ادب و احترام: شخصیت کی شان اور معاشرت کی بنیاد

AhmadJunaidBlogs & ArticlesJuly 9, 2025359 Views

احمد جنید

ادب و احترام انسانی معاشرے کی وہ بنیادی اقدار ہیں جن پر تہذیب و شائستگی کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ انسان جب شعور کی منزل پر قدم رکھتا ہے تو اس کے کردار و گفتار میں جو سب سے نمایاں وصف ہونا چاہیے، وہ ادب و احترام ہے۔ یہ صرف ایک فرد یا خاندان تک محدود نہیں بلکہ پوری قوموں کی ترقی اور زوال کا راز بھی انہی اوصاف میں پنہاں ہے۔ ادب و احترام کے بغیر نہ تو کوئی معاشرہ پائیدار رہ سکتا ہے اور نہ ہی افراد کے درمیان محبت، اعتماد اور باہمی تعاون کی فضا قائم رہ سکتی ہے۔ یہ اوصاف انسان کو اس کے مقام و مرتبے سے آشنا کرتے ہیں اور اس کی شخصیت میں وقار اور سنجیدگی پیدا کرتے ہیں۔ادب کا مفہوم صرف ظاہری آداب تک محدود نہیں بلکہ اس میں انسان کا باطنی رویہ، اس کی سوچ اور اس کے جذبات بھی شامل ہیں۔ ادب کا تعلق انسان کے اخلاق، اس کے بول چال، اس کے رویے اور اس کے عمل سے ہے۔ جب انسان اپنے سے بڑے، اپنے اساتذہ، والدین، بزرگوں اور معاشرتی شخصیات کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آتا ہے تو اس کے دل میں عاجزی، انکساری اور محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ یہی جذبات اسے ایک بہتر انسان اور ذمہ دار شہری بناتے ہیں۔ ادب و احترام کا سب سے پہلا سبق انسان کو اس کے گھر سے ملتا ہے۔ والدین کی عزت و توقیر، اساتذہ کی تعظیم اور بزرگوں کے سامنے عاجزی اختیار کرنا وہ اوصاف ہیں جو انسان کی شخصیت کو نکھارتے ہیں۔ادب و احترام کی اہمیت کو اگر مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہر دین و مذہب نے اس کی تلقین کی ہے۔ اسلام میں والدین کے ادب و احترام کو جنت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے سامنے اف تک نہ کہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اسی طرح اساتذہ کے ادب کو علم کے حصول کی شرط قرار دیا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں، اس لیے استاد کا مقام والدین سے بھی بڑھ کر ہے۔ ہر مذہب میں بزرگوں، رشتہ داروں اور معاشرتی شخصیات کے ادب و احترام پر زور دیا گیا ہے کیونکہ یہ اوصاف معاشرتی ہم آہنگی اور محبت کو فروغ دیتے ہیں۔ادب و احترام صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ یہ فطرت اور ماحول کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ درختوں، جانوروں، پانی، زمین اور قدرتی وسائل کا احترام کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ جب انسان فطرت کے ساتھ ادب و احترام کا رشتہ قائم کرتا ہے تو وہ ماحول کی حفاظت اور قدرتی وسائل کے صحیح استعمال کا سبق سیکھتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اس کی اپنی زندگی کو بہتر بناتا ہے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک خوبصورت اور محفوظ دنیا چھوڑنے کا باعث بنتا ہے۔ادب و احترام کی عملی شکلیں مختلف معاشروں میں مختلف انداز سے ظاہر ہوتی ہیں۔ برصغیر میں آداب کا مخصوص انداز ہے جس میں سلام کرنے کے لیے ہاتھ کو پیشانی کے سامنے لاکر جھکایا جاتا ہے۔ یہ انداز نہ صرف تہذیبی روایت کی علامت ہے بلکہ اس میں عاجزی، عزت اور محبت کے جذبات بھی پوشیدہ ہیں۔ اسی طرح مختلف زبانوں اور ثقافتوں میں ادب و احترام کے اظہار کے الگ الگ طریقے ہیں، لیکن مقصد سب کا ایک ہی ہے: دوسرے انسان کی عزت اور وقار کو تسلیم کرنا۔ادب و احترام کی تربیت سب سے پہلے خاندان میں دی جاتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اپنے عمل اور گفتار سے سکھاتے ہیں کہ کس طرح بڑوں کے سامنے بات کرنی ہے، کس طرح مہمانوں کا استقبال کرنا ہے، کس طرح استاد کا احترام کرنا ہے اور کس طرح چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنا ہے۔ یہ تربیت جتنی مضبوط ہوگی، معاشرہ اتنا ہی مہذب اور پُرامن ہوگا۔ اگر والدین خود ادب و احترام کے اصولوں پر عمل کریں گے تو بچے بھی انہی اصولوں کو اپنائیں گے۔ اس کے برعکس اگر والدین خود بدتمیزی، بدکلامی اور بے ادبی کا مظاہرہ کریں گے تو بچے بھی انہی عادات کو اپنائیں گے، جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ادب و احترام کا دائرہ صرف خاندان یا تعلیمی ادارے تک محدود نہیں بلکہ یہ ہر شعبہ زندگی میں لازمی ہے۔ دفتر میں سینئرز کا احترام، ساتھیوں کے ساتھ خوش اخلاقی، ماتحتوں کے ساتھ شفقت، گاہکوں کے ساتھ خوش دلی، عوامی مقامات پر نظم و ضبط اور قوانین کی پابندی، یہ سب ادب و احترام کی مختلف شکلیں ہیں۔ ایک اچھا معاشرہ وہی ہے جہاں ہر فرد دوسرے کے حقوق اور جذبات کا خیال رکھے اور اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئے۔ ادب و احترام کے بغیر نہ تو کوئی ادارہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی معاشرہ پُرامن رہ سکتا ہے۔ادب و احترام کی ایک اہم شکل اختلاف رائے میں برداشت اور رواداری ہے۔ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے، لیکن اس کے اظہار میں دوسرے کی عزت اور وقار کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اختلاف رائے کو دشمنی یا نفرت میں بدل دینا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بنتا ہے۔ ایک مہذب انسان وہ ہے جو اختلاف کے باوجود دوسرے کی رائے کو سننے اور اس کا احترام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ یہی رویہ معاشرتی ہم آہنگی اور فکری وسعت کا ذریعہ بنتا ہے۔ادب و احترام کے بغیر علم بھی بے معنی ہے۔ اگر انسان کے پاس علم ہے لیکن اس میں عاجزی، انکساری اور ادب نہیں تو اس کا علم اس کے لیے فتنہ اور غرور کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر علم کے ساتھ ادب و احترام ہو تو انسان نہ صرف خود ترقی کرتا ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اساتذہ ہمیشہ اپنے شاگردوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ علم کے ساتھ ساتھ ادب و احترام کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، کیونکہ یہی دونوں اوصاف انسان کو کامیابی کی بلند ترین منزلوں تک پہنچاتے ہیں۔ادب و احترام کا تعلق صرف بڑوں یا معزز شخصیات سے نہیں بلکہ ہر انسان سے ہے، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، کسی بھی مذہب یا طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر انسان کی عزت اور وقار کا خیال رکھنا ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فرض ہے۔ اگر ہم کسی غریب، کمزور یا مجبور انسان کی بے عزتی کرتے ہیں تو یہ نہ صرف اس انسان کی توہین ہے بلکہ ہمارے اپنے کردار کی کمزوری بھی ہے۔ ایک مہذب معاشرہ وہی ہے جہاں ہر انسان کو عزت دی جاتی ہے اور اس کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ادب و احترام کی ایک اور اہم شکل زبان و بیان میں شائستگی اور نرمی ہے۔ گفتگو میں سختی، بدتمیزی اور تلخی نہ صرف تعلقات کو خراب کرتی ہے بلکہ دلوں میں نفرت اور دوری بھی پیدا کرتی ہے۔ اس کے برعکس نرم لہجہ، شائستہ الفاظ اور خوش اخلاقی تعلقات کو مضبوط بناتی ہے اور دلوں میں محبت اور احترام کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ زبان میں شہد بھی ہے اور زہر بھی، یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی زبان کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ادب و احترام کے حوالے سے معاشرتی روایات اور تہذیبی اقدار بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہر معاشرے کی اپنی مخصوص روایات اور آداب ہوتے ہیں جو اس کی شناخت اور پہچان کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان روایات کا احترام کرنا اور ان کی پاسداری کرنا ہر فرد پر لازم ہے۔ اگر معاشرہ اپنی روایات اور اقدار کو بھول جائے تو اس کی شناخت اور وقار بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے بزرگوں، اساتذہ اور والدین کو چاہیے کہ وہ نئی نسل کو اپنی روایات اور اقدار سے روشناس کرائیں اور انہیں ادب و احترام کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ادب و احترام کی کمی آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور مغربی تہذیب کے اثرات نے نوجوان نسل کو اپنی روایات اور اقدار سے دور کر دیا ہے۔ والدین، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام کم ہوتا جا رہا ہے، زبان و بیان میں سختی اور بدتمیزی عام ہو گئی ہے، اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ کم ہو گیا ہے اور معاشرتی روایات کی پاسداری کو فرسودہ سمجھا جانے لگا ہے۔ اس صورت حال میں سب سے زیادہ ذمہ داری والدین، اساتذہ اور معاشرتی رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کو ادب و احترام کی اہمیت سے آگاہ کریں اور اپنے عمل سے اس کی عملی مثال پیش کریں۔ادب و احترام کی تربیت صرف نصیحت سے نہیں بلکہ عمل سے ہوتی ہے۔ اگر والدین خود اپنے والدین، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام کریں گے، اپنے بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش آئیں گے، اپنے عمل اور گفتار میں شائستگی اور نرمی اختیار کریں گے تو بچے بھی انہی اوصاف کو اپنائیں گے۔ اسی طرح اساتذہ اگر اپنے شاگردوں کے ساتھ محبت، شفقت اور احترام کا رویہ اختیار کریں گے تو شاگرد بھی ان کے ادب و احترام کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے۔ معاشرتی رہنما اگر اپنی تقریروں اور عمل سے ادب و احترام کی اہمیت کو اجاگر کریں گے تو معاشرہ بھی ان اوصاف کو اپنائے گا۔ادب و احترام کے حوالے سے اسلامی تعلیمات نہایت جامع اور واضح ہیں۔ قرآن مجید میں بار بار والدین، اساتذہ، بزرگوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک اور ادب و احترام کی تلقین کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا گیا کہ جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ یہ تعلیمات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ادب و احترام اسلام کی بنیادی اقدار میں شامل ہیں۔ادب و احترام کی ایک اور اہم شکل خواتین کا احترام ہے۔ اسلام نے عورت کو عزت و احترام کا مقام دیا ہے اور اس کے حقوق کی حفاظت کی ہے۔ معاشرتی سطح پر خواتین کے ساتھ ادب و احترام کا رویہ اختیار کرنا نہ صرف اخلاقی فریضہ ہے بلکہ معاشرتی ترقی اور ہم آہنگی کے لیے بھی ضروری ہے۔ خواتین کے ساتھ بدتمیزی، بدکلامی یا ان کی توہین معاشرتی بگاڑ اور اخلاقی پستی کی علامت ہے۔ ایک مہذب معاشرہ وہی ہے جہاں خواتین کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا حق دیا جائے۔ادب و احترام کی ایک اور شکل مذہبی رواداری اور برداشت ہے۔ ہر مذہب اور عقیدے کا احترام کرنا، دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے جذبات کا خیال رکھنا اور ان کے عقائد کی توہین سے گریز کرنا ایک مہذب معاشرے کی علامت ہے۔ مذہبی اختلافات کو نفرت، دشمنی یا تعصب کا ذریعہ بنانا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ معاشرتی انتشار کا سبب بھی بنتا ہے۔ ایک باشعور اور مہذب معاشرہ وہی ہے جہاں ہر فرد کو اپنی مذہبی آزادی حاصل ہو اور اس کے عقائد کا احترام کیا جائے۔ادب و احترام کے حوالے سے ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ جب ہم کسی محفل میں داخل ہوتے ہیں تو سلام کرنا، بزرگوں کے سامنے مؤدب بیٹھنا، استاد کے سامنے کھڑے ہوکر بات کرنا، مہمانوں کا استقبال خوش دلی سے کرنا، چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش آنا، یہ سب ادب و احترام کی عملی شکلیں ہیں۔ اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ان اوصاف کو اپنائیں تو نہ صرف ہماری شخصیت میں نکھار آئے گا بلکہ ہمارا معاشرہ بھی پُرامن اور خوشحال بن جائے گا۔ادب و احترام کی کمی کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ اگر معاشرے میں ادب و احترام کا فقدان ہو جائے تو وہاں بدتمیزی، بدکلامی، بے راہ روی، نفرت، دشمنی اور انتشار عام ہو جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کرنے لگتے ہیں، چھوٹے بڑوں کی عزت نہیں کرتے، بزرگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی، اساتذہ کی توہین کی جاتی ہے، خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے اور معاشرتی روایات کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرہ انتشار، بدامنی اور زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ادب و احترام کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہمیں اپنی تعلیمی نصاب، معاشرتی اداروں اور میڈیا میں اس موضوع کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں ادب و احترام کے موضوع پر لیکچرز، سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرنا چاہیے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اپنے پروگرامز، ڈراموں اور اشتہارات کے ذریعے ادب و احترام کی اہمیت کو اجاگر کرے۔ معاشرتی اداروں کو چاہیے کہ وہ والدین، اساتذہ اور نوجوانوں کو ادب و احترام کی تربیت دیں اور اس کی عملی مثالیں پیش کریں۔ادب و احترام کی تربیت کے لیے سب سے اہم چیز خود احتسابی ہے۔ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے کردار، گفتار اور عمل کا جائزہ لے اور دیکھے کہ کیا وہ واقعی ادب و احترام کے اصولوں پر عمل کر رہا ہے یا نہیں۔ اگر اس میں کوئی کمی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرے۔ اپنے والدین، اساتذہ، بزرگوں، رشتہ داروں، ہمسایوں، ساتھیوں، ماتحتوں اور معاشرتی شخصیات کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آئے۔ اپنی زبان، لہجے اور رویے میں شائستگی اور نرمی اختیار کرے۔ اختلاف رائے میں برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرے۔ معاشرتی روایات اور اقدار کی پاسداری کرے۔۔۔

0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...