ہر روز پلاسٹک سے بھرے دو ہزار کچرے کے ٹرکوں کے مساوی دنیا کے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں میں پھینکے جاتے ہیں، جس سے جنگلی حیات اور انسانی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ مائیکرو پلاسٹک خوراک، پانی، مٹی حتیٰ کہ انسانی اعضاء اور نوزائیدہ بچوں میں بھی پائے گئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بھی، جنیوا میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے مابین پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے کے لیے معاہدے پر اتفاق رائے قائم کرنے کا دباؤ بے نتیجہ رہا، حالانکہ انہوں نے مستقبل میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ اقوام متحدہ کے ماحولیات پروگرام (یونیپ یا یو این ای پی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن کے مطابق، 10 روزہ مذاکرات کے دوران سب جغرافیائی سیاسی پیچیدگیوں، اقتصادی چیلنجوں اور کثیر الجہتی تناؤ کے پس منظر میں سخت محنت کرتے رہے۔ اتفاق قائم نہیں ہوا،لیکن ایک چیز واضح ہے کہ پیچیدگیوں کے باوجود، تمام ممالک میز پر رہنا چاہتے ہیں۔
معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے گہرے افسوس کا اظہار کیا کہ سرتوڑ کوششوں کے باوجود، سمندری ماحول سمیت پلاسٹک کی آلودگی پر بین الاقوامی سطح پر قانونی طور پر پابند کرنے والے معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات بغیر کسی اتفاق رائے کے ختم ہوگئے۔ انہوں نے پلاسٹک کی آلودگی پر قابو پانے کے لیے کام جاری رکھنے اور اس عمل میں مصروف رکن ممالک کے عزم کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ متحد ہو کر اس معاہدے تک پہنچنا ایک اہم چیلنج ہے جو دنیا کے لوگوں اور ماحولیات کے لیے ضروری ہے۔