
کیرالہ میں چھ کارپوریشنوں، 86 میونسپلٹی بلاکوں، 14 ضلع پنچایتوں، 152 بلاک پنچایتوں اور 941 گرام پنچایتوں کے لیے 9 اور 11 دسمبر کو انتخابات ہوئے ہیں۔ جن میں سے کانگریس کی قیادت والے محاذ کو سب سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے نتائج پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک فیصلہ کن مینڈیٹ ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے ریاست کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور ایک ایسی حکومت چاہتے ہیں جو ان کے مسائل پر توجہ دے، ان کو حل کرنے کی کوشش کرے اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے مسائل کے تئیں فکرمند ہیں اور ایک شفاف اور عوام کو ترجیح دینے والی حکومت فراہم کرنے کے تئیں پرعزم ہیں۔
ترواننت پورم سے کانگریس کے ایم پی اور وقتاً فوقتاً بی جے پی اور وزیر اعظم نریند رمودی کی تعریف کرنے والے ششی تھرور نے بھی ان نتائج کی ستائش کی اور خیرمقدم کیا ہے لیکن ترواننت پورم کا نتیجہ تشویش ناک بھی ہے۔ ترواننت پورم کارپوریشن میں بی جے پی کامیاب ہوئی ہے جو کہ چونکانے والی بات ہے۔ واضح رہے کہ ترو اننت پورم کارپوریشن میں ایل ڈی ایف یعنی بائیں بازو کے محاذ کو 45 برسوں سے اکثریت حاصل تھی۔ اب وہاں بی جے پی کی کامیابی جہاں وزیر اعلیٰ پنرئی وجین کی شکست ہے وہیں ششی تھرور بھی اس کے لیے کسی حد تک ذمہ دار ہیں۔ ان کی زبانی بی جے پی اور نریند رمودی کی ستائش نے ممکن ہے کہ کچھ کانگریسی ووٹرز کو بی جے پی کی طرف مائل کیا ہو۔ ممکن ہے وہ یہ سمجھ رہے ہوں کہ آج نہیں تو کل ششی تھرور پالا بدل سکتے ہیں لہٰذا بی جے پی کی طرف مڑ جانا چاہیے۔ لیکن صرف یہی ایک وجہ نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی ایک عرصے سے کیرالہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ترو اننت پورم کارپوریشن میں 101 وارڈوں میں این ڈی اے کو 50، ایل ڈی ایف کو 29 اور یو ڈی ایف کو 19 میں کامیابی مل گئی۔






