ہاتھ سے لکھنا دماغ کی فعالیت کیلئے زیادہ بہت

انسانی دماغ ایک پیچیدہ ترین عضو ہے جس کی فعالیت اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے مختلف طریقے آزمائے گئے

ہیں۔ انہی طریقوں میں سے ایک اہم طریقہ ہاتھ سے لکھنے کا عمل ہے۔ ہاتھ سے لکھنا صرف ایک عملی سرگرمی نہیں بلکہ ذہن، جسم اور جذبات کا ایک باہمی ربط ہوتا ہے جو دماغ کی مختلف صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے۔ جب ہم قلم ہاتھ میں لیتے ہیں اور کاغذ پر خیالات کو منتقل کرتے ہیں تو ہمارا دماغ نہ صرف الفاظ کی ساخت اور معنی پر توجہ دیتا ہے بلکہ ہاتھوں کی حرکت، آنکھوں کے رابطے اور خیالات کے بہاؤ کو بھی منظم کرتا ہے۔ یہ عمل ایک جامع دماغی مشق کی حیثیت رکھتا ہے جو دیگر تکنیکی طریقوں سے کہیں زیادہ مؤثر ہے۔

جدید دور میں کمپیوٹر، موبائل فون اور دیگر الیکٹرانک آلات نے ہاتھ سے لکھنے کی روایت کو خاصی حد تک محدود کر دیا ہے۔ ٹائپنگ کی سہولت نے لکھنے کے عمل کو بظاہر تیز اور آسان ضرور بنا دیا ہے، لیکن یہ سہولت دماغی مشق اور فکری استحکام میں وہ اثر پیدا نہیں کر سکتی جو ہاتھ سے لکھنے میں موجود ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب ہم ہاتھ سے لکھتے ہیں تو دماغ کی مختلف پرتیں بیک وقت متحرک ہو جاتی ہیں۔ اس میں منطقی سوچ، یادداشت، تخلیقی قوت اور اظہارِ بیان کی مہارت شامل ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر ہمارے دماغ کو نہ صرف سرگرم رکھتے ہیں بلکہ اس کی صلاحیتوں کو بھی جِلا بخشتے ہیں۔

بچپن میں جو طلباء ہاتھ سے لکھنے کی مشق کرتے ہیں، وہ عموماً ان بچوں کی نسبت بہتر تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو صرف کمپیوٹر یا ٹیبلٹ پر لکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہاتھ سے لکھنے کے دوران دماغ کو معلومات کو سمجھنے، یاد رکھنے اور اپنی زبان میں بیان کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے برعکس ٹائپنگ کرتے وقت زیادہ تر توجہ صرف الفاظ کے انتخاب اور رفتار پر مرکوز ہوتی ہے، جس سے معلومات کی گہرائی میں جانے کا موقع کم ملتا ہے۔ نتیجتاً، ہاتھ سے لکھنے والا طالبعلم زیادہ بہتر انداز میں مواد کو یاد رکھتا ہے۔

ہاتھ سے لکھنے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ یہ عمل دماغ کے دونوں نیم کرّوں کو بیک وقت متحرک کرتا ہے۔ دماغ کا بایاں حصہ تجزیاتی سوچ، حساب کتاب اور زبان سے متعلق افعال پر کام کرتا ہے جبکہ دایاں حصہ تخلیقی صلاحیت، تجسم اور جذباتی پہلوؤں کو سنبھالتا ہے۔ جب ہم لکھتے ہیں تو دونوں حصے مل کر کام کرتے ہیں، جس سے نہ صرف خیالات واضح ہوتے ہیں بلکہ ہمارا تخلیقی اور تجزیاتی پہلو بھی متوازن ہوتا ہے۔ یہ توازن ذہنی صحت کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔

تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہاتھ سے لکھنا الزائمر جیسے دماغی امراض سے بچاؤ میں مددگار ہو سکتا ہے۔ جب دماغ کو مسلسل مصروف رکھا جائے، بالخصوص ایسے کاموں میں جو پیچیدہ اور توجہ طلب ہوں، تو اس کی تنزلی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ ہاتھ سے لکھنے کے دوران انسان نہ صرف اپنے خیالات کو ترتیب دیتا ہے بلکہ ماضی کی یادداشتوں کو بھی تازہ کرتا ہے، نئے خیالات کو جنم دیتا ہے اور موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتا ہے۔ یہ سب عوامل مل کر دماغی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔

