مگر افسوس کہ انہوں نے اپنا اثر استعمال نہیں کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے صرف انتباہات دیے، تشویش ظاہر کی، مگر کوئی عملی شرط عائد نہیں کی۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف لائی گئی قراردادوں کو ویٹو کیا اور اسلحہ فراہم کرنا جاری رکھا۔ پالیسی اور عمل کے اس تضاد نے نیتن یاہو کو بے لگام کر دیا ہے۔
محض اپیلیں نیتن یاہو کو نہیں روک سکتیں۔ اگر مغرب واقعی یہ جنگ بند کروانا چاہتا ہے تو اسے وہ زبان اختیار کرنی ہوگی جو نیتن یاہو سمجھتے ہیں- مشروط امداد، اسلحہ پر پابندیاں، سفارتی تنہائی اور ایسے نتائج جن کا حقیقی اثر ہو۔ نیتن یاہو نے مغرب کی ہچکچاہٹ کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر واشنگٹن، برلن، لندن اور پیرس کے رہنما واقعی چاہتے ہیں کہ یہ قتلِ عام رکے، تو انہیں اسرائیل کی حمایت بند کرنا ہوگی۔
(مضمون نگار اشوک سوین سویڈن کی اُپسلا یونیورسٹی میں امن اور تنازعات کے ریسرچ پروفیسر ہیں)