پس پردہ مزدور اور ان کا استحصال

AhmadJunaidJ&K News urduDecember 15, 2025360 Views


بنگلور، حیدرآباد اور دہلی میں کی گئی فیلڈ اسٹڈیز سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈیجیٹل مزدور کی اوسط آمدنی 12 سے 15 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ 60 فیصد ورکرز کے پاس کوئی کنٹریکٹ نہیں ہے۔ 75 فیصد کے پاس سوشل سکیورٹی نہیں ہے۔ 90 فیصد کو نہیں معلوم اصل کمپنی کون ہے۔

علامتی تصویر ، بہ شکریہ: رائٹرز/ اسٹرنگر/ فائلز

ڈیجیٹل معیشت میں پیداوار، تجارت، خدمات اور معاشرتی تبادلے بنیادی طور پر ڈیجیٹل ٹکنالوجی کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔

اس معیشت کی بنیاد انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹکنالوجی، انٹرنیٹ، بگ ڈیٹا، مصنوعی ذہانت، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور ای-کامرس جیسے عناصر پر ہوتی ہے۔

ڈیجیٹل معیشت میں کاروباری ادارے آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے مصنوعات اور خدمات پیش کرتے ہیں جبکہ صارفین موبائل ایپس، ویب سائٹس اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے ذریعے خرید و فروخت کرتے ہیں۔

اس نظام میں نہ صرف کاروباری سرگرمیاں زیادہ مؤثر اور تیز تر ہو جاتی ہیں بلکہ عالمی منڈیوں تک رسائی بھی آسان ہو جاتی ہے۔ ڈیجیٹل معیشت روزگار کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے، جدت اور تحقیق کو فروغ دیتی ہے اور حکومتی خدمات کو بھی بہتر بناتی ہے۔ مجموعی طور پر، ڈیجیٹل معیشت جدید دور کی معاشرتی اور اقتصادی ترقی کا ایک بنیادی محرک بن چکی ہے۔

ہندوستان کو آج دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنگلورو کے بلند و بالا ٹیک ٹاور، حیدرآباد کے ہائی ٹیک پارکس اور دہلی کے بزنس ہب ہندوستان کے ڈیجیٹل انقلاب کی علامت ہیں۔

حکومت کے مطابق ملک اب اے آئی، آٹومیشن، گلوبل آؤٹ سورسنگ اور آن لائن سروسز کے دور میں قدم رکھ چکا ہے۔ مگر اس چمکتی ہوئی تصویر کے پیچھے ایک چھپی ہوئی دنیا ہے، جو نہ تو خبروں میں آتی ہے، نہ پالیسی ساز اسے دیکھتے ہیں اور نہ ہی ان مزدوروں کو کوئی تسلیم کرتا ہے جو اس انقلاب کی بنیاد ہیں۔

یہ دنیا ہے ڈیجیٹل پسِ پردہ مزدوری کی، وہ لوگ جو دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیوں کے لیے کام کرتے ہیں، مگر جنہیں نہ کوئی خاص تحفظ حاصل ہے، نہ بونس، نہ قانونی حقوق اور نہ ہی کوئی آواز۔

ڈیجیٹل غلامی کی کہانی

اترپردیش سے تعلق رکھنے والی شہر حیدرآباد کے علاقے شیخ پیٹ میں رہنے والی 27 سالہ سلمیٰ یاسمین رات کے 2 بجے بھی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی رہتی ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے ہزاروں تصاویر پر کام کرنا، گاڑیوں، سڑکوں، درختوں اور انسانی چہروں کی شناخت کرنا تاکہ اے آئی ماڈلز کی تربیت کی جا سکے۔

یاسمین کہتی ہیں؛

میں روزانہ 8 سے 10 گھنٹے کام کرتی ہوں۔ کبھی 70 روپے فی گھنٹہ ملتا ہے، کبھی 100 روپے فی گھنٹہ کے حساب سے ملتا ہے اور بعض دفعہ کچھ بھی نہیں ملتا۔ میں جس سوشل پلیٹ فارم کے لیے کام کرتی ہوں، پلیٹ فارم کبھی کبھی کہتا ہے کہ کام ٹھیک نہیں ہے اس لیے پیسے نہیں ملیں گے، تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ جب ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اصل کمپنی کون سی ہے یا کس نے یہ کام دیا ہے۔ ہم صرف اسکرین دیکھتے ہیں، مالک  کوکبھی نہیں۔

