’میری ہر تخلیق ایک صدائے احتجاج ہے ‘

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 20, 2025359 Views


ادب میرے لیے محض لفظوں کا ہنر نہیں، ایک اخلاقی ذمہ  داری ہے — وقت سے آنکھیں ملانے اور خاموشی کو آواز دینے کی۔ ایسے قلم کا کیا کرنا جو دیکھے سب کچھ ، مگر لکھے کچھ نہیں۔  میرے نزدیک، ایسا قلم مردہ ہے — اور میں اسے اٹھانے کا روادار نہیں۔میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی پہلی قسط میں پڑھیے معروف فکشن نویس شبیر احمد کو۔

میں جانتا تھا کہ ‘ہجور آما’ صرف ایک ناول نہیں ہوگا، بلکہ میرے تخلیقی سفر کا ایک نیا اور نازک موڑ بھی ثابت ہوگا۔

میں ایک ادیب ہوں!  ایک ناول نگار، ایک افسانہ نگار! لیکن اس سے بڑھ کر  میں ایک حساس انسان ہوں!

ایسا انسان  جو اپنے عہد کے زخموں، امیدوں اور تضادات کو لفظوں کے سانچے میں ڈھالنے اور بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

میرا تخلیقی ادب محض کہانیاں نہیں، نہ خیالی کرداروں کا  مجموعہ ہے ۔ یہ تو  آئینہ ہے جو سماج کے چہرے پر پڑی جھریوں، اس کے اندر چھپے درد اور اس کی گم شدہ آوازوں کو  منعکس  کرتا ہے۔


میرے نزدیک ہر تخلیق ایک صدائے احتجاج ہے  جو کبھی بلند ہو کر چیخ بن جاتی ہے،

کبھی سرگوشی کاروپ دھارتی   ہے  اور کبھی خاموشی میں لپٹے فکری اضطراب کی شکل  اختیار کر لیتی  ہے۔


میرا ماننا ہے کہ    کہانیاں میں  نہیں لکھتا ، کہانیاں  خود کو مجھ سے لکھواتی ہیں — وہی ہے جو  اپنے کرداروں کی سانسوں، مناظر کی رنگارنگی اور جذبوں کے  زیرو بم کے ذریعے میری رہنمائی کرتی ہے۔


میرے افسانے اور ناول  اس عہد کے   رستے زخموں، ٹوٹتی امیدوں اور بکھرتے خوابوں سے جنم لیتے ہیں۔


سیاسی موضوعات کو فکشن میں ڈھالنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا

ہندوستان کی موجودہ سیاسی فضا نظریاتی شدت پسندی اور قوم پرستی کے زہر سے آلودہ ہو چکی ہے۔ اس سیاسی ماحول نے نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو متاثر کیا بلکہ ان گنت آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

میری تخلیقات اسی سیاسی تعصب کے خلاف ایک فکری احتجاج ہیں۔ میرا ناول ‘ہجور آما’ اسی احتجاج کی ایک علامت ہے۔

سیاسی موضوعات کو فکشن میں ڈھالنا ہمیشہ خطرے سے خالی نہیں ہوتا — کہیں کہانی نظریاتی پروپیگنڈا نہ بن جائے، کہیں جمالیاتی لذت متاثر نہ ہو۔
لیکن پھر یوں ہوا کہ جیسے ناول خود کو مجھ سے لکھواتا چلا گیا۔

شاہین باغ کی وہ ٹھنڈی، پرنور راتیں آج بھی میرے ذہن میں روشن ہیں — جہاں بزرگ عورتوں نے اپنی پتلی چادروں میں لپٹے ہوئے، اس جمہوری احتجاج کو جنم دیا، جس نے ہندوستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں ایک علامتی حیثیت اختیار کر لی۔

دسمبر 2019 میں دہلی کے شاہین باغ علاقے میں شروع ہونے والا یہ احتجاج محض سی اے اے اور این آر سی کے خلاف آواز نہیں تھا، بلکہ یہ ایک پورے طبقے کی شہریت، شناخت، اور وجود کے تحفظ کی پکار تھی۔

وہ دادیاں، جو عام دنوں میں صرف گھریلو دائرے تک محدود سمجھی جاتی تھیں، اب آئین اور دستور کی دہلیز پر بیٹھی تھیں۔ ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے، زبانوں پر اشعار اور نعرے تھے، اور دلوں میں صرف ایک جذبہ—انصاف!

اسی دوران میرے اندر بھی ایک بےچینی جاگی۔ میرا قلم بار بار مجھے ٹٹولنے لگا کہ کیا اس احتجاج کو کسی تخلیقی بیانیے میں ڈھالا جا سکتا ہے؟

اور اگر ہاں، تو اس کے لیے وہ زاویہ کیا ہو سکتا ہے جس میں کہانی کے ساتھ ساتھ تحریک کی روح بھی سانس لیتی رہے؟ یہی سوچتے ہوئے میری نگاہ نیپال کی بادی کمیونٹی پر جا ٹھہری۔

بادی عورتیں — وہ جنہوں نے اپنے دکھوں، استحصال، اور صدیوں پر محیط خاموش جدوجہد کو کبھی لفظوں میں نہ ڈھالا تھا، لیکن جب انہوں نے آواز اٹھائی، تو پورے نیپال کے سیاسی و سماجی ڈھانچے کو جھنجھوڑ دیا۔ ناچ گانے سے جسم فروشی تک دھکیلی گئی ان عورتوں کی کہانی شاہین باغ کی ان دادیوں کی جدوجہد سے کہیں دور نہ تھی۔

