صدرجمہوریہ کی طرف سے داخل ریفرنس پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے تلخ تبصرہ کیا ہے۔ عدالت نے ریاستی اسمبلیوں سے پاس بلوں کو 90 دنوں کی مدت میں منظور کرنے یا پھر وجہ سمیت خارج کرنے کی ٹائم لائن طے کیے جانے پر سوال اٹھانے پر جواب دیا۔ بنچ نے کہا کہ کیا منتخب حکومت کو گورنر کے صوابدید کے بھروسے رہنا چاہیے۔ کیا وہ ہمیشہ کے لیے کسی بل کو روک کر رکھ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس بی آر گوائی نے کہا کہ ہم گورنروں کو ہی پوری طاقت نہیں دے سکتے۔ آخر ایک منتخب ہوئی حکومت جو اکثریت سے آئی ہے، اسے گورنر کی صوابدید کے بھروسے کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟
عدالت نے کہا کہ بل کو روکا جانا نہ تو گورنر کے مفاد میں ہے اور نہ ہی اسمبلی کے لیے۔ 5 ججوں کی آئینی بنچ صدر جمہوریہ کی طرف سے داخل ریفرنس پر سماعت کر رہی ہے، جس میں صدر نے پوچھا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کی طرف سے گورنر یا صدر کو حکم دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مقررہ وقت میں ہی بلوں پر فیصلہ لیں۔ دراصل اسی سال اپریل میں تمل ناڈو اور کیرالہ کے معاملوں کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کی بنچ نے حکم دیا تھا کہ 90 دنوں کی ٹائم لائن کے اندر گورنروں یا صدر جمہوریہ کو کسی بل پر فیصلہ دینا چاہیے۔ اگر وہ بل کو نامنظور کر رہے ہیں تو اس کی اطلاع بھی اسی مدت میں وجہ بتاتے ہوئے دینی چاہیے۔
سی جے آئی بی آر گوائی نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا- ’’آپ آئین ساز اسمبلی کی بحثوں کا حوالہ دے رہے ہیں لیکن دیکھئے کہ ان کی توقعات پوری ہوئیں یا نہیں۔ انہوں نے طاقت کے دو مراکز کا تصور کیا تھا، ایک وزیر اعلیٰ اور ایک گورنر۔ کیا ہم اس وژن پر کھرے اترے ہیں؟ یہ گورنر اور ریاست کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت کی بات کرتا ہے۔ اب ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ کیسے کچھ معزز گورنروں نے اپنے صوابدید کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے اتنے سارے مقدمے ہوئے ہیں۔ اگر بلوں کو اسمبلی میں واپس بھیجے بغیر روکا جا سکتا ہے تو کیا منتخب حکومتیں گورنروں کی منمانی پر منحصر نہیں ہوں گی؟‘‘
سی جے آئی بی آر گوائی، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس اے ایس چندرکر کی بنچ ہندوستان کے سالیسٹرجنرل کی دلیلیں سن رہی تھیں۔ اس دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ آئین کی دفعہ 200 کے مطابق گورنر کے پاس چار متبادل ہیں- منظوری فراہم کریں، منظوری روک لیں، بل کو صدر جمہوریہ کو غور کرنے کے لیے محفوظ رکھیں یا بل کو اسمبلی کو واپس کر دیں۔ سالیسٹر جنرل نے دلیل دی کہ اگر گورنر کہتے ہیں کہ وہ منظوری روک رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ’بل ختم ہو گیا ہے‘۔
سالیسٹر جنرل کے مطابق اگر منظوری روک لی گئی ہے تو گورنر کو بل کو نظر ثانی کے لیے اسمبلی کو واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تب سی جے آئی گوائی نے پوچھا کہ اگر ایسی طاقت کو منظوری دی جاتی ہے تو کیا یہ گورنر کو بل کو غیر معینہ مدت تک روکے رکھنے کا حق نہیں دے گا؟ آپ کے مطابق روکے رکھنے کا مطلب ہے کہ بل پاس نہیں ہو پاتا، لیکن پھر اگر وہ نظر ثانی کے لیے دوبارہ بھیجنے کا متبادل نہیں چنتے ہیں تو وہ اسے ہمیشہ کے لیے روکے رکھیں گے۔ ایس جی نے کہا کہ آئین نے ہی گورنر کو یہ حق دیا ہے۔ گوائی نے کہا- تو کیا ہم گورنر کو اپیلوں پر سماعت کرنے کا پورا حق نہیں دے رہے ہیں؟
سالیسٹر جنرل نے کہا کہ اگر گورنر بلوں کو روکنے کے لیے اپنے صوابدید کا استعمال نہیں کر سکتے تو ان کا عہدہ صرف ایک پوسٹ مَین بن کر رہ جائے گا۔ جسٹس پی ایس نرسمہا نے کہا کہ یہاں عدالتی جائزہ اہم ہو جاتا ہے۔ یہ گورنر کی طاقت اور قانون سازی کے لیے ناموافق ہو جاتی ہے۔ پہلے تو وہ منع کر سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس حصے کو ترمیم کریں۔ جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ اگر آپ روک رہے ہیں تو وجوہات کی بات آتی ہے۔ اگر آپنے اس کے لیے وجہ بتائے ہیں تو آج اپ اسے غیر آئینی بتا کر روک رہے ہیں لیکن بعد میں اس میں تبدیلی کرکے اسے سدھارا جا سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