
السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر
(یہ رپورٹ پلتجر سینٹر آن کرائسس رپورٹنگ کے تعاون سے کی جا رہی دی وائر کی’دی فورسڈ گلٹ پروجیکٹ’ سیریز کا پہلا حصہ ہے۔)

ممبئی: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس سال 21 مارچ کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دیگر ممبران پارلیامنٹ کے ساتھ راجیہ سبھا میں بڑے فخر کے ساتھ دو گھنٹے سے زیادہ لمبی تقریر کی، جس میں انہوں نے ‘دہشت گردی سے نمٹنے’ میں این ڈی اے حکومت کی پیش رفت کی ستائش کی اور تعریف و توصیف کے دفتر کھول دیے۔
اس دوران کئی حصولیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے امت شاہ نے قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کے معاملات کو درج کرنے اور عدالت میں قصورواروں کوسزا دلانے کے شاندارریکارڈ کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ انہوں نے ایجنسی کی کامیابی کا سہرا وزیر اعظم نریندر مودی کی دہشت گردی کے خلاف ‘زیرو ٹالرنس’ کی پالیسی کو دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ این آئی اے نے’ عالمی سطح پر موجود تمام انسداد دہشت گردی کی تنظیموں میں خود کوبہترین ثابت کیا ہے۔’
امت شاہ کی تقریر میں این آئی آےکے 31 دسمبر 2024 کے اس اعلان کا حوالہ دیا گیا، جس میں ایجنسی نے ‘سال کے آخر میں’ اپنی پریس ریلیز میں دعویٰ کیا تھاکہ اس نے 2024 میں 100 فیصد سزایابی کی شرح حاصل کی ہے۔ یہ 15 سال پرانی ایجنسی کے پہلے سے ہی متاثر کن معیارات کے لحاظ سے بھی ایک غیر معمولی اور بے مثال حصولیابی تھی۔
اس سے پہلےاین آئی اےکی سزایابی کی شرح’صرف’ 94-95 فیصدتھی۔ وسیع پیمانے پر زیر بحث پریس ریلیز میں خاص طور پر اس حقیقت کا تذکرہ کیا گیا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے خصوصی طور پر قائم کی گئی اس ایجنسی نے اس سال 25 معاملوں میں سزایابی کویقینی بنایا تھا۔
ایجنسی کی پیش رفت
غور طلب ہے کہ این آئی اے کا قیام 2008 کے ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے بعد ایک ماہ کے اندرعمل میں آیاتھا۔ اس حملے میں 166 لوگ مارے گئے تھے اور 300 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے پارلیامنٹ سے ضروری منظوری حاصل کرنے پر زور دیا تھا۔ جب این آئی اے بل راجیہ سبھا میں بحث کے لیے آیا تو کچھ اختلافی آوازیں بھی اٹھائی گئیں، جن میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سیتارام یچوری کے خدشات بھی شامل ہیں ۔
سیتارام یچوری نے وفاقیت کے اصولوں کے زوال کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جرائم کی تحقیقات اور ٹرائل میں ریاستی حکومتوں کے تعاون کو لازمی قرار دینے کے لیے ایک ترمیم کی تجویز پیش کی تھی۔ چدمبرم نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اس وقت ان کا کہنا تھا،’لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ آج جب میں بول رہا ہوں، لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ کل لوگ ہمیں ٹیلی ویژن پر دیکھیں گے۔ لوگ پوچھ رہے ہیں، ‘کیا یہ ہندوستان کی پارلیامنٹ ہے جو ٹی وی پر پہریدار ہے؟ کیا ہندوستان کی پارلیامنٹ ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے موزوں نگراں ہے؟’ اور اس طرح اس بل کو کسی مناسب بحث کے بغیر متعارف کرائے جانے کے چار دن بعد ہی پاس کر دیا گیا۔
