دوہرے معیار کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو نقصان ہوا، عالمی اداروں میں مناسب مقام ملنا چاہیے: مودی

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 7, 2025361 Views


گلوبل ساؤتھ اکثر دوہرے معیارات کا شکار رہا ہے۔ چاہے وہ ترقی، وسائل کی تقسیم، یا سیکیورٹی سے متعلق مسائل ہوں، گلوبل ساؤتھ کے مفادات کو ترجیح نہیں دی گئی۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

وزیراعظم نریندر مودی نے ترقی پذیر ممالک کو دوہرے معیار کا شکار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان ممالک کے مفادات کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی اور عالمی اداروں میں مناسب نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ان اداروں کے پاس 21ویں صدی کے چیلنجوں کا حل نہیں ہے۔ اتوار کی شام 17ویں برکس چوٹی کانفرنس میں عالمی نظم و نسق سے متعلق سیشن میں نریندر مودی نے زور دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو عالمی اداروں میں مناسب نمائندگی دی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے ہمیشہ اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے مفاد میں کام کرنا اپنا فرض سمجھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان برکس ممالک کے ساتھ تمام موضوعات پر تعمیری تعاون کرنے کے لئے پوری طرح پابند عہد ہے۔

انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ امتیازی سلوک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان ممالک کو اکثر دوہرے معیار کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انہوں نے کہاکہ “گلوبل ساؤتھ اکثر دوہرے معیارات کا شکار رہا ہے۔ چاہے وہ ترقی، وسائل کی تقسیم، یا سیکیورٹی سے متعلق مسائل ہوں، گلوبل ساؤتھ کے مفادات کو ترجیح نہیں دی گئی۔ موسمیاتی مالیات، پائیدار ترقی اور ٹیکنالوجی تک رسائی جیسے مسائل پر گلوبل ساؤتھ کو اکثر علامتی حصہ سے زیادہ کچھ نہیں ملا۔’

ترقی پذیر ممالک کو عالمی اداروں میں مناسب نمائندگی نہ ملنے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان ممالک کو کبھی بھی فیصلہ سازی کی میز پر بیٹھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ترقی پذیر ممالک کے بغیر ان اداروں کا کوئی جواز نہیں۔ ان کا وجود سم کارڈ کے بغیر موبائل فون کی طرح ہے۔

انہوں نے کہاکہ ’20ویں صدی میں بننے والے عالمی اداروں میں دو تہائی انسانیت کو مناسب نمائندگی نہیں ملی۔ جن ممالک کا آج کی عالمی معیشت میں بڑا حصہ ہے انہیں فیصلہ سازی کی میز پر جگہ نہیں دی گئی۔ یہ نہ صرف نمائندگی کا سوال ہے بلکہ اعتبار اور تاثیر کا بھی سوال ہے۔ عالمی تعاون کے بغیر یہ ادارے ایک موبائل کی طرح لگتا ہے جس میں سم کارڈ ہے لیکن نیٹ ورک نہیں ہے۔ یہ ادارے اکیسویں صدی کے چیلنجز سے نمٹنے سے قاصر ہیں۔ چاہے وہ دنیا کے مختلف حصوں میں جاری تنازعات ہوں، وبائی امراض ہوں، معاشی بحران ہوں یا سائبر اور خلا میں نئے ابھرتے ہوئے چیلنجز ہوں، ان اداروں کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔’

بدلتے ہوئے حالات میں کثیر قطبی اور جامع عالمی نظام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے عالمی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا اور ترقی پذیر ممالک کے چیلنجز کو ترجیح دینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ ‘آج دنیا کو ایک نئے کثیر قطبی اور جامع عالمی نظام کی ضرورت ہے۔ اس کا آغاز عالمی اداروں میں جامع اصلاحات سے کرنا ہوگا۔ اصلاحات محض علامتی نہیں ہونی چاہئیں بلکہ ان کے حقیقی اثرات بھی نظر آنے چاہئیں۔ حکمرانی کے ڈھانچے، ووٹنگ کے حقوق اور قیادت میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے چیلنجز کو پالیسی سازی میں ترجیح دی جانی چاہیے۔’

برکس کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت رکھنے والی تنظیم کے طور پر بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ‘برکس کی توسیع، نئے دوستوں کا شامل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ برکس ایک ایسی تنظیم ہے جو وقت کے ساتھ خود کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اب ہمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ملٹی لیٹرل ڈویلپمنٹ بینک کے اداروں میں اصلاحات کے لیے وہی قوت ارادی دکھانی ہوگی۔ اے آئی کے دور میں جہاں ٹیکنالوجی ہر ہفتے ترقی کر رہی ہے، کسی عالمی ادارے کے لیے یہ قابل قبول نہیں کہ اسّی سال میں ایک بار بھی اپ ڈیٹ نہ ہو۔ اکیسویں صدی کا سافٹ ویئر بیسویں صدی کے ٹائپ رائٹر پر نہیں چل سکتا۔وزیر اعظم  مودی نے امید ظاہر کی کہ برازیل کی صدارت میں برکس ممالک کے تعاون کو نئی رفتار اور توانائی ملے گی۔ انہوں نے انڈونیشیا کے صدر کو برکس فیملی میں شامل ہونے پر بھی مبارکباد دی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Follow
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...