ایک طرف ہندوستان میں اقلیتوں کو شہریت کے حق سے محروم کرنے کی کوشش ہو رہی تھی، تو دوسری طرف نیپال میں ایک پوری نسل کو شناخت، تعلیم، اور انسانی وقار سے بےدخل کر دیا گیا تھا۔ دونوں جگہوں پر عورتیں ہی صفِ اول میں تھیں—خاموشی کو آواز میں، بے بسی کو مزاحمت میں بدلتی ہوئی۔یہی وہ لمحہ تھا جب میرے اندر ناول’ ہجورآما’ کے تصورنے جنم لیا۔

ویسے بھی نیپالی زبان میں ‘ہجور آما’ دادی یا بزرگ خاتون کو کہا جاتا ہے۔ میں جانتا تھا کہ یہ صرف ایک ناول نہیں ہوگا، بلکہ میرے تخلیقی سفر کا ایک نیا اور نازک موڑ بھی ثابت ہوگا۔

سیاسی موضوعات کو فکشن میں ڈھالنا ہمیشہ خطرے سے خالی نہیں ہوتا —کہیں کہانی نظریاتی پروپیگنڈا نہ بن جائے، کہیں جمالیاتی لذت متاثر نہ ہو۔

لیکن پھر یوں ہوا کہ جیسے ناول خود کو مجھ سے لکھواتا چلا گیا۔ واقعات میرے سامنے منقش ہوتے گئے، کردار سانس لینے لگے، اور ہجورآما نے اپنی صورت پانی شروع کی۔

ناول کی اشاعت کے بعد جو ردعمل سامنے آیا، وہ میرے لیے حیرت انگیز بھی تھا اور حوصلہ افزا بھی۔

اس ناول پر ڈھیروں تاثرات آئے۔ کسی نے پُرلطف کہا، کسی نے انوکھا اور کسی نے نادر تخلیقی و تحقیقی دستاویز۔

اکثر  قارئین کا یہ ماننا تھا کہ ‘ہجورآما’ اردو فکشن میں ایک نیا اور قابلِ ذکر  اضافہ ہے، جو بادی کمیونٹی جیسے حساس اور نظرانداز موضوع کو تخلیقی گہرائی اور سچائی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

بعض  ناقدوں  نے  لکھا کہ اس ناول کی سب سے نمایاں خوبی اس کی تازگی اور ‘اوریجنلٹی’ ہے — نہ تقلید، نہ تکرار۔

غائب راوی، سادہ مگر اثر انگیز زبان، اور بیانیے میں کہیں کہیں جادوئی حقیقت نگاری کی جھلک، سب مل کر ایک ایسا تجربہ بناتے ہیں جو قاری کو دیر تک اپنے حصار میں رکھتا ہے۔

اور بعض نے یہاں تک کہہ دیا  کہ اس ناول کا  سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ  ‘دلت مسلم ڈسکورس’ کی جانب ایک مضبوط قدم ہے، ایک نئی فکری جہت کی طرف اشارہ، جو ہندوستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں نہایت اہم ہو چکا ہے۔

قارئین  کی اس رائے نے میرے لیے اس ناول کی معنویت کو کئی درجہ بڑھا دیا۔ اور مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ ‘ہجورآما’ اب محض میری تخلیق نہیں رہی، بلکہ ان بےنام عورتوں کی آواز بن چکی ہے جنہیں نہ تاریخ نے یاد رکھا، نہ معاشرے نے پہچانا۔

اور یہی شاید ایک ادیب کی سب سے بڑی کامیابی ہے — خامشی کو آواز دینا، اور نظرانداز کیے گئے وجود کو ایک کہانی کی صورت میں امر کر دینا۔

یہ وقت صرف سوال اٹھانے کا نہیں

یہ ناول محض ماضی کا نوحہ نہیں، بلکہ حال کا تجزیہ اور مستقبل کی جستجو بھی ہے۔

ہندوستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتِحال ایک حساس اور نازک دوراہے پر کھڑی ہے، جہاں جمہوری اقدار، آئینی مساوات، اور سماجی ہم آہنگی کو شدید چیلنجز درپیش ہیں۔

ایک طرف، شہری آزادیوں پر بتدریج قدغن لگ رہی ہے — اظہارِ رائے، اختلافِ رائے، اور احتجاج جیسے بنیادی حقوق کو یا تو دبایا جا رہا ہے یا مشتبہ نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔

طلبہ، صحافی، ادیب، سماجی کارکن اور اقلیتی برادریاں خود کو غیرمحفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔ نیز مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تفریق کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے، جو نہ صرف سماجی تانے بانے کو کمزور کر رہا ہے بلکہ آئینی سیکولرزم کے تصور کو بھی دیمک زدہ کررہا ہے۔

اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، دلتوں، اور آدیواسی طبقات کو حاشیے پر دھکیلا جا رہا ہے۔ایسی صورتِحال میں سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ سماج میں بےحسی اور خاموشی بڑھتی جا رہی ہے۔جیسے ایک اجتماعی تھکن یا خوف سماج پر چھا گیا ہو۔

یہ وقت صرف سوال اٹھانے کا ہی نہیں، بلکہ سننے، سمجھنے، اور یکجہتی کے نئے راستے تلاش کرنے کا بھی ہے۔