چند مہینوں کے اندر – دی ہندو کو وکی لیکس کے ذریعے موصولہ امریکی محکمہ خارجہ کی ایک خفیہ کیبل کے مطابق – چدمبرم نے ایک اعلیٰ سطحی امریکی اہلکار کو بتایا تھا کہ مرکز اور ریاست کے تعلقات سے متعلق آئینی دفعات کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اس قانون کے اختیارات کو عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
بعد میں پتہ چلا یہ خدشات بالآخر بے بنیاد تھے، کیونکہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے این آئی اے کی کارروائیاں آئینی چیلنج کے بغیر جاری ہیں۔ درحقیقت، اس کے پیرنٹ ایکٹ کو مزید وسعت دی گئی ہے، جو داخلی سلامتی اور مرکزی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے تئیں ہندوستانی حکومت کے نقطہ نظر میں ایک اہم تبدیلی کا اشارہ دیتاہے۔
تفتیشی ایجنسی کی طرح ہی غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے)، جس کے تحت این آئی اے مقدمہ چلاتی ہے، میں بھی کئی ترامیم کی گئی ہیں- این آئی اے کے بننے سے پہلے چار بار اور اس کے بعد سے تین بار (2008، 2012 اور 2019 میں)۔ 2019 کی ترمیم نے دھماکہ خیز مواد سے متعلق مقدمات کا دائرہ وسیع کیا اور ہائی جیک کواین آئی اےکے دائرہ اختیار میں لایا گیا۔ انسانی اسمگلنگ اور جعلی کرنسی کے جرائم جیسے معاملات، جو اس وقت تک تعزیرات ہند اور غیر اخلاقی ٹریفک (روک تھام) ایکٹ کے تحت نمٹائے جاتے تھے، اب این آئی اے ایکٹ میں شامل ہو گئے۔
اس قانون میں 2019 کی ترمیم کے بعدسائبر دہشت گردی اور اسلحہ کی اسمگلنگ سے متعلق جرائم بھی شامل ہیں۔ اس ایجنسی کا دائرہ اختیار، جو پہلے صرف ہندوستانیوں تک محدود تھا، میں 2019 میں مزید ترمیم کی گئی تاکہ بیرون ملک ہندوستانیوں اور ہندوستانی مفادات کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد حملوں کی جانچ کی جا سکے۔
نئی دہلی میں واقع اپنے ہیڈکوارٹر سےاین آئی اےاب گوہاٹی اور جموں میں دو علاقائی دفاتر اور ملک بھر میں 21 برانچ کو چلاتا ہے، جس میں 13 برانچ اور دونوں علاقائی دفاترپچھلے پانچ سالوں میں ہی قائم کیے گئے ہیں۔ این آئی اے کی توسیع اس کے قانونی ڈھانچے میں بھی جھلکتی ہے، جہاں این آئی اے معاملوں کے لیے 51 خصوصی عدالتیں ہیں، جن میں رانچی اور جموں میں ایجنسی کے لیے خصوصی طور پر دو عدالتیں شامل ہیں۔
اسی مدت میں ایجنسی کے منظور شدہ عملے کی تعداد تقریباً 33 فیصد کے اضافے کے ساتھ 1,237 سے 1,901 ہوگئی ہے ، اور اس کا بجٹ 3,183 فیصد بڑھ کر 2009-10 کے 12.09 کروڑ روپے سے 2024-25 میں 394.66 کروڑ ہو گیا ہے۔
مرکزی حکومت کی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) اور سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) جیسی جانچ ایجنسیوں کے بیچ، این آئی اے عدالتوں میں اپنے معاملوں میں لگاتار جیت کے لیے قابل ذکر بنا ہوا ہے۔
تاہم، دیگر ایجنسیوں کی شرمناک ناکامیوں کے باوجود این آئی اے کی بے مثال کامیابی کے پیچھے کیا راز ہے ؟ کیا اس کی سزایابی کی اعلیٰ شرح مکمل اور باریک بینی سے تحقیقات اور شواہد اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب ضابطہ پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہے، یا وہ کسی اور تشویشناک پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں؟
