امریکا کے نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ (این ٹی ایس بی) نے بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں طیارہ حادثے کے جائے مقام کا دورہ کیا ہے، جبکہ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین جلی ہوئی لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے پروفائلنگ کے نتائج کا انتظار کرتے رہے۔
افسوس ناک واقعے میں جہاز کے عملے اور مسافروں سمیت مجموعی طور پر 271 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ نیشنل ٹرانسپورٹ سیفٹی بورڈ کے ہمراہ امریکی وفاقی ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کے عہدیداران نے بھی احمد آباد میں جہاز گرنے کے مقام کا دورہ کیا۔
احمد آباد سے لندن جانے والے اس بدقسمت طیارے میں عملے سمیت 242 افراد سوار تھے، طیارہ اڑان بھرتے ہی ایئرپورٹ کے قریب موجود طلبہ کے ہاسٹل پر جاگرا تھا جس کے نتیجے میں زمین پر موجود 30 افراد بھی اس حادثے کا شکار ہوگئے۔ اس حادثے کو ایوی ایشن کی تاریخ کا دہائی کا ’بدترین سانحہ‘ قرار دیا جارہا ہے۔
ایئر انڈیا اور بھارتی حکومت حادثے کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہی ہے جس میں انجن کے فیل ہونے سمیت دیگر ممکنہ وجوہات کا جائزہ لیا جارہا ہے، ساتھ ہی حادثے کا شکار جہاز کے ’لینڈنگ گیئر‘ اڑان بھرنے اور گرنے تک کیوں کھلے رہے اس حوالے سے بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
سیکریٹری امریکی محکمہ ٹرانسپورٹ سین ڈفی نے کہا کہ انہوں نے ایف اے اے اور این ٹی ایس بی کی ٹیموں کو بھارت بھیجنے کے تمام تر عمل میں کردار ادا کیا ہے۔ ان کے مطابق بدقسمت طیارے میں استعمال ہونے والے انجن کو تیار کرنے والی کمپنیوں جی ای (جی ای ایرو اسپیس) اور بوئنگ نے بھی اپنے ٹیموں کو طیارہ گرنے کے مقام پر بھیجا ہے۔
سین ڈفی نے کہا کہ این ٹی ایس بی کی تحقیقات کی روشنی میں ضروری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
رائٹرز کی جانب سے ’ایف اے اے‘ اور ’این ایس ٹی بی‘ کو سوالنامہ بھیجا گیا تاہم دونوں اداروں کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
امریکی ایوی ایشن حکام نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت ہی تحقیقات کی سربراہی کرے گا، لیکن این ٹی ایس بی ٹیم تحقیقاتی حکام کو بطور امریکی نمائندہ اپنی خدمات فراہم کرے گی جبکہ ’ایف اے اے‘ تکنیکی معاونت فراہم کرے گی۔
پہلے ذرائع نے بتایا کہ بوئنگ حکام بھی اپنے طور پر تحقیقات میں مختلف پہلوؤں پرغور کر رہے ہیں جس میں جہاز کی لینڈنگ کے زاویہ سمیت دیگر ممکنہ وجوہات پر غور کیا جارہا ہے۔
دوسرے ذرائع کا کہنا تھا کہ اتوار کو این ٹی ایس بی کی ٹیم سمیت تقریبا 10 کے قریب عہدیدار جائے حادثہ پر تحقیقات میں مصروف رہے۔
دوسری جانب بھارتی ایوی ایشن حکام نے تمام بوئنگ 787 طیاروں کے معائنے کے احکامات دے دیئے ہیں۔
احمد آباد حادثہ ایئر انڈیا، جو اپنے بیڑے میں گزشتہ کئی سالوں سے اصلاحات لانے کی کوششیں کر رہا ہے اور بوئنگ کمپنی، جو ایسے وقت میں مسافروں کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کررہی ہے جب اُسے مسلسل حفاظی اور پروڈکشن کے شعبے جات میں مسائل کے سامنا ہے، دونوں کے لیے نیا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔
ساتھ ہی حادثے کا شکار ہونے والے افراد کی شناخت کا عمل بھی جاری ہے جہاں احمد آباد میں ڈاکٹرز کو ہلاک شدگان کے دانتوں اور ڈین این اے نمونوں کے ذریعے تصدیق کے عمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔
شہر کے مرکزی ہسپتال کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ راجنیش پٹیل کے مطابق 32 افراد کی ڈی این اے نمونوں کے ذریعے کامیابی سے شناخت مکمل ہوچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جن لاشوں کے نمونے میچ ہو رہے ہیں وہ انتہائی احترام کے ساتھ اہلخانہ کے حوالے کی جارہی ہیں۔
امتیاز علی نے 3 روز قبل اپنے بھائی کی شناخت کے لیے ڈین این اے نمونہ جمع کروایا تھا تاہم ان کا ’تکلیف دہ انتظار‘ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
امتیاز علی بھی احمد آباد میں اس مقام پر موجود تھے جہاں کئی متاثرہ خاندان اپنے پیاروں کی باقیات وصول کرنے لیے حکام کی جانب سے کسی خبر کے انتظار میں ہیں۔
امتیاز علی نے خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’مجھے 72 گھنٹے ہوچکے ہیں تاہم اب تک مجھے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’متعلقہ کمپنی ایئرانڈیا کو حادثے کے اگلے روز سے ہی ہماری رہنمائی، ضروری کاغذی کارروائی اور معلومات کی بروقت فراہمی کے لیے نمائندوں کو تعینات کرنا چاہیے تھا تاکہ یہ کام جلد از جلد مکمل ہوتا‘۔
بدقسمت حادثے میں امتیاز علی کے بھائی جاوید، ان کی اہلیہ اور دو بچے ہلاک ہوگئے تھے۔
ایئرانڈیا کے سی ای او کیمپبیل ولسن نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’200 سے زائد تربیت یافتہ کارکنان کو جائے حادثہ پر متاثرہ خاندانوں کو معلومات فراہم کرنے کے لیے تعینات کیا گیا ہے، ہمارے کارکنان ہر ایک فیملی کے ساتھ خصوصی طور پر تعاون کر رہے ہیں‘۔
ایک اور مسافر کی بہن رینال کرسچن نے کہا کہ ان کے اہلخانہ کی جانب سے بار بار ہسپتال کے چکر لگانے کے باوجود کہا جاتا ہے کہ آپ انتظار کریں، انہوں نے کہا تھا کہ تمام عمل کو مکمل ہونے میں 48 گھنٹے لگ سکتے ہیں لیکن آج 4 دن گزر جانے کے باوجود ہمیں کوئی جواب نہیں ملا’۔