2006 کے ممبئی ٹرین دھماکوں میں سزا یافتہ 12 مسلمان شہری باعزت بری – World

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 21, 2025360 Views



بمبئی ہائی کورٹ نے اہم فیصلے میں 7 نومبر 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکوں میں سزا یافتہ تمام 12 افراد کو بری کر دیا، عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا، تمام ملزمان مسلمان تھے جن میں سے 5 کو ٹرائل کورٹ نے سزائے موت اور 7 کو عمر قید سنائی تھی۔

بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق جسٹس انیل ایس کلور اور جسٹس شیام سی چندک پر مشتمل خصوصی ڈویژن بینچ نے مہاراشٹرا کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (ایم سی او سی اے) کے تحت قائم خصوصی عدالت کے 2015 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جس نے 5 ملزمان کو سزائے موت اور 7 کو مختلف دفعات کے تحت عمر قید کی سزا سنائی تھی، جن میں انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی)، انسداد غیر قانونی سرگرمی ایکٹ (یو اے پی اے)، ایم سی او سی اے اور ایکسپلوسوز ایکٹس شامل ہیں۔

بارہ میں سے ایک ملزم کمال احمد محمد وکیل انصاری 2021 میں ناگپور جیل میں قید کے دوران کورونا وبا کا شکار ہوکر انتقال کر گیا تھا۔

بینچ نے ریمارکس میں کہا کہ ’استغاثہ ملزمان کے خلاف کیس کو معقول شک سے بالاتر ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا، یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ملزمان نے یہ جرم کیا، لہٰذا ان کی سزا کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے‘۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اصل مجرم کو سزا دینا قانون کی حکمرانی اور عوام کی سلامتی کے لیے ضروری قدم ہے، لیکن اگر کیس کو غلط طور پر حل شدہ ظاہر کیا جائے تو یہ عوامی اعتماد کو دھوکہ دیتا ہے اور حقیقی خطرہ برقرار رہتا ہے، یہی اس مقدمے کا پیغام ہے‘۔

یاد رہے کہ 11 جولائی 2006 کو ممبئی کی 7 لوکل ٹرینوں میں شام 6 بجکر 23 منٹ سے 6 بجکر 29 منٹ کے درمیان 7 بم دھماکے ہوئے تھے، جن میں 187 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور تقریباً 824 زخمی ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد ممبئی کے مختلف تھانوں میں 7 الگ ایف آئی آرز درج کی گئی تھں جنہیں بعد میں یکجا کر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے حوالے کیا گیا تھا، اے ٹی ایس نے 13 افراد کو گرفتار کیا تھا جن کے ساتھ 15 مفرور اور 2 پہلے سے فوت شدہ ملزمان کے خلاف بھی مقدمہ چلایا گیا۔

مقدمے کی سماعت ایم سی او سی اے اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت میں ہوئی تھے۔

خصوصی عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ ’ملزم نمبر 1 کمال احمد محمد وکیل انصاری، نمبر 3 محمد فیصل اطہر الرحمٰن شیخ، نمبر 4 احتشام قطب الدین صدیقی، نمبر 12 نوید حسین خان رشید حسین خان، اور ملزم نمبر 13 آصف خان بشیر خان جنید عبداللہ کو آئی پی سی کی دفعہ 302 اور 120-بی کے تحت سزائے موت سنائی جاتی ہے اور 30 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، جرمانہ نہ دینے کی صورت میں انہیں 3 ماہ اضافی قید بھگتنا ہوگی‘۔

عمر قید کی سزا پانے والے 7 ملزمان میں تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری، محمد ماجد محمد شفیع، شیخ محمد علی عالم شیخ، محمد ساجد مرغوب انصاری، مزمل اطہر الرحمٰن شیخ، سہیل محمود شیخ اور ضمیر احمد لطیف الرحمٰن شیخ شامل تھے۔

ایک اور ملزم عبد الواحد دین محمد شیخ کو خصوصی عدالت نے 9 سال قید کے بعد بری کر دیا تھا۔

ریاست اور ملزمان کی اپیلیں 2015 سے ہائی کورٹ میں زیر التوا تھیں، بعض ملزمان کی درخواست پر اس کیس سماعت تیز کرنے کے لیے جولائی 2024 میں جسٹس انیل کلور اور جسٹس شیام چندک پر مشتمل خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

پیر کو ممبئی ہائی کورٹ نے کہا کہ ’استغاثہ نے عینی شاہدین، برآمدگیوں اور اعترافی بیانات کی بنیاد پر کیس بنایا تھا، عدالت نے کل 8 گواہان کے بیانات کا جائزہ لیا، جن میں ٹیکسی ڈرائیورز، بم نصب کرنے والے افراد، بم تیار کرنے والے اور سازش کے گواہ شامل تھے‘۔

عدالت نے سزائے موت پانے والے 5 ملزمان کی سزائیں منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایم سی او سی اے کی عدالت کے 30 ستمبر 2015 کے فیصلے کی توثیق کرنے سے انکار کرتے ہیں، تمام ملزمان کے خلاف تمام الزامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں‘۔

عدالت نے حکم دیا کہ ’اگر ملزمان کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوراً رہا کیا جائے‘۔

تمام ملزمان کو ہدایت کی گئی کہ وہ بھارتی شہری تحفظ کے قانون 2023 (جو تعزیرات ہند کے سیکشن 437A کی جگہ نافذ ہوا ہے) کے تحت 25 ہزار روپے کے ذاتی ضمانت نامے جمع کروائیں تاکہ اپیل دائر ہونے کی صورت میں وہ عدالت میں پیش ہو سکیں۔

عدالت نے کمال انصاری کے وفات پا جانے کا بھی نوٹس لیا اور کہا کہ حتمی فیصلہ ان پر بھی لاگو ہوگا۔

یہ فیصلہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے سنایا گیا، جس میں ملزمان نے مختلف جیلوں سے شرکت کی، فیصلے کے بعد کئی ملزمان نے اپنے وکلا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔

عدالت نے کہا کہ استغاثہ کے دلائل میں تضادات تھے اور شواہد ناکافی تھے، اعترافی بیانات ناقابلِ اعتماد تھے اور واقعات کی کڑیاں مکمل نہیں تھی، پیش کردہ حالات و شواہد اس قدر ناکافی تھے کہ ان کی بنیاد پر ملزمان کو بم دھماکوں کی منصوبہ بندی یا عمل درآمد سے جوڑنا ممکن نہیں تھا۔

0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...