نئی دہلی: اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے داخل کی گئی اہم پٹیشن میں آج اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران سینئر ایڈوکیٹ نے عدالت سے کہا کہ اس معاملے میں اتراکھنڈ حکومت نے اپنا اعتراض داخل کر دیا ہے، جبکہ مرکزی حکومت نے اب تک اعتراض داخل نہیں کیا ہے۔ نیز اتراکھنڈ حکومت کے اعتراض کا جواب دینے کے لیے انہیں کچھ وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس اتراکھنڈ ہائی کورٹ جی نریندر اور جسٹس آلوک مہرا نے سینئر ایڈوکیٹ کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت 23 ستمبر کو کیے جانے کا حکم جاری کیا۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو بھی حکم دیا کہ وہ اگلی سماعت سے قبل جمعیۃ علماء ہند و دیگر کی پٹیشن پر اپنا جواب داخل کرے۔ مرکزی سرکار کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ کنو اگروال نے عدالت سے جواب داخل کرنے کے لیئے وقت طلب کیا جسے عدالت نے منظور کرلیا اور عدالت نے کہا کہ معاملہ ملتوی کیا جارہا ہے، کل ججوں کا نیا روسٹر (فہرست) آ جائے گا۔
اس سے قبل کی سماعت پر سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے بینچ کے سامنے دو اہم باتیں رکھی تھیں۔ پہلی یہ کہ لسٹ تھری انٹری 5 کے تحت کسی صوبائی حکومت کو یکساں سول کوڈ بنانے اور اسے نافذ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہاں تک کہ دفعہ 44 بھی کسی صوبائی حکومت کو اس طرح کی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتی۔ سبل نے دوسری بنیادی بات یہ کہی تھی کہ جو قانون لایا گیا ہے اس سے شہریوں کے ان بنیادی حقوق کی صریحا خلاف ورزی ہوتی ہے جو انہیں آئین کی دفعہ 14۔19۔21 اور 25 میں دیئے گئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اتراکھنڈ اسمبلی میں یکساں سول کوڈ کی منظوری کے تقریبا ایک سال بعد گزشتہ 27 جنوری 2025 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں باضابطہ طور پر نافذ کردیا گیا تھا۔ اس طرح اتراکھنڈ یکساں سول کوڈ نافذ کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن گئی۔
مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃعلماء ہند نے اس قانون کو اتراکھنڈہائی کورٹ میں چیلنچ کیا ہے جس پر آج دوسری سماعت عمل میں آئی۔ آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا مدنی نے کہا کہ آئین،جمہوریت اورقانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے جمعیۃعلماء ہند نے عدالت کا رخ اس امید کہ ساتھ کیا ہے کہ ہمیں انصاف ملے گاانہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی قانون منظورنہیں جو شریعت کے خلاف ہومسلمان ہر چیزسے سمجھوتہ کرسکتاہے لیکن اپنی شریعت اورمذہب سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتاہے، موجودہ حکومت یکساں سول کوڈایکٹ لاکر مسلمانوں سے وہ حقوق چھین لینا چاہتی ہے جو اسے ملک کے آئین نے دیئے ہیں کیونکہ ہمارے عقیدہ کے مطابق جو ہمارے عائلی قوانین ہیں وہ انسان کے بنائے ہوئے نہیں ہیں، وہ قرآن مجید اوراحادیث سے ماخوذ ہیں جو لوگ کسی مذہبی پرسنل لاء پر عمل نہیں کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ملک میں پہلے ہی سے ایک اختیاری سول کوڈ موجود ہے، توپھر نونیفارم سول کوڈ کی کیا ضرورت؟ مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں ایک سیکولر آئین کے موجودرہتے ہوئے جس طرح یہ قانون لایا گیا وہ جانبداری، امتیازاورتعصب کا مظہر ہی نہیں آئین کی بعض دفعات کا حوالہ دیکر جس طرح قبائل کو اس قانون سے الگ رکھاگیا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کی سماجی اورمذہبی شناخت کو مجروح اورختم کرنے کی غرض سے ہی یہ قانون وضع کیا گیا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین نے اقلیتوں کو بھی خصوصی اختیارات دیئے ہیں مگر ان کا لحاظ نہیں رکھاگیا، یہی نہیں عام شہریوں کو بھی آئین میں بنیادی حقوق فراہم کئے گئے ہیں، چنانچہ یہ قانون شہریوں کے بنیادی حقوق کی نفی کرتاہے، انہوں نے کہا کہ امید افزابات یہ ہے کہ کچھ انصاف پسند غیرمسلموں نے بھی اس کے خلاف عرضیاں داخل کی ہیں جس میں انہوں نے بھی امتیاز، تعصب اوربنیادی حقوق کا معاملہ اٹھایاہے، اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ 23 ستمبرکو اس پر نہ صرف ایک مثبت بحث ہوگی بلکہ عدالت اس پر اسٹے لگادے گی چونکہ اس طرح کے قانون سے آئین کی بالادستی ہی نہیں مجروح ہوئی ہے بلکہ شہریوں کے آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق پر بھی گہری ضرب لگی ہے۔