سریسکا ٹائیگر ریزرو کو لے کر نئے منصوبے پر تشویش، جئے رام رمیش نے مرکز اور ریاستی حکومت کو لگائی پھٹکار

AhmadJunaidJ&K News urduJune 29, 2025360 Views


جئے رام رمیش نے کہا، ’’کیا واقعی ڈبل انجن کی حکومت کانکنی مالکوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ٹائیگر کوریڈور کی اس توڑ پھوڑ کی حمایت کر رہی ہے؟ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنی ہوگی‘‘۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر’ایکس‘ <a href="https://x.com/Jairam_Ramesh">@Jairam_Ramesh</a></p></div><div class="paragraphs"><p>تصویر’ایکس‘ <a href="https://x.com/Jairam_Ramesh">@Jairam_Ramesh</a></p></div>
user

کانگریس کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے راجستھان کے الور کے قریب واقع سریسکا ٹائیگر ریزرو میں باگھوں کی دوبارہ واپسی کو باگھ تحفظ کی بہترین مثال قرار دیا۔ لیکن انہوں نے ٹائیگر ریزرو کی سرحد کو بدلنے کی تیاری پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے مرکز اور ریاستی حکومت کی شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی ہے۔

جئے رام رمیش نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر’ٹیلی گراف انڈیا ڈاٹ کام‘ کی ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے پوسٹ میں کہا ہے کہ انتہائی فعال غیر قانونی شکاری نیٹ ورک کی وجہ سے دسمبر 2004 تک سریسکا میں ٹائیگروں کی تعداد صفر ہو گئی تھی۔ اس سے پورے ملک میں ہنگامہ مچ گیا تھا۔ اس کی وجہ سے 2005 میں ٹائیگر ٹاسک فورس کی تشکیل کی گئی، اس کے بعد مئی 2005 میں رنتھمبھور ٹائیگر ریزرو میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مختلف ریاستوں کے چیف وائلڈ لائف افسروں کے ساتھ ایک اہم میٹنگ کی جس کے نتیجے میں 2005 میں نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھاریٹی (این ٹی سی اے) اور جون 2007 میں وائلڈ لائف کرائم کنٹرول بیورو وجود میں آیا۔

اس کے بعد پنّا ٹائیگر ریزرو کے ساتھ ساتھ سریسکا میں بھی ٹائیگروں کو دوبارہ آباد کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ حالانکہ شروعات میں کچھ ماہرین نے اس پر شبہ بھی ظاہر کیا تھا لیکن آج سریسکا میں ٹائیگروں کی تعداد 48 تک پہنچ گئی ہے، جو اپنے آپ میں ایک تاریخی حصولیابی ہے۔

جئے رام رمیش نے ریزرو کی سرحد کو بدلنے کی تیاری پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے کی 50 کانکنی کمپنیاں جو پہلے بند ہو چکی تھیں، پھر سے کانکنی شروع کر سکتی ہیں۔ یہ بات تو صاف ہے کہ ٹائیگروں کے تحفظ اور جنگل کی دیکھ بھال میں مقامی لوگوں کی حصہ داری ضروری ہوتی ہے لیکن 50 کھدانوں (سنگ مرمر، ڈولو مائٹ، چونا پتھر اور میسونک پتھر) اور دوسرے کھدانوں کو دوبارہ شروع کرنے سے باگھوں کے رہنے کی جگہ، جو بڑی محنت سے واپس بنی ہے، پھر سے خطرے میں پڑ جائے گی۔

 اس سے باگھوں کے رہنے کی جگہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ اس کی بھرپائی کے لیے جو ’بفر زون‘ میں نئے علاقے جوڑنے کی بات کی جا رہی ہے وہ کاغذ پر تو صحیح لگتی ہے لیکن اصل میں یہ باگھوں کی ماحولیات کے لیے تباہ کن ہوگا۔ خاص طور پر تب جب باگھوں کی آبادی پہلے سے ہی محدود اور الگ تھلگ ہے۔

جئے رام رمیش نے کہا کہ وزیر ماحولیات الور سے ہیں اور راجستھان کے وزیر ماحولیات بھی وہیں سے آتے ہیں۔ کیا واقعی یہ ڈبل انجن کی حکومت کانکنی مالکوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ٹائیگر کوریڈور کی اس توڑ پھوڑ کی حمایت کر رہی ہے؟ یا پھر جان بوجھ کر نظر انداز کر رہی ہے۔ بالآخر سپریم کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنی ہوگی کیونکہ اس کی ہدایات کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔


0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Follow
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...