کشمیر وادی میں گزشتہ چند دنوں سے پڑنے والی شدید گرمی نے جہاں عوام کو بے حال کر دیا تھا، وہیں بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتیوں، پانی کی قلت اور بے ہنگم ٹریفک نے روزمرہ کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا تھا۔ ایسے میں حالیہ بارشوں نے عوام کو نہ صرف گرمی سے راحت دی ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی ایک سکون بخش فضا پیدا کی ہے۔ مگر کیا یہ وقتی راحت ہمارے دیرینہ مسائل کا حل ہے؟ یا ہم ہر بار قدرت کے رحم و کرم پر ہی جیتے رہیں گے؟بارش یقیناً ایک فطری نعمت ہے اور کشمیر جیسے خطے میں جہاں زراعت و باغبانی کا دار و مدار بارشوں پر ہے، وہاں اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو بارش کے ساتھ جڑی راحت کی یہ خوشی اصل میں کئی بنیادی مسائل پر ایک وقتی پردہ ڈال دیتی ہے۔جون اور جولائی کے مہینوں میں وادی میں شدید گرمی نے کئی دہائیوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔ ایسے میں بجلی کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ کٹوتیوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ کئی علاقوں میں روزانہ 10 سے 14 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے بیماروں، بزرگوں، بچوں اور طلبا کو شدید مشکلات سے دوچار کیا۔ اگرچہ محکمہ بجلی نے “اوورلوڈ” کا بہانہ بنایا، مگر اصل مسئلہ انفراسٹرکچر کی کمی، پرانے ٹرانسفارمرز اور ناقص منصوبہ بندی ہے۔بارش سے قبل وادی کے بیشتر شہری و دیہی علاقوں میں پینے کے پانی کی قلت ایک معمول بن چکی تھی۔ کہیں پر نلوں میں پانی نہیں آ رہا تھا، تو کہیں آلودہ پانی کی شکایات عام تھیں۔ محکمہ پی ایچ ای کی جانب سے تسلی بخش اقدامات نہ کیے جانے کی وجہ سے عام لوگ مجبوراً ذاتی ذرائع یا ٹینکروں کا سہارا لینے پر مجبور تھے۔کسانوں کے لیے یہ بارش رحمت بن کر برسی ہے۔ خشک سالی کی طرف بڑھتے موسم نے سیب، دھان، سبزیاں اور دیگر فصلوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ اگر بارش نہ ہوتی، تو فصلوں کی تباہی یقینی تھی۔ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا ہمارا زرعی نظام اتنا کمزور ہے کہ وہ صرف بارش پر منحصر ہے؟ کیا بارانی علاقوں کے لیے ذخیرۂ آب اور جدید آبپاشی نظام تیار کرنا حکومت کی ترجیحات میں نہیں۔موسمیاتی تبدیلی نے دنیا بھر میں موسمی نظام کو غیر متوقع بنا دیا ہے اور کشمیر بھی اس سے محفوظ نہیں۔ مسلسل بدلتے موسم، وقت سے پہلے گرمی، دیر سے برفباری اور بے وقت کی بارشیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمیں موسمیاتی چیلنجز کے لیے منصوبہ بند تیاری کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہماری موجودہ حکومتی پالیسیوں میں ماحولیاتی منصوبہ بندی کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی گئی۔کشمیر میں حالیہ بارش یقیناً راحت کا باعث بنی ہے، مگر یہ صرف ایک وقتی سکون ہے۔ عوام کو چاہئے کہ وہ قدرتی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت سے پائیدار اصلاحات کا مطالبہ کریں۔ بجلی، پانی، زرعی منصوبہ بندی، اور ماحولیاتی تحفظ جیسے بنیادی مسائل کو صرف بارش کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔کشمیر جیسے حساس خطے میں جہاں قدرتی حسن اور زرعی انحصار ساتھ ساتھ چلتے ہیں، وہاں بارشوں کو خوش آمدید کہنا تو لازم ہے، مگر انتظامیہ کو اس حقیقت سے منہ نہیں موڑنا چاہئے کہ ہر بارش ایک وارننگ بھی ہوتی ہے—کہ اگر وقت پر اقدامات نہ کیے گئے، تو کل یہی بارش سیلاب، بیماریوں اور تباہی کی شکل میں بھی آ سکتی ہے۔