گوگل، مائیکروسافٹ جیسی کمپنیاں نسل کشی اور فوجی کارروائیوں میں اسرائیل کی مددگار: رپورٹ

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 8, 2025361 Views


اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو پیش کی گئی ایک نئی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ اور ویسٹ بینک میں اسرائیل کے قبضے اور فوجی کارروائیوں کو آسان بنانے یا فائدہ پہنچانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے۔

غزہ پٹی پر اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں سے بے گھر ہونے والے فلسطینی، 2 جولائی 2025 کو غزہ پٹی کے خان یونس میں  شام کے وقت عارضی خیمے ۔تصویر: اے پی / پی ٹی آئی

نئی دہلی: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی گئی ایک نئی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں عالمی کمپنیوں نے غزہ اور ویسٹ بینک میں اسرائیل کے قبضے اور فوجی کارروائیوں کو سہولت فراہم کرنے یا ان سے فائدہ اٹھانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے،  جوبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے،  اور نجی شعبے کی جوابدہی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ  فرانسسکا البانیس کی جانب سے لکھی گئی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف شعبوں میں کارپوریٹ اداروں نے ‘مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں حق خود ارادیت سے انکار اور دیگر اسٹرکچرل خلاف ورزیوں کو اہل بنایا ہے، جس میں قبضہ ،الحاق ، نسل پرستی اورنسل کشی کے جرائم شامل ہیں، ساتھ ہی امتیازی سلوک، بے دریغ تباہی، جبری نقل مکانی اور لوٹ مار سے لے کر ماورائے عدالت قتل اور فاقہ کشی تک  کے ذیلی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔’

جہاں پچھلی رپورٹس غیر قانونی بستیوں یا اسرائیل کے سیاسی اقدامات پر مرکوز تھیں، یہ رپورٹ 200 سے زیادہ پریزینٹیشن اور تقریباً 1000 کارپوریٹ اداروں کے ایک نئے ڈیٹا بیس پر مبنی ہے، جو عالمی کاروباری نیٹ ورک کو ان ڈھانچوں سے جوڑنے والی پہلی رپورٹ ہے، جنہیں البانیس نے نسل پرستی اور نسل کشی سمیت بین الاقوامی جرائم قرار دیا ہے۔

قبضے کی معیشت سے نسل کشی کی معیشت تک ‘ کے عنوان سے 39صفحات پر مشتمل رپورٹ میں 48 کارپوریٹ اداروں کی نشاندہی کی گئی،جو فلسطینی علاقوں میں معاشی سرگرمیوں میں ملوث ہیں،’جبکہ  7 اکتوبر 2023 کے بعد بڑھتے ہوئے مظالم کے باوجود جان بوجھ کر ڈاکیومینٹیشن، نظامی زیادتیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔

کارپوریٹ اداروں نے نسل کشی کی اسرائیلی معیشت سے فائدہ اٹھایا

خصوصی نمائندے نے اپنے خلاصے میں لکھا کہ بین الاقوامی حکومتیں کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہیں، جبکہ بہت سے کارپوریٹ اداروں نے ناجائز قبضے، نسل پرستی اور اب نسل کشی کی اسرائیلی معیشت سے فائدہ اٹھایا ہے۔

انہوں نے لکھا،’یہ ملی بھگت توبس شروعات ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر،جس میں اس کے ایگزیکٹوز بھی شامل ہیں،کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے، کیونکہ یہ نسل کشی کے خاتمے اور نسلی سرمایہ داری کے عالمی نظام کو ختم کرنے کی سمت میں ایک ضروری قدم ہے۔’

یہ دلیل دیتے ہوئے کہ کارپوریٹ کی شمولیت ‘اسرائیلی قبضے کے منصوبے’ کے لیے بہت اہم ہے، وہ براہ راست تجارتی مفادات کو فلسطینیوں کی نقل مکانی اور بے دخلی سے جوڑتی ہے، خاص طور پر 1967 کے بعد۔

رپورٹ میں کہا گیا،’کارپوریٹ سیکٹر نے اسرائیل کو گھروں، اسکولوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں اور تفریح ​​کی جگہوں، ذریعہ معاش اور زیتون کے باغات جیسے پیداواری اثاثوں کو تباہ کرنے کے لیے درکار ہتھیار اور مشینری فراہم کرکے اس کوشش میں مادی طور پر تعاون کیا ہے۔’