اہلِ قلم، اہلِ دانش اور باشعور شہریوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صرف تشویش کا اظہار نہ کریں، بلکہ مزاحمت، مکالمے اور امید کے امکانات کو زندہ رکھیں۔ کیونکہ جمہوریت صرف ووٹ سے نہیں، ضمیر سے بھی قائم رہتی ہے۔

قاضی نذرالاسلام، فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا

میرا دوسرا ناول ‘بِدروہی’ اسی سمت ایک کوشش ہے۔ ایک فکری اور تخلیقی پیش قدمی ہے — ایک ایسا ادبی سفر جس میں قاضی نذرالاسلام کے کردار کو مرکز بنا کر موجودہ ہندوستان کی سیاسی، تاریخی اور سماجی پرتوں تک رسائی کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ ناول محض ماضی کا نوحہ نہیں، بلکہ حال کا تجزیہ اور مستقبل کی جستجو بھی ہے۔

قاضی نذرالاسلام صرف ایک انقلابی شاعر نہ تھے، وہ ایک ایسی توانا آواز تھے جو نظم و نثر، جذبے اور عمل کے سنگم پر کھڑے ہو کر سچائی کی شمع روشن کرتے تھے۔

وہ مظلوموں کے ترجمان، کمزوروں کے مدافع، اور مذہبی رواداری کے بہت بڑے داعی تھے۔ ان کا قلم صرف احتجاج نہیں کرتا تھا، بلکہ زخم پر مرہم بھی رکھتا تھا — وہ ہندو مسلم اتحاد کے خواب کو جیتے تھے اور اپنی تخلیقات کے ذریعے اسے زندہ رکھتے تھے۔

آج جب ہندوستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں جمہوری قدریں، آئینی مساوات اور سماجی ہم آہنگی مسلسل دباؤ میں ہیں، وہاں قاضی نذرالاسلام جیسی شخصیت کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔

ایسی شخصیت جو سماج کی بے حسی کو جھنجھوڑ سکے، خوف کی دیواریں گرا سکے، اور امید کی نئی بنیاد رکھ سکے۔

اس ناول میں قاضی نذرالاسلام کے کردار کو بنیاد بنا کر ہندوستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتِ حال کی جڑوں تک رسائی کی سعی کی گئی ہے۔

بِدروہی اسی ضرورت کی تخلیقی بازگشت ہے۔ یہ ناول یاد دلاتا ہے کہ جب ظلم کے سائے گہرے ہوں، جب اختلاف کو جرم بنا دیا جائے، جب زبان پر تالے ڈال دیے جائیں — تب ایک ادیب، ایک شاعر، ایک تخلیق کار کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے۔

اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں نذرالاسلام کی روح ہم سے ہمکلام ہوتی ہے، یہ باور کراتے ہوئے کہ


شعرو ادب فقط جذبات کی ترجمانی نہیں، بلکہ ایک اخلاقی فریضہ ہے — ایک مزاحمتی عمل، جو سماج کو بیدار کرنے کی پہلی دستک بن سکتا ہے۔


یہ ناول دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ہر حصے میں ایک مکمل تخلیقی اور فکری کائنات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پہلا حصہ 720 صفحات پر محیط ہے، جس میں قاضی نذرالاسلام کے کردار کو بنیاد بنا کر ہندوستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتِ حال کی جڑوں تک رسائی کی سعی کی گئی ہے۔

اس ناول میں آنند مٹھ سے لے کر آج کے بھارت میں ابھرتے ہوئے ہندوتوا نظریے اور ‘ہندو راشٹر’ کے خواب کو تخلیقی اور تنقیدی زاویے سے پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دوسرا حصہ (جُگ بانی) اور بھی ضخیم ہے، اس کی جہتیں اور تناظرات اور بھی وسیع ہیں۔

یہ بنگال کے فکری اور سیاسی منظرنامے کو مرکز بناتا ہے، جہاں بنکم چندر چٹوپادھیائے کے آنند مٹھ سے لے کر آج کے بھارت میں ابھرتے ہوئے ہندوتوا نظریے اور ‘ہندو راشٹر’ کے خواب کو تخلیقی اور تنقیدی زاویے سے پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہاں صرف بیانیہ نہیں، بلکہ وہ فکری کشمکش بھی شامل ہے جو قوم پرستی، مذہبی شناخت اور آئینی جمہوریت کے مابین جاری ہے۔

بعض اہلِ نظر کا کہنا ہے کہ  بِدروہی(جُگ بانی) محض ناول نہیں، ہندوستان کی روح پر لکھی گئی ایک تخلیقی دستاویز ہے — ایک ایسا آئینہ جو ماضی کی تصویروں، حال کے دھندلکوں، اور مستقبل کے اندیشوں کو ایک ساتھ منعکس کرتا ہے۔

یہ ناول نہ صرف تاریخ سے مکالمہ کرتا ہے بلکہ حال کی سیاست سے بھی سوال کرتا ہے، اور قاری کو دعوت دیتا ہے کہ وہ صرف پڑھنے والا نہ رہے، بلکہ سوچنے والا بھی بنے۔

فکشن حاشیے  پر پڑے لوگوں کی آوازہے

آج ہمارا معاشرہ کئی سنجیدہ مسائل اور بحران سے دوچار ہے—طبقاتی تقسیم، صنفی ناانصافی، تہذیبی اقدار کا زوال اور ماحولیاتی تباہی۔ میری تخلیقات ان مسائل کو  نہ صرف اجاگر کرتی ہیں بلکہ ان پر گہرے فکری سوالات  بھی اٹھاتی ہیں۔

