گزشتہ روز بارہمولہ کے گانٹھہ علاقے میں پیش آیا سانحہ، جس میں سرینگر سے تعلق رکھنے والا ایک پورا خاندان پانی کی بے رحم موجوں کا شکار بن گیا، نہ صرف دل دہلا دینے والا واقعہ ہے بلکہ ہمارے سماج، انتظامیہ اور خود ہم سب کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔کیا یہ صرف ایک قدرتی حادثہ تھا؟ کیا اسے بچایا جا سکتا تھا؟ کیا ہم نے بطور معاشرہ اور انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں؟ ایسے واقعات بار بار ہمارے آس پاس پیش آتے ہیں، مگر ہر بار ہم صرف تعزیت، افسوس اور وقتی جذباتی بیانات تک محدود رہ جاتے ہیں۔وادی کشمیر میں دریا، نالے اور آبی ذخائر روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے ایسے مقامات پر کوئی مناسب حفاظتی اقدامات نظر نہیں آتے۔ نہ خطرے کی وارننگ بورڈز، نہ سکیورٹی گارڈز اور نہ ہی احتیاطی تدابیر کی کوئی واضح مہم۔ کیا انسانی جان اتنی سستی ہو چکی ہے کہ ہم حادثات کے بعد صرف مذمتی بیانات پر اکتفا کریں؟ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عوام خود بھی اکثر احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرتے ہیں۔ خطرناک مقامات پر سیلفی لینا، پانی میں اترنا یا بچوں کو کھلی آزادی دینا، یہ سب خودکشی کے مترادف ہے۔ ایسے مواقع پر جذباتی فیصلے نہیں، بلکہ سمجھداری اور احتیاط ہی زندگی کی ضمانت ہوتی ہے۔سانحہ کے بعد میڈیا کا فریضہ محض خبر رسانی تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے عوامی شعور بیدار کرنے میں بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔ المناک واقعات کی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر اور ماہرین کی آراء کو اجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔حکومت اور مقامی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات کے بعد وقتی خانہ پری کے بجائے مستقل بنیادوں پر ایک جامع حفاظتی منصوبہ بنائے۔ خطرناک مقامات کی نشان دہی، وارننگ سائن، بچاؤ کے آلات کی فراہمی اور ریپڈ ریسکیو ٹیموں کی تعیناتی ناگزیر ہو چکی ہے۔گانٹھہ بارہمولہ کا واقعہ ایک بار پھر ہمیں جھنجھوڑنے آیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریاں سمجھیں۔ افسوس اور تعزیت کے الفاظ سے زیادہ، عملی اقدامات اور شعور بیداری کی مہمات ہی آئندہ ایسے حادثات کو روک سکتی ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو نہ جانے کتنے اور گھرانے اسی طرح پانی کی بے رحم لہروں کی نذر ہوتے رہیں گے۔