یہ جملہ ایک حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، ڈیجیٹل دنیا میں مزدوروں کی محنت مکمل طور پر پوشیدہ ہے اور ان کی شناخت اور حقوق تقریباً معدوم ہیں۔

یہ فیکٹریاں نہیں، مگر حالات ویسے ہی ہیں؛

لیبر اسٹڈیز، بنگلورو کی محقق ڈاکٹر ہمنہ فاروق کہتی ہیں؛

ہم نے ہمیشہ سنا کہ فیکٹری میں مزدور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ مگر آج استحصال کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے، اسکرین والا مزدور۔ نہ آجر دکھائی دیتا ہے، نہ دفاتر، نہ کوئی شناخت۔ بس کام، ڈیڈ لائن اور انتہائی کم اجرت۔

ڈاکٹر ہمنہ کے مطابق، یہ ایک نیا اور21ویں صدی کا کارخانہ ہے ’سائبر سویٹ شاپ‘ یہاں مشینیں نہیں تھکتی بلکہ انسان تھکتا ہے۔ ہندوستان کی غیر رسمی مزدوری کی ساخت اب ڈیجیٹل شکل میں منتقل ہو گئی ہے۔ پہلے فیکٹریوں میں کنٹریکٹ ورکرز ہوتے تھے، آج سوشل پلیٹ فارمز پر بے نام مزدور کام کرتے ہیں اور ان کے حقوق کا کوئی تحفظ نہیں۔

ہم زخم دیکھتے ہیں، مرہم نہیں؛

اٹھائیس سالہ عامر دہلی میں ایک معروف سوشل میڈیا کمپنی کے لیے آؤٹ سورس کنٹینٹ ماڈریشن کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کام ہے کہ وہ خطرناک، نفرت انگیز اور غیر اخلاقی مواد کو فلٹر کریں۔

عامر بتاتے ہیں؛

یہ کام روزانہ دل پر پتھر رکھ کر کرنا پڑتا ہے۔ ہم سب کو ذہنی مدد کی ضرورت ہوتی ہے، مگر کمپنی کہتی ہے کہ ہم ‘کنٹریکٹ’ پر ہیں، پالیسی ہم پر لاگو نہیں ہوتی۔ نہ بریک، نہ ہی ہیلتھ انشورنس۔ ہم انسان ہیں، مگر کمپنی ہمیں روبوٹس کی طرح دیکھتی ہے۔ ‘

یہ بیان واضح کرتا ہے کہ ڈیجیٹل کام کی یہ نئی شکل ذہنی اور جذباتی دباؤ کا باعث بنتی ہے، مگر مزدور کے پاس قانونی تحفظ یا معاوضہ نہیں ہے۔

خواتین: ڈیجیٹل گھریلو پن کا نیا دور

دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے آن لائن ’گگ‘ کام ایک نئی مالی اور جذباتی ذمہ داری لے کر آیا ہے۔

رانچی کی 32 سالہ میرا دیوی کہتی ہیں؛

’سب کہتے ہیں گھر بیٹھ کر کام کرنا ہے، کافی آسان ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ گھر کا کام ختم نہیں ہوتا اور یہ ڈیجیٹل کام بھی روز چلتا ہے۔ اجرت کم ملتی ہے، مگر کام چھوڑنا ممکن نہیں ہے۔‘

ڈیجیٹل رائٹس کی ماہر شائستہ خان کہتی ہیں؛

خواتین کو لگتا ہے یہ ملازمت آزادی دیتی ہے، مگر حقیقت میں وہ ایک نئی قید میں آ جاتی ہیں۔ نہ گھر کے کام سے آزاد، نہ ڈیجیٹل ٹاسک کے دباؤ سے آزاد۔ یہ سوشل پلیٹ فارمز خواتین کو کم اجرت دیتے ہیں کیونکہ ان کی دستیابی ہمیشہ رہتی ہے۔‘