یہ  کہانیاں  سماج کےحاشیے  پر دھکیلے گئے لوگوں کی آواز بنتی ہیں، ان کی جدوجہد کو بیان کرتی ہیں اور ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں۔

اس طرح یہ معاشرتی بحرانات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔

مثال کے طور پر میرے  افسانے ‘مد و جزر’ کو ہی لیں ۔ یہ سماجی بحران کا  وہ  آئینہ ہے، جو تیسری جنس کے حوالے سے ہمارے معاشرے کی منافقانہ اخلاقیات کو چیلنج کرتا ہے۔

اس  کے کردار، طلال اور گل ناز، ان حاشیے  پر پڑے افراد کی آواز ہیں جنہیں سماج نہ صرف نظر انداز کرتا ہے بلکہ ان کے وجود کو قبول کرنے سے بھی کتراتا ہے۔

جب میں نے یہ  افسانہ  لکھا، تو میرے سامنے  بنیادی سوال یہ تھا کہ  کیا ہمارا معاشرہ ان  لوگوں  کو سننے اور ان کے حقوق تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے جنہیں وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتا؟

یہ کردار میری سماجی ذمہ داری کے عکاس  ہیں۔وہ ذمہ داری  جو ہر اس آواز کو  اجاگر کرنے کے لیے کوشاں ہے جسے سماجی منافقت   بے رحمی سے  دبا دینا چاہتی  ہے۔

طلال اور گل ناز محض کردار نہیں، اس سماجی منافقت کے خلاف احتجاج ہیں ۔ یہ افسانہ نہ صرف صنفی ناانصافی کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ ہمیں اپنے اخلاقی معیار  پر نظر ثانی  کی دعوت بھی دیتا ہے۔

افسانہ قاری سے یہ سوال پوچھتا ہے؛ کیا ترقی وہی ہے جو زمین کو بنجر اور انسان کو اندر سے خالی کر دے؟

میرا افسانہ’بسرجن’  بھی ایک خاموش چیخ ہے — اس ترقی کے خلاف جو انسان کو انسانیت سے محروم کر رہی ہے؛  زمین کو زرخیزی سے، اور سماج کو ضمیر سے خالی کرتی جا رہی ہے۔

یہ افسانہ میرے ان تجربات اور مشاہدات کی کوکھ سے جنما ہے، جو میں نے اپنی ملازمت کے دوران بنگال کے دیہی علاقوں میں سوشلسٹ نظام کے پسِ پردہ ہوتے  دیکھے ہیں۔

ان علاقوں میں سوشلسٹ نظریات کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا، مگر زمینوں کی بندربانٹ، قانون کے پردے میں ہونے والے قبضے اور مزدوروں کو بندھوا بنانے کے عمل نے اس سوشلزم کو محض ایک فریب بنا دیا تھا۔

لینڈ ریفارم اور کوآپریٹیو سوسائٹی کی تشکیل  کی آڑ میں کسانوں سے زمینیں چھینی جا رہی تھیں اور ان میں جھینگا مچھلی کے فارم بنائے جا رہے تھے۔

یہ فارم دراصل ماحولیاتی قتل گاہیں تھیں اور غریب  کسانوں کے لیے نئی غلامی کا گھیرا (جسے علاقائی زبان میں گھیری کہتے ہیں )۔

ایسے میں ایک ادیب کا قلم بھلا کیسے خاموش  ہ سکتا تھا؟ چنانچہ ذہنی خلش نے لفظوں کی صورت اختیار کی اور ‘بسرجن’ کا جنم ہوا۔

افسانے کا مرکزی کردار’اندرنیل’ ایک سیاسی لیڈر کا بیٹاہے۔  باپ نے  جھینگا مچھلی کے کاروبار  کا جال پھیلا رکھا ہے۔ وہ  بااثر   لیڈر  ہی نہیں ،ایک کامیاب کاروباری بھی ہے۔

مگر اس کامیابی کے نیچے دبی ہے زمین کی چیخ، پانی کی آہ اور انسان کی بےبسی۔ اندرنیل اپنے ضمیر کی آواز پر باپ کی راہ چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے، مگر جب نوکری کی تلاش میں ناکام ہو جاتا ہے، تو بالآخر اسی غیر قانونی  کاروبار کا حصہ بن جاتا ہے اور ڈھیر سارے روپے کماتا ہے۔

اندرنیل کی یہ معاشی ترقی دراصل اس کی روح، اس کی غیرت، اور اس کے اصولوں کا بسرجن (قربانی) ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب کہانی محض ایک خاندان کی کشمکش نہیں رہتی، پورے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ اور ماحولیاتی تباہی کا مرثیہ بن جاتی ہے۔

افسانہ قاری سے یہ سوال پوچھتا ہے؛ کیا ترقی وہی ہے جو زمین کو بنجر اور انسان کو اندر سے خالی کر دے؟ کیا ہمارا مستقبل صرف   مالی منفعت ، زمین کے غیر قانونی استعمال،فضا کی آلودگی اور بندھوا مزدوروں پر ٹکا ہے؟

اور کیا ہم اپنی زمین، اپنی آزادی اور اپنے ضمیر کو محض چند سکوں اور ترقی کے جھوٹے وعدوں کے عوض ‘بسرجت’ (دریا بُرد) کرنے کو تیار ہیں؟

