سپریم کورٹ (تصویر: پی ٹی آئی/ کمل کشور)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (7 جولائی) کو بہار میں ووٹر لسٹ پر اسپیشل انٹینسو ریویژن کرنے کے الیکشن کمیشن (ای سی آئی) کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو فوری طور پر لسٹ کرنے پر رضامندی دے دی ہے۔
یہ عرضی سینئر وکیل کپل سبل، ابھیشیک منو سنگھوی، گوپال شنکر نارائنن اور شادان فراست نے دائر کی تھی۔
یہ عرضیاں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ایم پی منوج جھا، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر)، پی یو سی ایل، سماجی کارکن یوگیندر یادو اور لوک سبھا ایم پی مہوا موئترا نے دائر کی ہیں۔
لائیو لا کے مطابق، جسٹس سدھانشو دھولیا اور جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے درخواست گزاروں کی اس دلیل کو سنا کہ جو ووٹر مقررہ دستاویزوں کے ساتھ فارم جمع نہیں کر پائیں گے، ان کے نام ووٹر لسٹ سے ہٹا دیے جائیں گے، خواہ وہ پچھلے 20 سالوں سے مسلسل ووٹ دیتے آ رہے ہوں۔ انہوں نےکہا آٹھ کروڑ میں سے چار کروڑ لوگ اس کارروائی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
وکیلوں نے یہ بھی بتایا کہ الیکشن کمیشن نے آدھار یا ووٹر شناختی کارڈ کو درست دستاویز کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، جس کی وجہ سے اتنے کم وقت میں اس عمل کو مکمل کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں سے کہا کہ وہ اپنی درخواستوں کی کاپیاں مرکزی حکومت، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر متعلقہ فریقوں کو پیشگی جمع کرائیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ درخواستوں کی کاپیاں اٹارنی جنرل آف انڈیا کو بھی دی کی جائیں۔
سماعت کے دوران سینئر ایڈوکیٹ سنگھوی نے کہا کہ 24 جون کے اسپیشل انٹینسو ریویژن نوٹیفکیشن میں بہار کے کروڑوں غریب اور پسماندہ ووٹروں پر سخت ڈیڈ لائن لگائی گئی ہے۔ ان لوگوں سے ایسے دستاویزمانگے جا رہے ہیں جن میں آدھار اور راشن کارڈ شامل نہیں ہیں، جبکہ یہی وہ دستاویز ہیں جو عام لوگوں کے پاس ہوتے ہیں۔
کپل سبل نے عدالت سے گزارش کی کہ وہ الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کمیشن اس اسپیشل انٹینسو ریویژن کے عمل کو جلدبازی میں لاگو کرنے کی وجہ بتائے، کیونکہ اس عمل سے بہار کے کروڑوں ووٹروں کو ان کے ووٹ ڈالنےکے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اس نے پورے ملک میں اسپیشل انٹینسو ریویژن کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کی شروعات بہار سے کی جارہی ہے۔ دیگر ریاستوں کے لیے الگ الگ پروگرام کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
بنچ ان درخواستوں کی سماعت 10 جولائی کو کرے گا۔
ایک دن پہلے سابق الیکشن کمشنر اشوک لواسا نے ایک اخباری کالم میں لکھا تھا کہ اس اعلان کا وقت مشکوک تھا، خاص طور پر جب کچھ ریاستوں میں شہریت کی جانچ کو لے کر جنون کا ماحول بنا ہوا تھا، اور جہاں مقامی سطح پر ‘ پیوریفیکیشن ‘ کے نام پر ووٹروں کے نام ہٹائے گئے ہیں۔
لواسا پوچھتے ہیں، ‘بہار میں 2003 کی ووٹر لسٹ کو ہی بنیاد کیوں بنایا گیا، حالانکہ اس کے بعد بھی ووٹر لسٹوں پر نظر ثانی کی گئی ہے؟’
انہوں نے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے پیرا 11 کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ 2003 کی ووٹر لسٹ کو ‘شہریت کے قیاس سمیت اہلیت کا مستند ثبوت مانا جائے۔’ اس بنیاد پر انہوں نے سوال اٹھایا کہ 2003 تک رکے جسٹرڈ ناموں کو ہی ثبوت کیوں مانا جا رہا ہے؟
سب سے اہم بات ، لواسا نے یہ بھی پوچھا کہ جب ہندوستان میں حکومت کی جانب سے شہریت کے حوالے سے کوئی سرکاری دستاویز جاری نہیں کیا جاتا، تو کیا الیکشن کمیشن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے ٹیسٹ کرائے ؟
انہوں نے لکھا؛
اب تک الیکشن کمیشن دستاویزی شواہد اور جسمانی تصدیق کی بنیاد پر ناموں کو شامل کرتا رہا ہے اور شہریت قانون کے مطابق شہریت کا کوئی ثبوت نہیں مانگتا رہا ہے۔ ایسے میں یہ بحث طلب ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کو اب ایسا عمل اختیار کرنا چاہیے جس سے لوگوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم ہونے کا خطرہ ہو، یا اسے اپنے آزمودہ عمل پر قائم رہنا چاہیے۔
لواسا مزید لکھتے ہیں، ‘ایسے رائے دہندگان کا کیا ہوگا جن کے نام پہلے فہرست میں تھے، انہیں ووٹر کارڈ بھی جاری کیے گئے تھے، لیکن اب تسلیم شدہ دستاویزنہ ہونے کی وجہ سے باہر کردیے گئے ہیں؟ کیااب ان کی ذمہ داری حکومت لے گی یا پھر عدلیہ؟’
بتادیں کہ اشوک لواسا کو 2018 میں الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا، انہوں نے 2019 کے انتخابات میں نریندر مودی اور امت شاہ کی جانب سے انتخابی مہم کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر کئی بار اختلاف رائے ظاہر کیا تھا۔