ہاتھ سے لکھنے کا ایک نفسیاتی فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ عمل انسان کو موجودہ لمحے سے جوڑتا ہے۔ کمپیوٹر یا موبائل پر لکھتے وقت انسان مختلف ٹیبز، نوٹیفیکیشنز اور ایپلی کیشنز کی وجہ سے منتشر ہو جاتا ہے، لیکن قلم اور کاغذ کا رابطہ ایک ارتکاز پیدا کرتا ہے۔ یہ ارتکاز نہ صرف ذہنی سکون عطا کرتا ہے بلکہ انسان کو اپنی سوچوں سے قریب تر بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ماہرین نفسیات ڈائری لکھنے کو ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند قرار دیتے ہیں۔

جب ہم ہاتھ سے لکھتے ہیں تو الفاظ کے ساتھ جذبات بھی منتقل ہوتے ہیں۔ قلم کی حرکت اور لکھاوٹ کا انداز انسانی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نفسیات اکثر خط یا ذاتی نوٹس کے تجزیے سے فرد کی ذہنی حالت کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ ایک شخص کے لکھنے کے انداز میں اس کی بے چینی، خوشی، غم یا الجھن جھلکتی ہے۔ یہ چیز ٹائپنگ میں نہیں آتی، جہاں ہر حرف ایک جیسا اور جذبات سے عاری ہوتا ہے۔ ہاتھ سے لکھنا انسان کے باطنی احساسات کو سطح پر لانے کا ذریعہ بنتا ہے۔

تعلیم و تعلم کے میدان میں ہاتھ سے لکھنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ جب کوئی طالبعلم اپنے ہاتھ سے نوٹس تیار کرتا ہے تو وہ صرف معلومات کو نقل نہیں کر رہا ہوتا بلکہ ان معلومات کو سمجھ کر اپنے الفاظ میں بیان کر رہا ہوتا ہے۔ اس عمل کے دوران دماغ میں ان معلومات کی ایک مضبوط یادداشت قائم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاتھ سے بنائے گئے نوٹس، کتاب یا سلائیڈز کے مطالعے سے زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طلباء خود اپنے ہاتھ سے خلاصے لکھیں تاکہ وہ بہتر طریقے سے سیکھ سکیں۔

ہاتھ سے لکھنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ عمل تخلیقی سوچ کو جِلا بخشتا ہے۔ جب انسان قلم اٹھاتا ہے تو اس کے ذہن میں مختلف خیالات جنم لیتے ہیں، وہ انہیں ترتیب دیتا ہے، حذف و اضافہ کرتا ہے اور ایک مربوط پیغام یا کہانی تخلیق کرتا ہے۔ یہ تمام مراحل تخلیقی عمل کا حصہ ہیں۔ ایک ادیب، شاعر یا مضمون نگار جب قلم سے لکھتا ہے تو وہ اپنے خیالات کو ایک مخصوص بہاؤ میں ڈھالتا ہے جو اکثر کمپیوٹر پر حاصل نہیں ہو پاتا۔ ہاتھ سے لکھنا تخلیق کار کے اور اس کے فن کے درمیان ایک قدرتی ربط قائم کرتا ہے۔

دوسری طرف، کمپیوٹر پر لکھنے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں کٹ، کاپی اور پیسٹ جیسی سہولیات نے ذہنی مشقت کو کم کر دیا ہے۔ انسان جلدی میں لکھتا ہے، ترمیم کرتا ہے اور بار بار تبدیلیاں کرتا ہے جس سے تحریر کا اصل جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہاتھ سے لکھنے میں ہر لفظ پر توجہ دی جاتی ہے، جملوں کی ساخت پر غور کیا جاتا ہے اور اس میں جذبات کی جھلک بھی شامل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہاتھ سے لکھی گئی تحریریں زیادہ پائیدار، اثرانگیز اور دیرپا اثر رکھتی ہیں۔

علماء اور مفکرین کی ایک طویل فہرست ایسی ہے جنہوں نے ہاتھ سے لکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ امام غزالی، ابن خلدون، جلال الدین رومی اور دیگر مایہ ناز شخصیات اپنی تحریروں کو ہاتھ سے لکھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ عمل صرف معلومات کی ترسیل نہیں بلکہ روحانی تربیت کا بھی ذریعہ ہے۔ ہاتھ سے لکھنے کے دوران انسان کے خیالات شفاف ہوتے ہیں اور وہ اپنے دل کی بات قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل کرتا ہے۔ یہ ایک روحانی تجربہ بن جاتا ہے جو انسان کو خود شناسی کی طرف لے جاتا ہے۔