بسرجن دراصل اس عہد کا ایک المیہ ہے — جو بہت سوں نے جھیلا، اور بہت کم نے لکھا۔

 ‘مہایدھ’  بھی اسی قسم کا ایک افسانہ ہے ،جوسماجی بدعنوانی، مذہبی تعصب، دیہی مسائل اور سیاسی پروپیگنڈہ جیسے  پیچیدہ موضوعات کو گنگا جمنی تہذیب کے تناظر میں پیش کرتا ہے۔

یہ کہانی ہندوستان کی مشترکہ ثقافت اور اسے درپیش خطرات کو اجاگر کرتی ہے، مگر ایک بچے کی معصومیت کے ذریعے امید کی کرن بھی دکھاتی ہے۔

اس کہانی میں داڑھی والا ہیولا ( بدعنوان قوتوں کانمائندہ ) اور ایک لڑکے کے درمیان چوسر کا کھیل ایک علامتی جنگ کی صورت اختیار کرتا ہے، جو سماجی ناانصافی، روحانی طاقت اور گنگا جمنی تہذیب کا عکاس ہے۔

لڑکے کی علامتی فتح ہندوستان کی اس نوجوان نسل کی امید کی علامت ہے جو بدعنوانی، تعصب اور ناانصافی کے خلاف لڑ رہی ہے۔

شبیر احمد

دوستوں کا کہنا ہے کہ  یہ افسانہ اپنی علامتی گہرائی، فلسفیانہ بصیرت اور سماجی تنقید کے ذریعہ نہ صرف موجودہ حالات پر تبصرہ کرتا ہے بلکہ ہندوستان کی مشترکہ ثقافتی وراثت کے تحفظ کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔ ‘مہایدھ’ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ  بحران  چاہے جیسا بھی ہو ، معصومیت اور امید کی طاقت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔

مجھے نندی گرام کا سانحہ آج بھی شدت سے یاد آتاہے — وہ دور  جب زمین کے نام پر خون بہایا گیا، جب غریب کسانوں کی چیخیں ریاستی ترقی کے نعرے تلے دب گئیں۔

اس سانحے نے نہ صرف مغربی بنگال کی سیاسی زمین  ہلا دی، بلکہ پورے ہندوستان میں سماجی و معاشی انصاف کے بنیادی سوال کو ایک بار پھر سامنے لا کھڑا کیا۔

ممتا بنرجی کی قیادت میں ‘پریورتن’ کی تحریک نے یقیناً اقتدار حاصل کرلیا، مگر غریب گاؤں والوں  کی زندگی، ان کے دکھ، ان کے سوال — سب جوں کے توں رہ گئے۔

میرا افسانہ’پریورتن’ اسی پس منظر کی تخلیقی بازگشت ہے۔

یہ کوئی  سیاسی تبصرہ نہیں — ایک علامتی بیانیہ ہے، جو ہندوستانی معاشرے میں پھیلتی ہوئی بےحسی،  طبقاتی جبر، زمینی قبضے اور مذہبی دکھاوے کا پردہ  چاک کرتا ہے۔

میں نے اس افسانے میں  ایک ایسی دنیا کا علامتی نقشہ کھینچنے کی کوشش کی ہے، جہاں ماں درگا — جو خیر اور تحفظ کی علامت ہے—مہیسہ سُر (جوشر اور جبر کی علامت ہے)کے ہاتھوں لہولہان ہے  اور نام نہاد سماج کے محافظ ہی اس کے قاتل بن چکے ہیں۔

دوستوں کا خیال ہے کہ یہ افسانہ محض ایک کہانی نہیں، ہمارے عہد کی روحانی اور اخلاقی شکست کا علامتی نوحہ ہے۔ لیکن یہ میرے نزدیک ایک ایسا ادبی اظہار ہے، جو ہمیں اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کرتا ہے — کہ ہم کس ‘پریورتن’ کے منتظر ہیں، اور کس تبدیلی کے دھوکے میں جی رہے  ہیں۔

میرے  اکثر افسانےسماجی بحران کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں، لیکن ان  کا مقصدمحض انگشت نمائی  نہیں،  ایک فکری مکالمہ قائم کرنا ہے۔

یہ طبقاتی تقسیم، صنفی ناانصافی، تہذیبی زوال، ماحولیاتی تباہی اور مذہبی تعصب جیسے مسائل کو نہ صرف بے نقاب کرتے ہیں بلکہ ہمیں اپنے سماجی اور اخلاقی کردار پر غور کرنے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔


فکشن تو  ایک  آواز ہے — حاشیے  پر پڑے لوگوں کی آواز، ضمیر کی آواز ، امید کی آواز۔ اگر  میرے ناول اور افسانے   لوگوں  کے دل و دماغ  میں ایسی آواز کی گونج  پیدا کرنے لگے تومیں یہ سمجھوں گا کہ  میرا مقصد بطور ادیب  پورا ۔


 چوتھا فنکار — ایک ایسا قصہ جو میں نے کاغذ پر نہیں، اپنی روح پر رقم کیاہے

فرد کی داخلی کشمکش، اس کی وجودی تنہائی اور شناخت کی لرزتی بنیادیں اکثر میری تخلیقی جہتوں کا مرکز رہی ہیں۔ میرا افسانہ’وینٹی لیٹر’بھی ایسے ہی حساس موضوع سے لبریز  ہے — یہاں ایسی خاموشی ہے جو زندگی اور موت کے بیچ حائل ہے؛ جو نہ جینے دیتی ہے، اور  نہ مرنے کا حوصلہ بخشتی ہے۔

یہ افسانہ کسی منصوبہ بند تخلیق کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک ذاتی صدمے اور اندرونی ہلچل سے جنما ہے۔ مجھے دل کا دورہ پڑا تھا اور اسپتال کے آئی سی یو میں زیرِ علاج تھا۔