ایمیزون مکینیکل ترک، کلک ورکر، یو ایچ آر ایس، ریموٹاسکس اور دیگر پلیٹ فارمز ہندوستانی نوجوانوں کو عالمی کمپنیوں سے جوڑتے ہیں۔ مگر یہ ملازمتیں قانونی طور پر رسمی نہیں ہیں۔

ٹریڈ یونین رہنما رویندر پاٹھک کہتے ہیں;

یہ تو ملازمت بھی نہیں۔ ورکر وہی سب کچھ کرتا ہے جو کمپنی چاہتی ہے، مگر قانونی طور پر ملازم نہیں۔ نہ بونس، نہ چھٹی، نہ قانونی تحفظ، نہ کوئی یونین۔ یہ ڈیجیٹل کلونیل ازم ہے، طاقت باہر والوں کے پاس، محنت ہمارے نوجوانوں کی۔ ‘

ان کے مطابق، اگر لاکھوں مزدور ایک ساتھ کام چھوڑ دیں تو اے آئی کمپنیوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز رک جائیں گی، مگر پلیٹ فارمز کو معلوم نہیں کہ یہ مزدور کہاں سے ہیں اور کس کا کام ہے۔

بنگلور، حیدرآباد اور دہلی میں کی گئی فیلڈ اسٹڈیز سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈیجیٹل مزدور کی اوسط آمدنی 12 سے 15 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ 60 فیصد ورکرز کے پاس کوئی کنٹریکٹ نہیں ہے۔ 75 فیصد کے پاس سوشل سکیورٹی نہیں ہے۔ 90 فیصد کو نہیں معلوم اصل کمپنی کون ہے۔

خواتین کے لیے یہ سب سے غیر محفوظ اور کم اجرت والا کام ہے۔ اے آئی ٹریننگ، ڈیٹا اینوٹیشن، آڈیو ٹرانسکرپشن اور کنٹینٹ ماڈریشن میں ہندوستانی مزدور کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، مگر انہیں کوئی کریڈٹ نہیں ملتا۔

کیا ہندوستان مصنوعی ذہانت(اے آئی) کا بیک آفس بننا چاہتا ہے؟

حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا نے روزگار پیدا کیا ہے، مگر یہ روزگار غیر رسمی، غیر محفوظ اور کم اجرت والا ہے۔

اس سے متعلق یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کیا یہ ترقی ہے یا استحصال؟ کیا ہندوستان عالمی ٹیک کمپنیوں کا بیک آفس بن چکا ہے؟ کیا نوجوانوں کے پاس بہتر مواقع نہیں ہیں؟ کیا ہم مستقبل کی ٹکنالوجی انسانی قیمت پر بنا رہے ہیں؟

ڈیجیٹل انقلاب کی شاندار عمارت انہی مزدوروں کے کندھوں پر کھڑی ہے جنہیں دنیا جانتی تک نہیں۔

سلمیٰ یاسمین کی آواز اب بھی کانوں میں گونجتی ہے;

ہم ڈیجیٹل انڈیا کا حصہ ہیں، مگر جیسے ہمارا کوئی ریکارڈ ہی نہیں۔ ہماری محنت پہچانی نہیں جاتی، ہمارے نام درج نہیں ہوتے اور ہمارے بغیر یہ نظام ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔ پھر بھی ہم ہیں، مگر جیسے ہم ہیں ہی نہیں۔‘

یہ کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ڈیجیٹل ترقی کے پیچھے چھپی محنت اور قربانی کو تسلیم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اگر یہ پس پردہ مزدور نہ ہوں، تو ہندوستان کا ڈیجیٹل انقلاب محض ایک خالی دھواں بن جائے گا۔

(عبدالمقیت دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ انہوں نے یہ رپورٹ لاڈلی میڈیا فیلوشپ پروگرام کے تحت تیار کی ہے۔)



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...