ان سوالات کے جواب ایک واضح پیٹرن سے ظاہر ہوتے ہیں، جو ایجنسی کے معاملات کو سنبھالنے میں دیکھا گیا ہے۔ تقریباً دو سالوں سے دی وائر نے این آئی اے کی ویب سائٹ پر اس کے قیام سے لے کر ستمبر 2025 تک شائع ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے۔ اس میں ایک خاص رجحان ابھرکر سامنے آتا ہے۔
دھیمی شروعات
سال 2009 میں این آئی اے کی جانب سے معاملہ درج شروع کرنے کے بعد، چند ایک کو چھوڑ کر، پہلے چھ سے سات سالوں تک ٹرائل شروع نہیں ہوئے۔ 2008 میں یواے پی اےمیں شامل کی گئی ایک پابندی والی ضمانت کی دفعہ 43ڈی(5)کی وجہ سے، ایک ملزم کی ضمانت پر رہائی تقریباً ناممکن ہو گئی، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ ملزم اس مدت کے دوران جیل میں ہی رہے۔
اس دفعہ کے باوجود کچھ ہائی کورٹ کے جج ضمانت دینے کے معاملے میں لبرل اپروچ اپناتے رہے۔ یہ صورتحال سپریم کورٹ کے 2019 کے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی بنام ظہور احمد شاہ وٹالی معاملے میں فیصلے کے ساتھ بدل گئی، جس میں سپریم کورٹ نے اعلان کیا تھا کہ ضمانت صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب یہ پایا جائے کہ چارج شیٹ ‘پہلی نظر میں سچ نہیں ہے۔’
فوجداری مقدمات کو دیکھنے والے وکیل نہال سنگھ راٹھورکہتے ہیں کہ وٹالی فیصلے میں یو اے پی اے کی پابندی والی ضمانت کی دفعات کی اس طرح تشریح کی گئی ہے کہ ‘ضمانت کی درخواست پر غور کرتے وقت عدالتوں کو یہ ماننا ہی ہوگا کہ پہلی نظر میں کوئی سچامقدمہ نہیں بنتا، ساتھ ہی چارج شیٹ میں موجود مواد کو بھی سچ ماننا ہوگا۔’
وہ بتاتے ہیں، ‘یہ ملزم کو ایک نقصاندہ پوزیشن میں ڈال دیتا ہے کیونکہ انہیں یہ ثابت کرنے کے لیے استغاثہ کا ہی مواد استعمال کرنا پڑتا ہے کہ الزامات درست نہیں ہیں، جبکہ وہ دفاع کے کسی مواد پر بھروسہ نہیں کر سکتے ۔’
راٹھوڈ کا مزید کہنا ہے کہ یہاں ضمانت کا معیار، بری ہونے کے معیار کے برابر طے کیے گئے ہیں۔’تاہم، عدالت کا کہنا ہے کہ یہ بری ہونے کے مترادف نہیں ہے۔’
دہلی کے وکیل ابھینو سیکھری کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کے ہاتھ اس کی پیٹھ کے پیچھے باندھ کر گہرے پانی میں پھینک دیا جائے اور اسے تیرنے کو کہا جائے۔
اس سلسلے میں بعد میں آئے ایک فیصلے، کے اےنجیب (2021) ، نے کچھ امید جگائی، لیکن یہاں بھی سپریم کورٹ کی ‘غیر معمولی تاخیر’ اور’مناسب وقت’ کی تشریح کو پوری طرح سے قبول نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے نچلی عدالتوں اور حتیٰ کہ ہائی کورٹس بھی اس وقت تک ضمانت سےانکار کر تی ہے جب تک کہ ملزم نے حراست میں کافی سال نہ گزار لیا ہو۔ اوریہ’کافی سال’ عدالت کی تشریح پر منحصر ہے۔
مثال کے طور پر، ایلگار پریشد کیس میں، بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہینی بابو ، جنہوں نے ساڑھے چار سال سے زیادہ جیل میں گزارے تھے، کو پانچ سال کے بعد ہی ضمانت ملے گی، کیونکہ عدالت نے اسے ‘غیر معمولی تاخیر’ کی حد مانا تھا۔
یو اے پی اےکے تحت ایک بارمقدمہ درج ہونے اور جیل جانے کے بعد ایک شخص کو مقدمے کی سماعت سے پہلے طویل حراست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے معاملات میں، یہ حراست تقریباً دس سال تک جاری رہی، اور بعض صورتوں میں، 14 سال سے بھی تجاوز کر گئی – جو ہندوستانی قانون کے تحت ‘عمر قید’ کی مدت ہے۔