میرے  پاس  والے بیڈ پر  سات، آٹھ سال کا ایک معصوم بچہ وینٹی لیٹر پر پڑاتھا۔ اس کے جسم پر نلکیاں، سوئیاں، پٹیاں، اور چہرے پر ایک ایسا سکوت طاری تھا جو انسان کی بے بسی کا سچا منظر بن جاتا ہے۔

سارا دن  میں اپنے بیڈ پر لیٹے لیٹے اُس بچے کو تکتا رہا —جیسے میری اپنی سانسیں اس بچے کی سانسوں سے بندھی ہوئی ہوں۔ شام کو جب میں نے اس کے پاس ایک نوجوان لڑکی کو کھڑے دیکھا، تو وہ لمحہ میرے لیے  مزید دردناک بن گیا۔

وہ ماں تھی — جدید تراش کے  کپڑوں  میں ملبوس۔ جینس اور ٹاپ میں جکڑی ہوئی۔ مگر آنکھوں میں عہدِ قدیم کا دکھ لیے۔  ہاتھ میں ایک تصویر تھی۔

اس نے وہ تصویر آہستہ سے بچے کے ہاتھ پر رکھی اور بے اختیار سسکیاں بھرنے  لگی۔ میں بھی خود پر قابو نہ رکھ سکا۔ لیکن جب نظراس تصویر پر پڑی تو چونک گیا۔ وہ مہاکال کی تصویرتھی۔

میں جیسے کسی اور ہی دنیا میں جا پہنچا۔ مہاکال—وقت سے بالاتر، موت پر غالب، فنا سے ماورا۔ ایک ماں، جو جدید طرزِ زندگی کی نمائندہ تھی، اپنے بچے کی زندگی کی خاطر ایک ایسے وجود سے رجوع کر رہی تھی جو پرانے مذہبی عقائد کا پروردہ  تھا۔

اس منظر نے مجھے اندر سے ہلا دیا۔ میں اپنی تکلیف بھول گیا۔  ماں کے اضطراب، بچے کے سکوت، اور مہاکال کی شبیہ !  تینوں نے میرے اندر وہ کہانی جگائی جو خود کو  ‘وینٹی لیٹ’کرنے کو بے قرار تھی۔ چنانچہ پہلی ہی فرصت میں قلم اٹھایا، اور ‘وینٹی لیٹر’ تخلیق ہوگیا۔

یہ موت کے بستر پر سوئے  ہوئے  صرف ایک  معصوم بچے کی کہانی نہیں، بے بس   ماں باپ اورحوصلہ مند  دادی کی  کہانی بن گئی۔

ڈاکٹرچٹرجی کی کہانی ہے۔ ایک ایسی کہانی جو عمیرہ بانو کی روزمرہ جدوجہد سے شروع ہو کر ان کے فیصلے (وینٹی لیٹر بند کرنے ) اور اچانک امید کی خبر(بہو کے حمل ٹھہرنے)  پر ختم ہوتی ہے۔

آخری منظر، جہاں ڈاکٹر چٹرجی کی کوشش سے عدیل کی صحت یابی کی امید جگتی ہے،اور اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ  کہانی کو ایک فلسفیانہ اور جذباتی اختتام دیتا ہے اور عمیرہ بانو اندر سے جیسے ٹوٹ کر رہ جاتی ہے۔

یہ محض ایک افسانہ نہیں، بلکہ وہ سانس ہے جو ٹوٹتے رشتوں، پژمردہ  امیدوں، اور تھرتھراتے یقین کے درمیان پنپنے کی آخری کوشش کرتی ہے۔

چوتھا فنکار میرے لیے اِن سوالوں کا جواب ہے؛ کیا فن صرف جمالیات کے برتنے کا ہنر ہے، یا وہ درد سے گزر کر روح کو چھونے کی سعی ہے؟ کیا فنکار محض تخلیق کرتا ہے، یا خود کو فنا کر کے دوسروں کو زندگی دیتا ہے؟


اسی طرح ‘چوتھا فنکار’ میری تخلیقات میں سب سے زیادہ ذاتی، سب سے زیادہ اندر سے لکھا گیا افسانہ ہے — ایک ایسا قصہ جو لگتا ہے میں نے کاغذ پر نہیں، اپنی روح پر رقم کیاہے۔


یہ صرف ایک کہانی نہیں، ایک گہرا صدمہ، ایک  گہری محبت اور ایک ناقابلِ تلافی نقصان کا اظہاریہ ہے! وہ لڑکی، جس کی موت نے مجھے اندر سے توڑ دیا تھا، آج بھی میرے ذہن کے پردے پر زندہ ہے— مسکراتا  ہوا چہرہ، نازک بدن، ستواں ناک، کھنچی کھنچی پلکیں ، پتلے پتلے ہونٹ، اور لمبی گھنی زلفیں — ایک مکمل تصویر، جو زندگی سے زیادہ مکمل لگتی تھی، اور شاید  اسی لیے  اتنی جلدی فنا ہو گئی۔

جب وہ چلی گئی تو ایسا لگا جیسے دنیا کے تمام رنگ، تمام آواز، تمام خوشبو مرجھا گئے  ہوں۔  میرے بس میں ہوتا، تو میں  تابوت میں  پڑی  لاش میں زندگی پھونک دیتا، اس کی بند آنکھوں میں روشنی  اور ساکت لبوں پر مسکراہٹ بھر دیتا ۔ مگر میرے پاس وہ ہنر کہاں ؟