اس میں کمپنیوں پر عسکریت پسندی اور غیر قانونی بستیوں کو فروغ دینے میں مدد کر نے کا بھی الزام لگایا گیا ہے، جس سے فلسطینی شہریوں کی ہلاکت کے لیے سازگار حالات پیدا ہوئے ہیں۔

جن فرموں کا نام لیا گیا ہے ان میں اسرائیلی ہتھیار بنانے والی کمپنیاں ایلبٹ سسٹمزاور اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریزکے ساتھ ساتھ امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن بھی شامل ہے، جو غزہ میں استعمال ہونے والے ایف35 لڑاکا طیارے بناتی ہے ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے غزہ پر 85000 ٹن سے زیادہ بم گرائے ہیں، جن میں سے اکثرغیر ہدایت شدہ کے تھے۔ البانی نے اس مہم کو ‘غزہ کی تباہی’ قرار دیا۔

عالمی کھلاڑی

رپورٹ میں ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والی روبوٹک مشینری کی فراہمی کے لیے جاپان کی ایف اے این یوسی کارپوریشن اور غزہ میں اپنے آپریشن کے دوران اسرائیل کو ‘امریکہ کی طرف سے فراہم کیے جانے والے فوجی سازوسامان کی مسلسل سپلائی کو برقرار رکھنے’ کے لیے ڈنمارک کے اے پی مولر-مارسک کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا،’ ایلبٹ سسٹمز اور اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز جیسی اسرائیلی کمپنیوں کے لیے یہ نسل کشی ایک منافع بخش کاروبار رہا ہے۔’

اس میں کہا گیا: ‘2023 سے 2024 تک اسرائیلی فوجی اخراجات میں 65 فیصد  کا اضافہ  ہوا– جو کہ46.5 بلین ڈالرہوگا، جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ فی کس میں سے ایک ہے –  نےسالانہ منافع میں تیزی سے اضافہ کیا۔’

ہتھیاروں کی صنعت سے ہٹ کررپورٹ میں بڑے پیمانے پر نگرانی کے نظام کو فعال کرنے میں اسرائیلی اور عالمی ٹیک کمپنیوں کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے۔ مائیکروسافٹ، آئی بی ایم، گوگل، ایمیزون اور پالانٹیر جیسی کمپنیوں پر کلاؤڈ سروسز، اے آئی ٹارگٹنگ پلیٹ فارمز اور بایو میٹرک سسٹم فراہم کرنے کا الزام ہے جو قبضے کی حمایت کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘فلسطینیوں کا جبر بتدریج خودکار (آٹومیٹک) ہوگیا ہے’ اور ٹکنالوجی کمپنیاں اس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں جسے البانیس نے مقبوضہ علاقوں میں ‘فوجی ٹکنالوجی کے لیے منفرد ٹیسٹنگ گراؤنڈ’ قرار دیا ہے۔

ارب پتی پیٹر تھیل کے تعاون سے قائم پالانٹیر ٹیکنالوجیز کا نام اے آئی سے چلنے والے ٹارگٹنگ سسٹم کی فراہمی کے لیے لیا جاتا ہے جو مبینہ طور پر فضائی حملوں کے دوران خودکار فیصلے لینے میں مدد کرتے ہیں۔

البانیس کا کہنا ہے کہ ‘یہ یقین کرنے کے لیے معقول بنیادیں ہیں’ کہ پالانٹیر نے پیش گوئی کرنے والے پولیسنگ ٹولز اور ملٹری سافٹ ویئر انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ اس کا مصنوعی ذہانت کا پلیٹ فارم بھی فراہم کیا، جو میدان جنگ میں مددگار ثابت ہوا ہے۔

انہدام اور جبری نقل مکانی کی کوششوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کاتعاون

رپورٹ میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے انہدام اور جبری نقل مکانی کی کوششوں میں فراہم کی گئی بھاری مشینری کے استعمال کی بھی تفصیل دی گئی ہے۔

اس میں کیٹرپلر، ایچ ڈی ہنڈائی اور وولوو کو فلسطینیوں کی املاک کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے آلات کی فراہمی کا الزام لگایا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ‘اکتوبر 2023 سے یہ مشینری غزہ میں 70 فیصد ڈھانچے اور 81 فیصد فصلی زمین کو نقصان پہنچانے اور تباہ کرنے میں ملوث ہے۔’

