح افواج نے تامل علیحدگی پسند تحریک کو کچل دیا تھا۔
تین اہم اقسام کی امداد ہیں جو بیرونی ممالک علیحدگی پسند تحریکوں کو فراہم کرتے ہیں جن میں معاشی، فوجی اور اخلاقی حمایت شامل ہیں۔ لیکن عسکری مدد سب سے کلیدی ہے پھر چاہے بیرونی طاقت کی پالیسی صرف ایک ملک کو مستقل غیر مستحکم رکھنے میں مرکوز کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اب پاکستان میں بلوچ تحریکوں کی کھل کر حمایت کررہا ہے۔ اس کی سوچ یہی ہے کہ بلوچستان میں مسلسل عدم استحکام چین کی پاکستان میں اقتصادی موجودگی کو نقصان پہنچائے گا۔
اس سلسلے میں اسرائیل کی مداخلت کی اطلاعات حیران کُن نہیں۔ لیکن تاریخی اعتبار سے اسرائیل نے عراق میں کردوں کی علیحدگی پسند تحریک اور شام میں ڈروز کے لیے اسرائیل کی حالیہ فوجی حمایت کے علاوہ کبھی ایسی علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت نہیں کی ہے۔ بلوچستان میں اسرائیل کا مقصد صوبے کو غیرمستحکم رکھنا ہوسکتا ہے لیکن یہ بھارت ہی ہے جو بلوچستان میں بیرونی کردار بنا ہوا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں کا انحصار مختلف بیرونی عناصر پر رہا ہے جیسے افغانستان، عراق، ایران اور اب بھارت۔ عراق اب اس سلسلے میں زیادہ فعال نہیں ہے جبکہ افغانستان کی بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت پاکستان مخالف اسلام پسند تحریکوں کی حمایت کرنے کے لیے جاری ہے۔ ایران کی مبینہ حمایت، پاکستان کی ایران مخالف بلوچ برادریوں سے براہ راست منسلک ہے۔ لیکن کبھی بھی کسی بیرونی کردار نے بلوچ علیحدگی پسندی میں اتنی بھاری سرمایہ کاری نہیں کی جتنی کہ بھارت نے 2014ء کے بعد سے کی ہے۔
محقق میر شیرباز کھیتران کے مطابق چونکہ بلوچستان سیاسی اور معاشی اعتبار پر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، اس لیے بیرونی ممالک کے لیے حالات کا فائدہ اٹھانا اور خطے کو پاکستان میں مسائل اور عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا آسان ہوگیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ بیرونی عناصر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
پاکستان جوہری طاقت ہے۔ اگرچہ مغربی طاقتیں پاکستان میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی سرمایہ کاری سے بھارت کی طرح پریشان ہوسکتی ہیں لیکن وہ ممکنہ طور پر نہیں چاہتے کہ پاکستان مکمل طور پر ختم ہو جائے کیونکہ اس طرح اس کے جوہری ہتھیاروں کا ممکنہ طور پر غلط ہاتھوں میں جانے کا خطرہ ہوگا۔ لہٰذا یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو غیرمستحکم رکھنے کا خیال چین کو اس سے دور رکھنے کے لیے ہے۔ بھارت نے بلوچ (نیز اسلام پسند) عسکریت پسندوں کو فنڈز، ہتھیار اور تربیت فراہم کرکے ایسا کرنے کی کوشش کی ہے۔
نتیجتاً اس نے بلوچ علیحدگی پسند کوششوں کے پس منظر سے کسی بھی طرح کے ’نظریے‘ کو ختم کردیا ہے۔ بھارتی حمایت یافتہ اسلام پرست عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ بلوچ علیحدگی پسند بھی خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیار بن چکے ہیں۔
کے ایل ایف نے جنگجو اور مخبر کے طور پر کام کرتے ہوئے نیٹو کے ساتھ مل کر کام کیا، نیٹو کو سربیا کو شکست دینے اور کوسوو کو آزادی دلانے میں مدد کی۔ لیکن رواں سال مئی میں پاکستان کے خلاف بھارت کے فضائی اور میزائل حملوں کا نتیجہ صرف بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے ریاست مخالف بیان بازی ہی ہوسکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کے خلاف مؤثر طریقے سے جوابی کارروائی کی اور بلوچستان میں کے ایل ایف جیسا منظرنامہ تقریباً ناممکن بنا دیا۔
چین اور پاکستان کی قربت کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ کمزور ہوتے بھارت کے لیے بلوچ عسکریت پسندوں کی حمایت جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا حالانکہ اس نے حالیہ جنگ کے بعد اپنی حمایت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند تحریک کے لیے ناکامیوں کے دلدل میں پھنسے رہنے کا امکان موجود ہے۔ اگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ملک میں اپنی حمایت کھوتے رہے تو بلوچ عسکریت پسندوں کے لیے بھارت کی یہ موجودہ حمایت بھی ختم ہوسکتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اس تنازع میں کود پڑا ہے؟
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