’آئندہ ماہ ایس سی او اجلاس میں مودی کے لیے پاکستان اور ایران کا سامنا کرنا انتہائی مشکل ہوگا‘ – Opinions

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 22, 2025361 Views



حیرت کی بات نہیں کہ پیو (Pew) کے حالیہ سروے میں سامنے آیا ہے کہ کینیا اور نائجیریا کے ساتھ بھارت ان چند ممالک میں شامل ہے جو اسرائیل کے بارے میں مثبت نظریہ رکھتے ہیں۔ پیو کے مطابق یہ تینوں ممالک غیر معمولی تھے کیونکہ سروے میں شامل 24 ممالک جن میں زیادہ تر مغربی اور کچھ ایشیائی اور افریقی ممالک تھے، بیشتر نے اسرائیل کے لیے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

اس طرح کے سروے عمومی طور پر ایسی زبان یا فارمیٹ میں کیے جاتے ہیں کہ جس میں متوسط طبقے کے شہری بھی شامل ہوتے ہیں، اس لیے ان کی رائے کو ہی قومی رائے سمجھا جاتا ہے حالانکہ عام لوگوں سے بہت کم ہی رائے طلب کی جاتی ہے۔

سروے میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی فوجی حملے کی وجہ سے عالمی سطح پر اسرائیل مخالف جذبات نے جنم لیا ہے۔ ’اسرائیل کے بارے میں بھارت کا نسبتاً مثبت تاثر محض ایک جغرافیائی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک گہری تزویراتی اور نظریاتی صف بندی کا نتیجہ ہے‘۔

سروے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل بحرانوں میں بھارت کے ساتھ کھڑا رہا ہے جس نے خاص طور پر پاکستان کے ساتھ حالیہ تنازعے میں نئی دہلی کی غیرمشروط حمایت کا اعلان کیا تھا۔ بھارت کی ’اسرائیل کے لیے حمایت‘ کی ایک بڑی وجہ ملک کا بدنام زمانہ خود پسند اور بڑھتا ہوا مذہب پرست متوسط طبقہ ہے۔

جارج ڈبلیو بش کے عراق پر حملے کے دوران پیو کے پہلے سروے میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقہ سمیت تقریباً پوری دنیا نے امریکی صدر کو سختی سے ناپسند قرار دیا ہے۔ اس میں ایک استثنیٰ بھارت تھا۔ تو یہ صرف اسرائیل کے بارے میں نہیں بلکہ شاید یہ اس نوآبادیاتی ذہنیت کا عکاس ہے جو سوویت یونین کے خاتمے سے یتیم ہونے والے متوسط طبقے میں پروان چڑھا۔

یاد رہے کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا تھا اور وہ بہ ظاہر حیران نظر آئے کہ جب نئی دہلی میں بھارتی وزیرِ اعظم منموہن سنگھ نے ان سے کہا کہ بھارتی شہری آپ سے پیار کرتے ہیں۔ یہ وہی منموہن سنگھ ہیں جنہوں نے سرد جنگ کے بعد بھارت کے متوسط طبقے کی تشکیل نو میں مدد کی تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ اسرائیل اور امریکا کے لیے متوسط طبقے کی بڑھتی حمایت کا تعلق بھارت میں بڑھتی ہندو قوم پرستی سے ہے۔

تاہم ہندوتوا کے ذریعے جس قسم کی قوم پرستی کو فروغ دیا گیا ہے، اسے جلد ہی ایک فیصلہ کُن لمحے کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ اپنے ملک میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہوگا۔ بھارت اگلے برس برکس سربراہی کانفرنس کی میزبانی کرنے والا ہے اور اس کی کامیابی کے لیے اسے چین کی مکمل حمایت کی ضرورت ہے۔

بہت سے برکس رکن ممالک بھارت کے بڑے مفادات کی وجہ سے گروپ سے اس کی وابستگی کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں بالخصوص بہت سے ممالک کے خیال میں بھارت امریکا کو خوش کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔

اگر قسمت نے اجازت دی تو وزیر اعظم نریندر مودی 25ویں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس جس کا آغاز 31 اگست کو ہوگا، میں شرکت کرنے کے لیے دو روزہ دورے پر چین جانے والے ہیں۔ یہ مودی کو ایک مشکل صورت حال میں ڈال سکتا ہے کیونکہ پاکستان اور ایران دونوں اس اجلاس میں موجود ہوں گے۔ اسرائیل کے بارے میں بھی بات ہوگی اور امریکا کے بارے میں بھی اور مودی بے بسی سے دیکھ رہے ہوں گے۔

پاکستان اور چین کا ایک گروپ میں ہونا بھی حالیہ فوجی تصادم کے بعد مودی کے لیے ایک تکلیف دہ منظر ہوگا جس میں چین نے پاکستان کا ساتھ دیا جبکہ اسرائیل نے بھارت کی حمایت کا اظہار کیا۔

