سیاسی منظرنامہ بھی دلچسپ ہے۔ اگرچہ اکالی دل اور بی جے پی الگ ہو چکے ہیں، مگر مرکز کی طرف سے مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے قیاس کیا جا رہا ہے کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتیں۔ پنجاب بی جے پی کے صدر سنیل جاکھڑ کے حالیہ بیانات اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
بھگونت مان حکومت نے سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنی ہی پارٹی کے کئی وزیروں اور اپوزیشن رہنماؤں پر مقدمے درج کیے، مگر کسی بھی کیس کو انجام تک نہ پہنچا سکی۔ کانگریس کے بھارت بھوشن آشو پر 2000 کروڑ روپے کے گھوٹالے کا الزام لگا، ای ڈی نے بھی تفتیش کی، گرفتاری ہوئی لیکن بعد میں عدالت نے ایف آئی آر کو خارج کر دیا اور آشو رہا ہو گئے۔
اس پس منظر میں مجیٹھیا کی حالیہ گرفتاری کو صرف ایک انتخابی چال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کا مقصد ڈیڑھ سال بعد ہونے والے انتخابات کے لیے ماحول بنانا ہے، نہ کہ منشیات کے عفریت سے حقیقی جنگ۔