اگر نریندر مودی اپنی موجودہ مدت کار مکمل کرنے سے قبل ہی اقتدار سے بے دخل ہو جاتے ہیں، تو اس کی ایک وجہ یہ ہوگی کہ وہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ہند-امریکہ تعلقات کے نیچے لکڑیاں سجا کر آگ لگانے کے منصوبے کو نہ تو سمجھ سکے اور نہ ہی دھواں نکلنے پر اس آگ کو بجھانے میں کامیاب ہو سکے۔ اس سے نکلنے والا دھواں نہ صرف ’وشو گرو‘ کی شبیہ کو دھندلا دے گا بلکہ مودی کی سیاسی حمایت کو بھی نگل جائے گا۔ حالانکہ ٹرمپ کی ناراضگی ذاتی ہے اور اس کا نشانہ مودی ہیں، لیکن بدقسمتی سے اس کا اثر ہندوستان پر پڑا ہے۔ شاید ٹرمپ اس بات سے ناراض ہیں کہ مودی ستمبر 2024 میں اپنے امریکہ دورہ کے دوران ان سے ملنے نہیں گئے۔ رواں سال فروری ماہ میں جب ٹرمپ دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو مودی نے دوستی نبھانے کی کوشش میں وہائٹ ہاؤس کا دورہ ضرور کیا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
پاکستان کے ساتھ فوجی تصادم کے بعد جب مودی نے جنگ بندی کرانے میں امریکی صدر کے کردار کو تسلیم نہیں کیا، تو ٹرمپ کی انا مجروح ہو گئی۔ 12 اگست کو امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ ’’ہم نے محسوس کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعہ خطرناک رخ اختیار کر سکتا تھا… یہ ایک تشویش ناک معاملہ تھا اور نائب صدر، صدر اور وزیر خارجہ نے فوری اقدام کیا… ہم نے فون کال کی نوعیت، حملے روکنے کے لیے ہماری کوششوں اور پھر تمام فریقین کو ایک ساتھ لانے کے بارے میں بتایا تاکہ ہم ایک پائیدار حل حاصل کر سکیں۔ یہ ایک انتہائی فخر کا لمحہ ہے اور اس کی ایک بہترین مثال ہے کہ وزیر خارجہ روبیو اور نائب صدر وینس کس بات کے لیے پُرعزم ہیں… اس ملک کے سرکردہ لیڈران اُس ممکنہ تباہی کو روکنے میں شامل تھے۔‘‘
سفارتی حلقوں میں وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان کو ملک کا سرکاری موقف سمجھا جاتا ہے، پھر چاہے کوئی بھی افسر، حتیٰ کہ سربراہ مملکت کچھ بھی کیوں نہ کہے۔ دوسرے الفاظ میں بروس کی وضاحت مودی کے اس پروپیگنڈے کی تردید کرتی ہے کہ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ مودی کے ذریعہ نائب صدر وینس کی فون کال کی بات تسلیم کرنا، لیکن یہ ماننے سے انکار کرنا کہ وہ دباؤ میں آ گئے، سچ سے منہ موڑنے اور ملک میں اپنی ساکھ بچانے کی کوشش ہے۔ تیسرے فریق کی ثالثی کو قبول کرنا تکنیکی طور پر 1972 کے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جو ہندوستان اور پاکستان کو اپنے اختلافات کو دوطرفہ طور پر حل کرنے کا پابند کرتا ہے۔
پاکستان نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ پیدا حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ امریکہ کے ساتھ اپنے پرانے فوجی تعلقات کو بحال کر کے ’آپریشن سندور‘ رکوانے کے لیے ٹرمپ کا دلی شکریہ ادا کر کے، اور انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کر کے پاکستان نے 1991 سے ہندوستان اور امریکہ کے درمیان کافی محنت سے بہتر ہوئے تعلقات کو نقصان پہنچایا۔
ہندوستان کے لیے مزید پریشان کن بات یہ تھی کہ بروس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حال ہی میں اسلام آباد میں ’امریکہ-پاکستان انسداد دہشت گردی بات چیت‘ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ’’امریکہ اور پاکستان نے دہشت گردانہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تعاون بڑھانے کے طریقوں پر بات کی۔‘‘ دوسرے الفاظ میں امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی پھیلانے والا ملک ماننے کے بجائے دہشت گردی سے لڑنے میں ایک ساتھی کے طور پر اپنایا ہے۔ صاف ظاہر ہے، پاکستان کے بارے میں مودی کی باتوں کو واشنگٹن نے نظرانداز کر دیا۔
ہندوستان کے لیے امریکہ برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ امریکہ پہنچنے والے ہندوستانی سامان پر 50 فیصد ٹیرف ہندوستانی معیشت کے لیے بڑا دھچکا ہے اور مودی حکومت نے اس کے لیے پہلے سے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ ٹرمپ کے بطور صدر پہلے دور کے غیر یقینی رویے کو دیکھتے ہوئے کئی ممالک نے اپنی برآمدات کو متنوع بنانا شروع کر دیا تھا۔ لیکن مودی کو ایسی کوئی تدبیر سوجھی ہی نہیں، کیونکہ وہ تو ٹرمپ کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والی دوستی کے خواب میں کھوئے ہوئے تھے۔