وہ  تو ‘چوتھے فنکار’ کا خاصہ ہے— وہ فنکار جو صرف جسم نہیں، روح بھی خلق کرتا ہے؛ جو مٹی سے پیکر تو بنا لیتا ہے، مگر اسے جِلانے کے لیے اپنی روح کا ایک حصہ قربان کردیتا ہے۔

اسی اساطیری تصور سے جڑ کر ‘چوتھا فنکار’ افسانے کی شکل میں میرے قلم سے پھوٹا — ایک ایسا افسانہ جو فن اور تخلیق کے اس نازک رشتے کو بیان کرتا ہے، جہاں فنکار دیوتا بننے کے سفر پر نکلتا ہے، مگر ہر قدم پر خود کو کھوتا  چلاجاتا ہے، تاکہ دوسروں میں زندگی بھر سکے۔

اس کہانی میں لڑکے کا بملا سے لگاؤ، محض ایک رومانی کشش نہیں، بلکہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو فنا سے لڑنے اور زندگی کوپھیر لانے  کی قوت عطا  کرتا ہے۔

بملا کی موت کا صدمہ اور اس کی جدائی لڑکے کو اُس سطح پر لے جاتے ہیں  جہاں فن صرف اظہار نہیں، عبادت بن جاتا ہے۔

چوتھا فنکار میرے لیے اِن سوالوں  کا جواب ہے؛ کیا فن صرف جمالیات کے برتنے کا ہنر ہے، یا وہ درد سے گزر کر روح کو چھونے کی سعی ہے؟ کیا فنکار محض تخلیق کرتا ہے، یا خود کو فنا کر کے دوسروں کو زندگی دیتا ہے؟

افسانہ یہ آشکار کرتا ہے کہ حقیقی  فن وہ ہے جو انسان کی ‘محدود طاقت’ کو ‘الہامی قوت ‘ میں بدل دے— اور اس  وقت  فنکار صرف فنکار نہیں رہتا،  چوتھا فنکار بن جاتا ہے۔ وہ  فنکار جو خاک کو لمس دے کر روح عطا کر تاہے ،خواہ اس کے بدلے   خود خاک کیوں نہ ہو جائے۔

افسانہ ‘پُنر جنم’ میرے دل سے جیسے آج بھی چپکا ہوا ہے۔ اس کی تخلیق کا واقعہ یوں ہے کہ اُن دنوں میری پوسٹنگ بیرکپور میں تھی۔ دفتر میں   اروپ چٹرجی نام کے ایک اسٹاف تھے ۔

پتہ نہیں انھوں نے  مجھ  میں کیا دیکھا کہ اکثر میرے کیبن میں چلے آتے اور کبھی پھل کبھی مٹھائی  ساتھ لے آتے ۔ سنا تھا کہ ان کا جوان اکلوتا بیٹا  مرگیا ہے۔ ان کی حالت دیکھ کر  مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے افسانہ ‘پُنرجنم  لکھنے کا من بنایاجوصرف   ایک غمزدہ باپ کی کہانی نہیں، بلکہ یاد، عقیدت اور وجود کی بازیافت کا ایک  علامتی اور جذباتی بیانیہ ہے۔

ایسا بیانیہ جو قاری کو روحانی اور نفسیاتی جہتوں میں اتار دیتا ہے۔ بیٹے ، سروپ کی موت کے بعد اروپ بابو   کا  روحانی خلا سے گزرنا اور پھر اس خلا کو پنر جنم کے عقیدے سے بھرنے کی کوشش، محض انفرادی دکھ کا اظہار نہیں ، بنگالی روایت، ہندو عقیدے، اور انسانی نفسیات کی تہوں میں جھانکنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے جو ہندو مت کے پنر جنم کے تصور کو زندگی اور موت کے مابین پُل کے طور پر سامنے لاتا ہے۔

میں نے افسانے کوایک انسانی المیہ کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن اس کے اندر ایک علامتی نظام چلتا ہے — جس میں ‘سروپ’ صرف ایک بیٹے کا نام نہیں بلکہ وجود کی ساخت ہے اور ‘پنر جنم’ محض عقیدے کا نام نہیں ، انسانی تجربے کی معنوی بازیافت کی ایک کوشش ہے۔

میرے کردارسوال کرتے ہیں، حق مانگتے ہیں، اپنی شناخت کا مطالبہ کرتے ہیں

ہندوستان کی اصل خوبصورتی اس کے تنوع میں ہے — وہ تنوع جو زبانوں، مذہبوں، روایتوں ، ثقافتوں اور شناختوں کے رنگا رنگ امتزاج سے تشکیل پاتا ہے۔ مگر جب اس رنگین کینوس پر یک رنگی کی ضد تھوپی جاتی ہے، تو وہ صرف سیاسی مسئلہ نہیں رہتی، فکری اور اخلاقی بحران بن جاتی ہے۔

میری بیشتر تخلیقات اسی بحران کے خلاف ایک خاموش مزاحمت ہیں—تنوّع کے تحفظ کی تخلیقی جدوجہد۔