برکس، شنگھائی تعاون تنظیم کا قریبی کزن ہے اور برازیل میں اس کے سربراہی اجلاس میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے علاوہ ایران کے خلاف جنگ کی شدید مذمت میں ایک قرارداد بھی دیکھنے میں آئی تھی۔ یہ دونوں ایسے مسائل ہیں جس پر مودی خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ ان کی وفاداری بنیامن نیتن یاہو کے ساتھ ہے پھر چاہے وہ کتنا ہی ممکنہ تبدیلی کا دکھاوا کیوں نہ کرے۔ تاہم جب سے نیتن یاہو نے ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ چھیڑنے کی غلطی کی ہے اور اس نے اسرائیلی شہروں کو جس تباہی سے دوچار کیا، اس نے اگر بھارت کو عالمی مسائل کو زیادہ حقیقت پسندانہ طور پر دیکھنے پر مجبور نہیں کیا تو ذاتی طور پر مودی اور ہندوتوا کو پریشان ضرور کیا ہے۔

متعدد برکس ممالک کے اشتراک کردہ مغرب مخالف خیالات سے مودی کی بے چینی واضح ہے۔ برازیل میں برکس سربراہی اجلاس میں بھارت نے کوشش کی کہ دہشتگردی کے تناظر میں باقاعدہ پاکستان کا نام لیا جائے لیکن بھارت کی کوششوں کو نظرانداز کردیا گیا۔

بھارت کی بےچینی اس سے بھی کسی طرح کم نہیں ہوئی کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے آرمی چیف کو ظہرانے پر مدعو کیا اور وہ بھی اس کے فوراً بعد کہ جب انہوں نے مودی کے آپریشن سندور کے جواب میں اسلام آباد کی کارروائیوں کی قیادت کی۔ ظہرانے سے فطری طور پر بھارت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا کیونکہ پاکستان کے خلاف آپریشن سندور کا آغاز زمینی حقائق کو بدلنے کی توقعات کے ساتھ کیا گیا تھا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اگرچہ دنیا نے پہلگام میں دہشتگردانہ حملے کی مذمت کی لیکن 12 روزہ جنگ میں خاموش رہے۔

اس سے بھی بدتر یہ کہ مودی کے لیے پہلے ہی اپنے ہم وطنوں کو قائل کرنا مشکل ہورہا ہے کہ کیوں بھارت نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی کیونکہ ان کے مطابق تو ڈونلڈ ٹرمپ کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اگر جنگ میں بھارت کے مقاصد پورے نہیں ہوئے تھے تو جنگ بندی کیوں ہوئی؟ اور اگر اس کے مقاصد پورے ہوگئے تھے تو کوئی تبدیلی کیوں نہیں آئی؟
یہ کچھ سوالات ہیں جو بھارتی شہری اٹھانے لگے ہیں۔

وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان پر بھی وضاحت کے طالب ہیں کہ جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف مختصر فضائی جنگ میں کئی طیارے کھو دیے۔ اب یہ معاملہ بھارتی پارلیمنٹ میں بحث کے لیے تیار ہے۔

کیا مودی چین کی زیر قیادت برکس گروپ اور امریکا کی قیادت میں جی 7 کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے ساتھ اپنا توازن برقرار رکھ سکتے ہیں؟ ٹرمپ کے طعنوں کے باوجود مودی کے خوش مزاج وزیر خارجہ کو ایک آزاد ملک کی آزاد خارجہ پالیسی کے بجائے واشنگٹن، ڈی سی کے لیے زیادہ بولتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔

ایک ممکنہ وجہ ارب پتی گوتم اڈانی پر میں امریکی ایجنسیز کی کرپشن کی تحقیقات کا دباؤ ہوسکتا ہے جن کے جہاز میں سوار ہوکر نریندر مودی 2014ء میں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لینے نئی دہلی آئے تھے۔ کیا ٹرمپ اسے بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں؟ کیا ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے مودی بھارت کو سفارتی جال میں پھنسا رہے ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ تو پوری دنیا کے ساتھ ہی بدتہذیبی سے پیش آرہے ہیں، ایسے میں بھارت کسی طرح مختلف نہیں۔

مودی پر مغربی کیمپ کے قریب رہنے کے لیے اور بھی زیادہ دباؤ ہے کیونکہ ان کے اندرونی حلقے کے بہت سے لوگوں نے اپنے لاکھوں یا اربوں ڈالرز امریکا میں کمائے ہیں۔ اگر برکس ڈالر کی طاقت کو چیلنج کرنے کے اپنے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو ذرا سوچیں کہ یہ ان لوگوں کو کس مشکل میں ڈال سکتا ہے۔

اس کے باوجود نریندر مودی کو برکس سربراہی اجلاس کو کامیاب بنانا ہے جس کی میزبانی وہ اگلے سال کریں گے، جبکہ چین بھی اس پر قریبی نظر رکھے گا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...