’کیا نماز ہمارے سماج کا حصہ نہیں؟‘ بی جے پی کے ’سماجواد-نمازواد‘ والے بیان پر منوج جھا کا تلخ سوال

AhmadJunaidJ&K News urduJune 30, 2025360 Views


منوج جھا نے کہا کہ سدھانشو ترویدی اگر یہ کہتے ہیں کہ ’سماجواد نہیں یہ نمازواد ہے‘، تو وہ یہ بتائیں کہ کیا نماز ہمارے سماج کا حصہ نہیں ہے؟ کیا اقلیتی آبادی ہمارے لوگ نہیں ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>منوج جھا / آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>منوج جھا / آئی اے این ایس</p></div>

منوج جھا / آئی اے این ایس

user

بی جے پی ترجمان سدھانشو ترویدی کے ذریعہ مسلم منافرت پر مبنی ’سماجواد نہیں، نمازواد‘ تبصرہ کو آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ منوج جھا نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ منوج جھا کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت غیر اعلانیہ ایمرجنسی والا ماحول ہے، اور ایسے میں بی جے پی لیڈران نفرت کی سیاست کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔

آر جے ڈی ترجمان اور رکن پارلیمنٹ منوج جھا نے یہ بیان ’وقف ترمیمی قانون‘ سے متعلق ’این ڈی ٹی وی‘ کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران دیا۔ انھوں نے سدھانشو ترویدی کے ’سماجواد نہیں، نمازواد‘ والے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے آئین کی دفعات کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’آپ کو (بی جے پی کو) یہ جاننا چاہیے کہ آئین میں ’سیکولرزم اور سوشلزم‘ کب اور کس طرح جوڑا گیا۔‘‘

دراصل گزشتہ روز ’وقف ترمیمی قانون‘ کے خلاف پٹنہ میں منعقد ایک عظیم الشان تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک آر جے ڈی لیڈر نے کہا تھا کہ وقف قانون کو کوڑے دان میں پھینک دیں گے۔ اسی پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سدھانشو ترویدی نے کہا کہ ’’یہ سماجواد نہیں، نمازواد ہے۔‘‘ اس سلسلے میں اپنی رائے ’این ڈی ٹی وی‘ کے سامنے رکھتے ہوئے منوج جھا کہتے ہیں کہ ’’سپریم کورٹ میں وقف معاملے میں آر جے ڈی بھی عرضی گزار ہے، اور اسی کے ناطے پارٹی نے وقف پر پٹنہ میں ہو رہی میٹنگ میں اپنی بات رکھی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ہم نے زرعی قوانین پر بھی ہاتھ جوڑ کر حکومت سے کہا تھا کہ اسے نافذ مت کیجیے۔ آخر کار کیا ہوا، خود وزیر اعظم کو قانون واپس لینا پڑا۔‘‘

سدھانشو ترویدی کے تبصرہ پر ایک تلخ سوال بھی منوج جھا نے سامنے رکھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’سدھانشو ترویدی اگر یہ کہتے ہیں کہ سماجواد نہیں نمازواد ہے، تو وہ بتائیں کہ کیا نماز ہمارا حصہ نہیں ہے؟ کیا اقلیتی آبادی ہمارے لوگ نہیں ہیں۔‘‘ منوج جھا نے بی جے پی لیڈران کے پرانے بیانات کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ ’’اگر پیچھے جا کر دیکھیں تو پہلے جعلی دار ٹوپی کہہ کر (مسلمانوں کو) ہدف بنایا گیا، پھر بھینس، منگل سوتر، مجرا جیسی تُک بندی بٹھانا، اور اب سماجواد کو نمازواد کہنا، یہ سب ’بیڈ پریکٹس‘ ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ’’سچر کمیٹی کی رپورٹ پڑھی جانی چاہیے، نہ کہ واٹس ایپ یونیورسٹی کا نالج۔‘‘ آر جے ڈی رکن پارلیمنٹ نے پٹنہ واقع مولانا مظہر الحق یونیوسٹی کی مثال بھی سامنے رکھی اور دعویٰ کیا کہ وہاں 88 فیصد استفادہ کرنے والے طلبا ہندو ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Follow
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...