اس درمیان ہندوستان اور چین کے تعلقات میں نرمی کی بات ناقابل یقین لگتی ہے۔ کیا چین نے مشرقی لداخ میں 5 سال سے قابض علاقے کو خالی کر دیا ہے؟ نہیں۔ تو پھر بیجنگ کے ساتھ نئی دہلی کا رویہ معمول کا کیسے ہو سکتا ہے؟ کسی بھی صورت میں پاکستان کا دیرینہ اتحادی چین کبھی بھی اتنا فراخ دل نہیں ہوگا کہ وہ امریکہ سے ہونے والے ہندوستانی برآمدات کے نقصان کی تلافی کر سکے۔ صرف یورپی یونین ہی ایسا کر سکتی ہے، لیکن اس میں بھی خاصا وقت لگے گا اور مودی بروسلز کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو اس سطح تک لے جانے کے قریب بھی نہیں ہیں۔
دنیا کے لیے یہ ایک بڑی فکر ہے کہ آخر ٹرمپ جیسے مسئلہ سے کس طرح نمٹا جائے؟
اگرچہ ٹرمپ مکمل فاشسٹ نہ بھی ہوں، تو آمرانہ رجحان رکھنے والے تو ضرور ہیں، اور ان کے دوست آزاد جمہوریتوں کے علمبرداروں سے کوسوں دور ہیں۔ ولادمیر پوتن، وکٹر اوربان، بنجامن نیتن یاہو، برازیل کے سابق صدر بولسونارو اور چین کے صدر شی جن پنگ۔ جہاں تک شمالی کوریا کے کم جونگ اُن کا تعلق ہے، ٹرمپ نے کہا ’ہمیں محبت ہو گئی!‘
اگرچہ ٹرمپ کو احساس تھا کہ اگر وہ یورپ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چلتے، تو پوتن کے ساتھ ان کی سربراہی ملاقات شرمناک ثابت ہو سکتی ہے۔ 11 اگست کو ایک پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ’’میں زیلینسکی کے ساتھ تال میل بیٹھاتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوں، لیکن میں ان کے کیے سے سخت اختلاف رکھتا ہوں… بہت زیادہ۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو کبھی نہیں ہونی چاہیے تھی۔‘‘ دوسرے الفاظ میں، انہوں نے جنگ کے لیے زیلینسکی کو مورد الزام ٹھہرایا۔
پھر انہوں نے پچھلے ہفتے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا ’’کچھ زمین کا تبادلہ ہوگا۔‘‘ اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ یوکرین کو روس کے ساتھ امن کے لیے اپنی زمین سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ روسی فوج اس وقت یوکرین کے 20 فیصد سے زیادہ حصے پر قابض ہے۔
پوتن کے ساتھ اپنی ملاقات سے پہلے ٹرمپ نے زیلینسکی سمیت یورپی لیڈران کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کی اور پیش گوئی کی کہ ’’اگلی ملاقات زیلینسکی اور پوتن کے درمیان یا زیلنسکی، پوتن اور میرے درمیان ہوگی۔‘‘ ویسے، اس میں شک ہے کہ زیلنسکی کے ساتھ پوتن براہ راست مذاکرات پر آسانی سے راضی ہوں گے۔ ٹرمپ اور یورپ کے درمیان اختلاف اور اس کے نتیجے میں روس کے معاملے پر مغرب میں اتحاد کی کمی، کریملن کے لیے فائدہ مند رہی ہے۔ اگر پوتن ٹرمپ کو اپنے اشاروں پر چلا سکیں، تو روس اور امریکہ کے درمیان تجارت میں اضافے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
ٹرمپ کے غرور میں نوبل انعام جیتنے کا جنون بھی شامل ہے۔ اسی لیے وہ روس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے لیے یوکرین پر ایک نقصان دہ معاہدہ تھوپنے کے لیے بہت حساس ہیں۔ اگر امریکہ کی حمایت نہ رہی، تو یوکرین کو مستقبل میں ٹرمپ کے موجودہ مطالبات سے بھی زیادہ قیمت چکانی پڑے گی۔
برطانیہ کے وزیراعظم کیر اسٹارمر، فرانس کے صدر امینوئل میکرون اور جرمنی کے چانسلر فریڈرک کی قیادت میں یورپ اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ کناڈا اور آسٹریلیا سمیت دیگر ممالک یوکرین کے حقوق کے دفاع اور روس کی مخالفت کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔ اگر یورپ ٹرمپ کی حمایت نہ کرتا، تو امریکی صدر کے لیے راستہ آسان نہیں ہوگا۔ یورپی ممالک کی رضامندی کے بغیر روس اور یوکرین کے درمیان کسی بھی پائیدار حل کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اس کے علاوہ، ٹرمپ کی ’تجارتی جنگ‘ کو روکنے کے لیے یہ ناممکن نہیں کہ یورپ کسی نہ کسی طرح چین کے ساتھ تال میل کر لے۔ بین الاقوامی معاشی نظام داؤ پر لگا ہوا ہے۔ سیاسی دشمن ممکنہ بحران کو ٹالنے کے لیے معاشی طور پر دوست بن سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