مثال کے طور پر، 2008 سے متعدد مسلمانوں کو دہشت گرد گروپ انڈین مجاہدین میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں مختلف مقدمات میں گرفتار کیا گیا ہے اور وہ ابھی تک مقدمے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی ملک بھر میں متعدد مقدمات میں ملزم ہیں، جنہیں صرف ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی طرف سے نچلی عدالتوں کو مقدمات کو بروقت حل کرنے کی بار بار ہدایات کے باوجود، یہ ٹرائل ابھی تک شروع نہیں ہو سکے ہیں۔
اعتراف جرم: انصاف یا جبر؟
دی وائر کی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طویل عرصے تک حراست میں رہنے اور ضمانت سے انکار کی وجہ سے ملزم اکثر اپنے جرائم کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کئی معاملوں میں یہ قدم ضروری نہیں کہ خود ‘جرم’ کا نتیجہ ہو، بلکہ ایک لامتناہی قانونی عمل سے بچنے کی ایک مایوس کن کوشش ہوتی ہے۔
السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر
این آئی اے کی ویب سائٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق (9 دسمبر 2025 تک)، این آئی اے کے قیام سے لے کر 30 ستمبر 2025 تک درج کیے گئے 633 مقدمات میں سے اب تک صرف 133 مقدمات ہی میں فیصلے سنائے گئے ہیں، جو کہ 15 سالوں میں درج کیے گئے کل مقدمات کا صرف پانچواں حصہ ہے۔
تاہم، این آئی اے کے ترجمان کی جانب سے دی وائر کو فراہم کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 30 نومبر 2025 تک کل 696 مقدمات درج کیے گئے تھے، جن میں سے 172 کو نمٹا دیا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اس وقت ان کے پاس تفصیلی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
یہ تعین کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کیا یہ تمام اضافی کیس اکتوبر اور نومبر 2025 کے درمیان دو ماہ کے عرصے میں درج کیے گئے تھے، یا ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا غلط ہے۔ تاہم، اس سیریز کے لیے دی وائر نےاین آئی اےکی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے کیس ڈیٹا پر انحصار کیا ہے۔
دی وائر نے پایا کہ ان 133 مقدمات میں سے ایجنسی نے صرف 79 میں ہی گواہوں کی مناسب جانچ اور ثبوت پیش کرنے کے ساتھ ٹرائل مکمل کیا۔ ان میں سے کچھ معاملوں میں سزا ہوئی اور کچھ میں بری کر دیا گیا۔تاہم، اس ڈیٹا کا مزید تجزیہ ناممکن ہو گیا کیونکہ این آئی اے، جو پہلے اپنی ویب سائٹ پر فیصلے اپلوڈ کرتی تھی، نے اچانک اسے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا اور حتیٰ کہ پرانے فیصلوں کو بھی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
اسی طرح، زیادہ تر ریاستوں میں ضلع عدالتوں کی ویب سائٹس اب این آئی اےمعاملوں کے فیصلے اپلوڈ نہیں کرتی ہیں۔
دہشت گردی کے معاملوں میں اکثر کئی لوگ ملزم ہوتے ہیں۔ ایسے زیادہ تر معاملوں میں ایجنسی نے صرف جزوی کامیابی حاصل کی ہے، جس میں تمام ملزمین میں سے صرف چندکو ہی قصوروار ٹھہرایا گیا۔
باقی 54 مقدمات میں، مدعا علیہان نے گناہ قبول کرنے کا انتخاب کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایجنسی نے اپنے 40فیصد سے زیادہ معاملوں میں اعتراف جرم کے ذریعے سزایابی کی شرح حاصل کیں۔
