از قلم۔۔ارباض منظور
پوری دنیا میں ایسے بہت کم ممالک ہی پائے جاتے ہیں جہاں بہت ہی لذیز میوہ جات پائے جاتے ہیں جسکی وجہ سے ایسے ممالک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں ایک اہم کردار میوہ صنعت کررہی ہے جبکہ ایسے ممالک کے میوہ کسان بھی بہت مطمئن رہتے ہیںظاہر سی بات ہے جب میوہ صنعت مضبوط ہوگی تو اس صنعت سے جڑے تمام لوگوں کو بہت ہی فائدہ مل سکتا ہے اور ایسے میں سرکار کی بھی کوشش رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ میوہ صنعت کو مضبوطی فراہم کی جائے تاکہ ایسے کسانوں کو زیادہ سے زیادہ منافہ ہوسکے جو ان باغات میں سال بھر محنت کرتے رہتے ہیں ، ایسے میں ہمارے ملک بھارت میں چندہی مقامات ایسے ہیں جہاں میوہ باغات پائے جاتے ہیںجبکہ ان خوش قسمت علاقوں میں وادی کشمیر سرفہرست ہے اور جہاں کے سیب پورے ملک میں اپنی مٹھاس کی وجہ سے بے حد مقبول ہے ۔جہاں وادی میں میوہ کسان اپنے باغات پر سخت محنت کرتے ہیںاور نئے نئے اقسام کے میوہ درخت لگاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اُن کو فائدہ مل سکے وہیںاگرچہ محکمہ ہاٹی کلچر کی جانب سے میوہ کسانوں کے لئے لگاتار جانکاری کیمپ لگائے جاتے ہیں جس میں کسانوں کو ایسی جانکاری فراہم کی جاتی ہے جن کی مدد سے کسان ایسے میوہ درخت اپنے باغات میں لگاتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی سے تیار کئے جاتے ہیں جبکہ ایسے میوہ درخت بڑی مقدار اور بہت جلد فصل دیتے ہیں جسکی وجہ سے کسانوں کو اپنے باغات سے اچھی آمدنی بھی حاصل ہوتی ہے حقیقت یہ بھی ہے کہ اب وادی کشمیر میںکسان زیادہ تر میوہ صنعت سے ہی جڑے ہیں جو دوسری فصلوں سے زیادہ میوہ باغات کی طرف ہی توجہ دیتے ہوئے نظرآرہے ہیں اگر چہ ایسا کرنے کی وجہ زیادہ سے زیادہ منافہ ہے جو کسان بہت جلد حاصل کرنا چاہتے ہیں جسکے لئے سرکار بھی کسانوں کی مدد ہر سطح پر کررہی ہے تاہم جس قدر کسانوں کو زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل ہونا چائے تھی اُسی قدر اب کسانوں کو کئی طرح کی مشکلات کا بھی سامنا ہے کیونکہ کچھ خود غرض لوگ جو مختلف میوہ درختوں کیلئے ادویات اور کھاد بیجتے ہیں وہ اب ایسی حرکتوں پر اُتر آئے ہیں کہ جلد سے جلد روپیہ کمانے کے چکر میں وہ نقلی ادویات اور کھاد بازاروں میں کسانوں کو تھما دیتے ہیں کیونکہ کسان کے پاس جب وقت پر اپنے باغات کیلئے ضرورت ادویات یا کھاد خریدنے کیلئے روپیہ نہیں ہوتے تو ایسے خود غرض دوکاندار اُنہوں اُدھار ایسی ادویات اور کھاد دیتے ہیں جو اصل میں نقلی ہوتی ہے جسکی وجہ سے باغ مالکان کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جہاں اُنہیں کچھ مہینوں کے بعد اُدھار واپس دینا پڑتا ہے وہیں اُن کے باغات کی حالت نقلی کھاد اور ادویات سے اس قدر خراب ہوتی ہے کہ پھر مزید ادویات کے ساتھ ساتھ پورا سال اُنہیں پھر سے نئے فصل کیلئے انتظار کرنا پڑتا ہے جسکی وجہ سے کسان ترقی کے بجائے مفلسی کا شکار ہوجاتا ہے ۔