تعلیمی ادارے اور مالیاتی ادارے بھی اس  میں شامل ہیں۔ رپورٹ میں اسرائیلی یونیورسٹیوں پر ہتھیاروں کی ٹکنالوجی تیار کرنے اور نسلی امتیاز اور قبضے کی حمایت کرنے والے بیانیے کو فروغ دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘اسرائیل میں یونیورسٹیاں – خاص طور پر قانون کے اسکول، آثار قدیمہ اور مشرق وسطیٰ کے مطالعہ کے شعبے – نسلی امتیاز کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں’، اور ان پر فلسطینی تاریخ کو مٹانے اور نوآبادیاتی طریقوں کو قانونی حیثیت دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔

جنگ سے ترقی

البانی نے مغربی یونیورسٹیوں کے اسرائیلی اداروں اور فوجی تحقیق سےان کے تعلقات کا بھی انکشاف کیا ہے۔ مثال کے طور پر، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی کئی لیبارٹریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی وزارت دفاع کے لیے تحقیق کرتی ہیں۔ اسرائیلی وزارت دفاع ایم آئی ٹی میں اس طرح کے کام کو فنڈ کرنے والی واحد غیر ملکی ملٹری ہے۔ ان میں ڈرون کنٹرول، تعاقب الگورتھم، اور پانی کے اندر نگرانی سے متعکق منصوبے شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ قانونی پیش رفت، خاص طور پر بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے نے ‘کارپوریٹ ذمہ داری اور ممکنہ ذمہ داری کی تشخیص کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔’

‘آئی سی جے کی مشاورتی رائے، جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حمایت حاصل ہے، کارپوریٹ اداروں پر اولین ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ قبضے کے کسی بھی جزو کے ساتھ کسی بھی لین دین میں ملوث ہونے سے گریز کریں اور/یا مکمل طور پر اور غیر مشروط طور پر دستبردار ہوجائیں۔’

جنوری 2024 میں آئی سی جے نے اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے’تمام اقدامات’ کرے۔ پانچ ماہ بعد، اس نے اسرائیل سے اپنی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ بھی کیا۔

اپنی سفارشات کے تحت رپورٹ نے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ‘احتساب کو نافذ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کارپوریٹ اداروں کو قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑے جب وہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہوں۔’

اس نے مطالبہ کیا کہ عالمی کارپوریشنوں کو ‘بین الاقوامی کارپوریٹ ذمہ داریوں کے قانون کے مطابق، تمام کاروباری سرگرمیاں فوری طور پر بند کرنی چاہیے اور فلسطینی عوام کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بین الاقوامی جرائم میں شراکت اور تشکیل دینے والے تمام تعلقات کوختم کر دینا چاہیے ۔’

اسرائیل کا ردعمل

اسرائیل نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق، اسرائیلی حکومت نے اسے ‘بے بنیاد، توہین آمیز اور عہدے کا انتہائی غلط استعمال’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل نے نسل کشی کے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ حماس کے خلاف اپنے دفاع میں کام کر رہا ہے، جو 7 اکتوبر 2023 کے دہشت گردانہ حملے کے پیچھےتھا۔

رپورٹ جاری ہونے سے دو دن قبل امریکہ نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس  کو’ان کے (البانیس کے) کے اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے اور ان کی برطرفی کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔’

قبل ازیں یکم جولائی کو اقوام متحدہ میں امریکی مستقل مشن کے ایک بیان میں کہا گیا،’امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ ایسا کرنے میں مسلسل ناکامی نہ صرف اقوام متحدہ کی بدنامی کا باعث بنے گی بلکہ البانیس کی بدتمیزی کے جواب میں اہم کارروائی کی بھی ضرورت ہوگی۔’

اقوام متحدہ پر مرکوز نیوز آؤٹ لیٹ پاس بلیو کے مطابق، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے ترجمان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ گوٹیریس کے پاس’نہ تو ان کی تقرری کا اختیار ہے اور نہ ہی برطرف کرنے کا۔ لہذا، جبکہ ان کے نام میں اقوام متحدہ کا لوگو اور اقوام متحدہ کا ٹائٹل ہے، وہ مکمل طور پر سکریٹری جنرل سے آزادانہ طور پر کام کرتی ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہیں،وہ  کہاں ہیں یا وہ کیا کہتی ہیں۔’

معلوم ہو کہ اس سال کے شروع میں ٹرمپ انتظامیہ کی دوسری مدت کے لیے واپس آنے کے بعد اسرائیل اور امریکہ دونوں نے جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ اس سے قبل ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ کونسل سے نکل گیا تھا۔



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Follow
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...