نئی دہلی: ٹیلر کنہیا لال کے قتل پر بنائی گئی فلم، ’ادے پور فائلز‘ کا ٹریلر منظر عام پر آتے ہی اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ فلم کے ٹریلر میں نوپور شرما کا وہ متنازعہ بیان بھی شامل ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک بھر میں فرقہ وارانہ ماحول خراب ہوا تھا بلکہ عالمی سطح پر ملک کی شبیہ خراب ہوئی تھی اور دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات پر بھی منفی اثر پڑا تھا، پھر مجبور ہوکر بی جے پی نے اس کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ فلم کے ٹریلر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ازواج مطہرات کے خلاف نازیبا تبصرہ کیا گیا ہے جس سے ملک کا امن اومان خراب ہوسکتا ہے۔ اس فلم میں دیوبند کو انتہاپسندی کا اڈہ بتایا گیا ہے اور وہاں کے علماء کے خلاف بدترین زہر افشانی کی گئی ہے۔ یہ فلم کلی طور پر ایک مذہبی طبقے کو بدنام کرتی ہے، جس سے نفرت کو فروغ، شہریوں کے درمیان احترام اور سماجی ہم آہنگی کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتاہے۔اس میں ’ گیان واپی مسجد‘ جیسے زیر التوا اور حساس معاملے کا ذکر کیا گیا ہے، جو اس وقت وارانسی کی ضلعی عدالت اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ یہ چیزیں آئین ہند کے آرٹیکل 14، 15 اور 21 میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
سینسر بورڈ سے سند جاری کرنے کے بعد اس فلم کی ریلیز 11 جولائی جمعہ کو ہونے جارہی ہے۔ فلم کی ریلیز پر پابندی لگانے کے لیئے صدر جمعتہ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے دہلی سمیت مہاراشٹرا اور گجرات ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے اپنی پٹیشن میں یونین آف انڈیا، سینٹرل بورڈ آف سرٹفیکیشن، جانی فائر فاکس میڈیا پرائیویٹ لیمیٹڈ اور ایکس کارپس کو فریق بنایا ہے جو اس فلم کے پروڈکش سے لیکر ریلیز میں شامل ہیں۔ آئین ہند کی دفعہ226 کے تحت داخل پٹیشن کو سپریم کورٹ آف انڈیا کے وکیل فضیل ایوبی نے تیار کیا ہے۔داخل کردہ پٹیشن کا ڈائری نمبر یہ Diary No. E-4365978/2025 ہے۔ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ اظہار رائے کے حق کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے فلم میں قابل اعتراضات مناظر کو دکھایا گیا ہے جس سے اسلام، مسلمان اور دیوبند کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ فلم میں انتہائی گھٹیا اور نفرت آمیز مکالمے لکھے گئے ہیں۔ فلم کا ٹریلر دیکھ کر مسلمان دشمنی ظاہر ہوتی ہے، ٹریلر دیکھنے کے بعد پوری فلم میں کس طرح کے مکالمے اور مناظر ہونگے اس کا بس تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔
جمعیۃ علماء ہندکے صدرمولانا ارشدمدنی نے اس نفرت انگیز فلم پر اپنے سخت ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ ملک کے امن وامان اورفرقہ وارانہ یکجہتی کو آگ لگانے کے لئے یہ فلم بنائی گئی ہے، یہی نہیں اس فلم کے سہارے ایک مخصوص طبقہ ان کے علماء اوران کے دینی تعلیمی اداروں کے شبیہ کو مجروح کرکے انہیں بدنام کرنے کی دانستہ سازش کی گئی ہے، انہوں نے اس بات پر سخت حیرت کا اظہارکیا کہ سنسر بورڈ نے اپنے اصولوں ضوابط کو طاق پر رکھ کر کس طر ح اس فلم کو نمائش کی اجازت دے دی ؟انہوں نے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے بعض ایسی طاقتوں اورلوگوں کا ہاتھ ہے جو ایک مخصوص طبقہ کے کرداروعمل کو منفی اندازمیں پیش کرکے اکثریت کے ذہنوں میں ان کے خلاف مذہبی منافرت کا زہر گھول دینا چاہتے ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ فلم کو نمائش کی اجازت دیکر سنسربورڈنے ایک مجرمانہ سازش کی ہے، ایسالگتاہے کہ دوسرے سرکاری اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکاہے، یہ کوئی پہلی فلم نہیں ہے اس سے پہلے بھی بورڈ کئی متنازع فلموں کو منظوری دے چکاہے، یہ اس بات کاثبوت ہے کہ یہ ایک بڑی سازش کے تحت اس طرح کی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ انہوں نے آگے کہاکہ ایساکرکے سنسربورڈنے سنیماٹو گراف ایکٹ 1952 کی دفعہ 5Bاوراس کے تحت 1991میں جاری شدہ فلموں کی عوامی نمائش کے لئے سرٹیکفیٹ جاری کرنے کی ہدایت کی صریحا خلاف ورزی کی ہے۔ اس فلم کا دومنٹ اورترپن سیکنڈکا جو ٹریلرریلیز کیاگیاہے وہ ایسے مکالمات اورمناظرسے بھراہواہے جس سے پورے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچ سکتاہے۔ فلم میں 2022میں ادے پورمیں ہوئے ایک واقعہ کو موضوع بنایاگیاہے لیکن اس کا محض ٹریلر دیکھنے سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ فلم کا مقصدایک مخصوص مذہبی طبقہ کو منفی اورمتعصبانہ اندازمیں پیش کرنا جو اس طبقہ کے افرادکو وقارکے ساتھ جینے کے بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، اس میں نہ صرف گیان واپی مسجد جیسے حساس معاملہ کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ فلم کا ٹریلر وہی توہین آمیز موادپیش کرتاہے جو نوپورشرماکے متنازع بیان میں موجودتھاجس کی وجہ سے نہ صرف ملک بھر میں فرقہ وارانہ ماحول خراب ہوا تھا بلکہ عالمی سطح پر ملک کی شبیہ خراب ہوئی تھی اور دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات پر بھی منفی اثر پڑا تھا، پھر مجبور ہوکر بی جے پی نے اس کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔
مولانا مدنی نے اخیر میں کہا یہ ایک جمہوری ملک ہے جس کاآئین سیکولر ہے جس نے ہر شہری کو بولنے کی آزادی کے ساتھ ساتھ زندہ رہنے، کھانے پینے، پہننے اوراپنے مذہپ پر عمل کرنے کی پوری آزادی دی گئی ہے لیکن اظہارکی آزادی کے نام پر کسی کو بھی کسی شہری یاایک مخصوص طبقہ کی مذہبی دل آزاری کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دی گئی ہے، اس لئے ہم نے اس فلم کی نمائش رکوانے کے لئے قانونی جدوجہد کا راستہ اختیارکیاہے اورسنسربورڈ کو بھی اس میں ایک فریق بنایاہے کیونکہ بورڈکا جرم ان لوگوں کے جرم سے کسی طرح کم نہیں ہے جنہوں نے یہ گھناؤنی فلم تیارکی ہے۔