دوسری جانب اگر چہ ایسی شکایات ملنے کے بعد محکمہ ہاٹی کلچر کی جانب سے کام کررہی ٹاسک فورس ایسے دوکانددارون کیخلاف کاروائی بھی عمل میں لاتی ہے تاہم ایسی کاروائی تب عمل میں لائی جاتی ہے جب میوہ کسان کو لاکھوں روپیوں کا نقصان ہوچکا ہوتا ہے تو ایسے میں کسی بھی طور پھر میوہ کسان کو کوئی فائد ہ نہیں ہوتا ہے۔ظاہر سی بات ہے جس قدر نقصانات سے دوچار ہونے کے بعد محکمہ ہاٹی کلچر کا ٹاسک فورس کاروائی عمل میں لاتا ہے بہتر ہوتا اگر اس طرح قائم کیا گیا ٹاسک فورس پہلے ہی ایسے افراد کیخلاف کاروائی عمل میں لاتا جو کسانوں کو اس طرح کی چور بازاری سے دو دو ہاتھ لوٹ لیتے ہیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے جموں کشمیر کی معیشت میں میوہ صنعت بہت ہی اہم مقام رکھتی ہے جس کی جہ سے روزگار صرف میوہ کسانوں کو ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سارے افراد کو روزگار حاصل ہوتا ہے اور اگر ہم اپنی اس اہم میوہ صنعت کو ایسے خود غرض افراد سے نہیں بچا سکے تو شاید پورے جموں کشمیر کیلئے یہ ایک تبائی ثابت ہوگی کیونکہ کسانوں کوپھر روزگار کا دوسر ذریعہ بھی نہیں ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرکار نے کسانوں کے لئے کسان لون کی سہولیات میسر رکھی ہے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ کسان اپنے میوہ باغات اور کھیتوں میں وقت پر ادویات چھڑکے اور کھاد بھی ڈالے کیونکہ اکثر کسانوں کو اپنے میوہ باغات میں وقت پر ادویات چھڑکنے یا کھاد ڈالنے کیلئے پیسے نہیں ہوتے تھے کیونکہ کسان کو جو آمدنی میوہ سے ہوتی ہے اُسی سے اُس کا چولہ بھی جلتا ہے اور اپنے گھر کا خرچہ بھی جبکہ بچوں کی تعلیم ہو یا اُنکی شادی ہر کو ئی کام ایک کسان کو میوہ باغات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہی ہوتا ہے تاہم جس طرح سے وادی میں ایک مافیا جیسے کام کر رہا ہے جسکے نتیجے میں میوہ کسانوں کو سخت نقصان کا سامنا ہے اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سرکار کو بڑے پیمانے پر اس سے متعلق کاروائی عمل میں لانی ہوگی بصورت دیگر صرف میوہ کسان ہی نہیں بلکہ تمام لوگ اس طرح کی مصیبت کا شکار ہونگے جسکا بہت زیادہ اثر پھر جموں کشمیر کی معیشت پر ہی ہوگا ۔دیکھا جائے تو محکمہ ہاٹی کلچر کے پاس اس طرح کی روپوٹس پہلے بھی آتی رہی ہیں تاہم جس قدر اس طرح کا کام انجام دینے والے افراد کیخلاف کاروائی وقت پر ہونی چائے تھی وہ نہیں ہوپارہی ہے جسکی وجہ سے ایسے خود غرض افرادلگاتار میوہ کسانوں کیلئے مشکلات کا باعث بنتے جارہے ہیں اس لئے وقت کی ضرورت ہے کہ وادی کشمیر میں میوہ باغات کو نقلی ادویات اور نقلی کھاد سے نجات دلائی جائے تاکہ میوہ کسانوں کو نقصانات کے بجائے فائدہ مل سکے۔۔۔۔