میرے کردار—چاہے وہ عورت ہو، دلت ہو، قبائلی یا تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں—رحم کے طلبگار نہیں بنتے۔ وہ سوال کرتے ہیں، حق مانگتے ہیں، اپنی شناخت کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اس کے لیے  وہ نعرہ نہیں لگاتے۔  ان کا وجود، ان کی خاموشی اور ان کا ضبط خود ایک نعرہ ہے۔ اور یہی بطور تخلیقی ادیب میری اخلاقی ذمہ داری بھی بنتی ہے — ان خاموش نعروں کو زبان اور آواز دینا، جنہیں ہمارا سماج خصوصاً موجودہ سماج اکثر سننے سے قاصر رہا  ہے۔

میں نے  تنوّع کو ہمیشہ  ایک خواب کی صورت پیش کیا ہے —  ایسا خواب جو حسین ہے، مگر نازک اور کمزور بھی!  جس کی حفاظت صرف مزاحمت سے ممکن ہے۔

میری کہانیاں بار بار یہ سوال اٹھاتی ہیں؛  کیا ہم اس تنوع کو صرف خواب کے طور پر جئیں گے؟ یا اس کے تحفظ کے لیے بیدار اور مزاحم بھی ہوں گے؟

میرا افسانہ ‘اندھیرا’ اسی سوال کا  علامتی اور نفسیاتی جواب ہے۔ اس کا اختتام صرف بجلی کے چلے جانے کا منظر نہیں، بلکہ اس اندھیرے کا استعارہ ہے جو ہمارے سماج، رشتوں اور ضمیر پر چھا گیا ہے۔

افضل کی معاشی ترقی پر منیش کا مذہبی تعصب، بمل اور دیپانکر کی بدگمانی، راوی کی خاموش لاتعلقی —یہ  افعال  ان  کرداروں کے  ہیں جو صرف کہانی کے نہیں، آج کے ہندوستان کے  چہرے ہیں۔

اندھیرا ‘اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ روشنی صرف بلب سے نہیں، انسانوں کے باطن سے  نکلتی   ہے — اور جب وہ باطن مرجھا جائے ، تو سماج تاریکی کا شکار ہو جاتا ہے۔

اسی طرح’شہرِ اماں کی تلاش’ ایک وجودی اور روحانی سفرنامہ ہے، جو شناخت، امن اور عدل کے خواب کو بنگالی تناظر اور عیسائی علامتیت کے ذریعے بیان کرتا ہے۔

راوی کی دربدری، بھارتی کی قربانی اور یسوع سے اس کا خاموش مکالمہ—یہ سب ایسے عوامل ہیں جو ہمیں  ان  سوالوں سے رو برو کرتے ہیں جس کا جواب مل پانا دشوار ہے  ؛


  کیا اس وطن میں کوئی ایسی جگہ بچی ہے جہاں ہمیں صرف انسان سمجھا جائے؟

جہاں ہم مذہب، ذات، زبان، جنس  سے ماورا ہو کر صرف ایک ‘ہستی’ کی حیثیت سے قبول کیے جائیں؟


یہ کہانی خواب دیکھنے پر اکساتی ہے، مگر ساتھ ہی یہ بتاتی ہے کہ خواب صرف آنکھوں سے نہیں ، اذیت سے بنتے ہیں۔ اور اگر ہم اپنی شناخت اور اپنے خواب کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں مزاحمت، قربانی، اور مکالمے کا راستہ اپنانا ہوگا۔

شبیر احمد کی علمی اور ادبی کتابوں کے سرورق

یہی میری تخلیقی کائنات کی روداد ہے—جہاں فکشن صرف قصہ گوئی  نہیں، ضمیر کی آواز ہے؛ جہاں کردار صرف خاکے نہیں، سماجی حقیقت کی مجسم تصویریں ہیں؛ اور جہاں لکھنا صرف فن کا اظہار نہیں، ایک اخلاقی عہد ہے— مادرِ وطن کے تنوّع کو بچانے کا اور انسان کو اُس کی اصل پہچان دلانے کا عہد۔

ایک ادیب کی  تخلیق  دراصل اس کے  عہد سے ایک مکالمہ  ہوا کرتا ہے  — ایک ایسا مکالمہ جو کبھی بلند آواز میں چیخ بنتا ہے، کبھی نرم سرگوشی کی صورت اختیار کرتا ہے  تو  کبھی  طویل خاموشی میں ڈوب جاتا ہے۔

میں ادب کو ایک ایسی روشنی سمجھتا ہوں جو سماج کے اندھیروں سے  نہیں گھبراتی۔ میرے لیے کہانی محض تخیل کی پرواز نہیں، بلکہ ایک فکری اور اخلاقی ذمہ داری ہے جو مجھے سماج کے زخموں کو دیکھنے، سمجھنے اور بیان کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

میں نے لکھنے کا ہنر نہیں سیکھا، بلکہ اسے جیا ہے۔ ایک ادیب کو  چاہیے  کہ وہ   اپنے عہد کے درد کو محسوس کرے، اسے سہے  اور پھر لفظوں میں ڈھالے ۔

اگر میری تخلیق کسی قاری کے دل میں کوئی  سوال پیدا کر تی ہے، کسی سچائی کو بے نقاب کرتی ہے ، یا کسی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ میں بطورِ ادیب  اپنے عہد سے انصاف کرنے میں کامیاب رہا۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ ادب میرے لیے محض لفظوں کا ہنر نہیں، ایک اخلاقی ذمہ  داری ہے — وقت سے آنکھیں ملانے اور خاموشی کو آواز دینے کی۔

ایسے قلم کا کیا کرنا جو دیکھے سب کچھ ، مگر لکھے کچھ نہیں۔ میرے نزدیک، ایسا قلم مردہ ہے — اور میں اسے اٹھانے کا روادار نہیں۔



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...