بچوں کی ابتدائی تعلیم میں ہاتھ سے لکھنے کی مشق خاص اہمیت رکھتی ہے۔ جب بچے لکھنے کا آغاز کرتے ہیں تو ان کی انگلیوں کی حرکت، آنکھوں کی ہم آہنگی اور دماغی توجہ ایک ساتھ کام کرتی ہے۔ یہ مشق ان کے دماغ کو نظم و ضبط سکھاتی ہے، ہاتھ کی مہارت بڑھاتی ہے اور الفاظ کی ساخت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ جو بچے بچپن میں باقاعدگی سے ہاتھ سے لکھنے کی مشق کرتے ہیں، ان کی یادداشت اور تجزیاتی سوچ بہتر ہوتی ہے۔

ہاتھ سے لکھنے کا ایک اور پہلو جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی تھراپی بن سکتا ہے۔ کئی ذہنی دباؤ، اضطراب یا افسردگی کے شکار افراد کو ڈاکٹرز روزنامچہ لکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ عمل فرد کو اپنے احساسات بیان کرنے، الجھنوں کو واضح کرنے اور خیالات کو ترتیب دینے میں مدد دیتا ہے۔ یہ خود کلامی کا ایسا ذریعہ ہے جو انسان کو اندر سے مضبوط کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، روزانہ کچھ وقت صرف لکھنے کے لیے مخصوص کرنا انسان کی زندگی میں نظم و ضبط اور سکون لاتا ہے۔

تعلیم و تربیت کے اداروں میں اگرچہ ڈیجیٹل ذرائع کو فروغ دیا جا رہا ہے، لیکن اب بھی بہت سے ماہرین تعلیم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طلباء کو ہاتھ سے لکھنے کی عادت ضرور ڈالی جائے۔ خاص طور پر امتحانات میں کامیابی کے لیے ہاتھ سے لکھنے کی مہارت لازمی ہے۔ کئی طلباء جو صرف ٹائپنگ کے عادی ہوتے ہیں، امتحان میں جب طویل تحریر لکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ مشکل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہاتھ سے لکھنے کی مشق انہیں اس دباؤ سے بچاتی ہے۔

مختلف زبانوں میں خطاطی اور خوش خطی کا فن ہاتھ سے لکھنے کے ذریعے ہی پروان چڑھا ہے۔ اردو، فارسی، عربی اور چینی جیسی زبانوں میں خطاطی صرف جمالیاتی اظہار نہیں بلکہ روحانی سکون کا ذریعہ بھی ہے۔ جب انسان خوشخطی سے لکھتا ہے تو اس کا ذہن ایک خاص ترتیب اور جمالیات پر مرکوز ہو جاتا ہے۔ یہ مشق دماغ کو ایک خاص نظم سکھاتی ہے، جو روزمرہ زندگی میں بھی کارآمد ہوتی ہے۔ ہاتھ سے لکھنا صرف ایک ہنر نہیں بلکہ ایک فن اور روحانی تربیت کا ذریعہ ہے۔

آج کی تیز رفتار دنیا میں اگرچہ ڈیجیٹل لکھائی نے آسانیاں پیدا کی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہاتھ سے لکھنے کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ قائم ہے۔ یہ ایک سادہ مگر گہرا عمل ہے جو انسانی دماغ، جذبات اور شخصیت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ چاہے آپ طالبعلم ہوں، ادیب، شاعر یا محض ایک عام فرد، اگر آپ اپنے خیالات کو بہتر طور پر سمجھنا اور بیان کرنا چاہتے ہیں، تو قلم اور کاغذ کو اپنانا ہی سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔

قلم سے دوستی صرف ماضی کی بات نہیں بلکہ حال اور مستقبل کا بھی بہترین فیصلہ ہو سکتا ہے۔ ہاتھ سے لکھنا دماغی مشق بھی ہے، روحانی سکون بھی، اور فکری پختگی کا ذریعہ بھی۔ جو لوگ اس روایت کو اپناتے ہیں وہ نہ صرف بہتر لکھاری بنتے ہیں بلکہ بہتر سوچنے والے، بہتر بولنے والے اور بہتر محسوس کرنے والے انسان بھی ثابت ہوتے ہیں۔

0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Follow
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...