این آئی اے کے ان 54 مقدمات میں سے 49 میں، جب اعتراف جرم کے نتیجے میں سزائیں سنائی گئیں، تو ملزمان مسلمان تھے۔
اس سیریز کی رپورٹنگ کے دوران دی وائر نے ملک بھر میں بڑی تعداد میں لوگوں کا انٹرویو کیا اور پایا کہ یہ لوگ غیر متناسب طور پر ‘پسماندہ’ مسلم ذاتوں سے آتے ہیں، جو کہ ایک اہم اشارہ ہے اور سالانہ جاری کیے جانے والے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار سے غائب ہے۔
تقریباً دو سالوں تک ہم نے این آئی اے کی ویب سائٹ عدالتی ریکارڈ اور وکلاء اور ملزمین کے انٹرویوز سے حاصل کردہ کیس کی تفصیلات کا تجزیہ کیا۔ اس تفتیش سے پتہ چلتا ہے کہ اعترافات اکثر دباؤ کے تحت کیے جاتے ہیں، جس کو سالوں کی قید کے بعد آزادی کا واحد راستہ بتایا جا تا ہے۔
کئی معاملوں میں، ملزم جرم کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے مصائب کو ختم کرنے کے لیے اعتراف جرم کرتے ہیں، اور سزا اکثر پہلے سے گزر چکی مدت کے برابر یا اس سے کم ہوتی ہے۔
تاہم این آئی اے نے اس عمل میں اپنے کسی بھی کردار سے انکار کیا ہے۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی وائر سے بات کرتے ہوئے این آئی اے کے ایک ترجمان نے کہا، ‘جب کوئی ملزم جرم قبول کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو یہ سارا عمل صرف اور صرف اس کے اور جج کے درمیان ہوتا ہے۔ اس عمل میں استغاثہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔’
انہوں نے اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 229 کا حوالہ دیا۔
ترجمان نے کہا،’اس دفعہ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر ملزم اعتراف کرتا ہے تو جج اس کا بیان ریکارڈ کرائے گا۔ جب استغاثہ کو کوئی کردار نہیں سونپا گیا تو ہمیں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔’
این آئی اے نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں ملزم کے فیصلے کے بارے میں معلومات عدالت کے ذریعے ہی ملتی ہیں اور بعض اوقات عدالت کی جانب سے درخواست کو قبول کرنے کے بعد ہی ملتی ہیں، کیونکہ یہ عدالت کی صوابدید ہے۔
تاہم، یہ دعویٰ ہمیشہ درست نہیں ہو سکتا، کیونکہ سماعت کے دوران این آئی اے کے اہلکار اور استغاثہ دونوں ہی عدالت میں موجود ہوتے ہیں۔
این آئی اے نے ‘اعتراف’ اور ‘پلی بارگیننگ’ کی اصطلاحات کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرنا شروع کیا
‘پلیڈنگ گلٹی’ اور ‘پلی بارگیننگ’ کی اصطلاحات کو اکثر ایک ہی مفہوم میں لیا جاتا ہے، لیکن ہندوستانی قانون کے تحت یہ الگ الگ اصطلاحات ہیں۔ اعتراف جرم کا مطلب ہے کسی رعایت کی ضمانت کے بغیر جرم کا اعتراف کرنا، جبکہ پلی بارگیننگ سمجھوتے کا ایک طریقہ ہے جس کے تحت ملزم کم سزا کے بدلے جرم کا اعتراف کرتا ہے۔
اسے 2005 میں فوجداری قانون ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے لاگو کیا گیا تھا (جیسا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 265اے-265 جےکے تحت بیان کیا گیا ہے)، الزامات یا سزا کو کم کرنے کے لیے بات چیت کی اجازت دی گئی ہے۔
پلی بارگیننگ صرف ان جرائم تک محدود ہے جن میں سات سال تک کی سزا ہے اور اس میں واضح طور پریو اے پی اے جیسے سنگین جرائم شامل نہیں ہے، جن پراین آئی اےعام طور پر مقدمہ چلاتی ہے۔
مفاہمت نامے آسانی سے منظور نہیں ہوتے۔ قاسم بھائی شیخ اور گنیش مل جسراج (1980) جیسے سپریم کورٹ کے ابتدائی فیصلےمیں مفاہمت نامہ کو’غیر آئینی اور زبردستی’ قرار دیا گیا تھا۔ سکھدیو سنگھ (1992) کیس میں بھی، جس نے الزامات طے ہونے کے بعد قصور وار ٹھہرانے جانے کی اجازت دی گئی تھی، عدالت نے رضاکارانہ اور باخبر رضامندی پر زور دیا۔
عدالت نے مانا کہ مفاہمت نامے کے فریم ورک کا اطلاق اصولی قانونی استدلال سے کم اور ریاست کے منتخب اور من مانی کنٹرول سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر
تاہم، عدالتوں نے 2005 کے بعد اپنا نقطہ نظر تبدیل کیا۔ نٹور ٹھاکور (2005) معاملےمیں سپریم کورٹ نے پلی بارگیننگ کی افادیت کو تسلیم کیا اورمعاملہ در معاملہ جائزہ لینے پر زور دیا۔
حال ہی میں، ‘ ان رے: پالیسی اسٹریٹجی فار گرانٹ آف بیل’ معاملے میں عدالت نےکنوکشن کے بعد سزا میں کمی کے لیے محدود درخواستوں کی حمایت کی، بشرطیکہ اپیلوں کو متاثر کیے بغیر کیس کے نمٹانے میں تیزی لانے کے لیےجرم تسلیم کر لیا جائے۔
دی وائر کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ پلی بارگیننگ پر موجودہ قانونی حدود کے باوجود کئی ملزم، برسوں کی حراست اور ضمانت کے کم امکانات سے تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور اکثر حکمت عملی کے انتخاب کے طور پر نہیں ، بلکہ مایوسی کی وجہ سے جرم قبول کرتے ہیں ۔
کم از کم سات ایسے معاملے سامنے آئے ہیں،جہاں ملزمان کو اپنی سزا کی حد سے کہیں زیادہ جیل میں رہنا پڑا۔
عدلیہ کا کردار
این آئی اے کے مقدمات میں اعتراف جرم کے سلسلے میں عدلیہ کا رویہ بھی تشویشناک ہے۔دی وائر کے ذریعے دیکھے گئے کئی معاملوں میں اعتراف جرم کی عرضی اور متعلقہ فیصلے رسمی معلوم ہوتے ہیں۔
ان اہم قانونی پہلوؤں کو ریاستی اور عدالتی دونوں سطحوں پر طویل عرصے سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ بہت سے معاملات میں ملزمین کی جانب سے نرمی کی امید میں اعتراف جرم کے باوجود، نچلی عدالتوں نے عمر قیدجیسی سخت سزائیں سنائی ہیں۔
ہائی کورٹس نے ان فیصلوں کی تنقید کرتے ہوئے اعتراف جرم کے غلط استعمال، مناسب عمل کی کمی، اور اصلاحی طریقوں پر غور کرنے میں ناکامی کا حوالہ دیا ہے، خاص طور پر ایسے نوجوان ملزمان کے معاملے میں جن کا کوئی سابقہ مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔
کچھ سزاؤں کو رد کیا گیا، جس میں مناسب قانونی نمائندگی یا حقائق پر مبنی تحقیقات کے بغیر اعتراف جرم قبول کرنے کے غیر آئینی طریقوں پر روشنی ڈالی گئی ۔
نوٹ: دی وائر نے 21 نومبر کو این آئی اے کو ایک مفصل سوالنامہ بھیجا تھا۔ این آئی اے کے ایک سینئر پی آر او نے 24 نومبر کو رپورٹر کو واپس فون کیا اور انہیں اور ایک دوسرے معاون کو نئی دہلی کے تالکٹورہ میں واقع این آئی اے کے دفتر میں ملنے کو کہا۔ 3 دسمبر کو دونوں افسروں نے دی وائر کے دو صحافیوں- سکنیا شانتا اور جہانوی سین سے ڈیڑھ گھنٹے تک بات کی اور کچھ سوالوں کے جواب دیے۔
سینئر افسر نے استعمال کیے جانے والے حصوں کی ریکارڈنگ بھی مانگی تھی جو انہیں دستیاب کروا دی گئی۔اس کے بعد 8 دسمبر کو افسر نے درخواست کی کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے نام یا عہدے کو ظاہر نہ کیا جائے۔
(سارنگا اوگل مگلے کے ان پٹ کے ساتھ۔)
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔






