بہار کے پورنیہ سے آزاد رکن پارلیمنٹ راجیش رنجن عرف پپو یادو نے جسٹس یشونت ورما کے خلاف مواخذہ کی تحریک اور بہار میں ووٹر لسٹ کی نظر ثانی (ایس آئی آر) کے متعلق جاری تنازعہ پر اپنا رد عمل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مواخذہ کی تحریک پر پارلیمنٹ میں بحث ہو سکتی ہے اور اکثریت یا اتفاق رائے سے فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے بہار میں جاری ووٹر لسٹ کی نظر ثانی پر بھی سوال کھڑے کیے ہیں۔
پپو یادو نے کہا کہ ہندوستان کا عدالتی اور پارلیمانی نظام دنیا میں سب سے منفرد اور قابل احترام ہے۔ اگر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج پر سنگین الزام عائد ہوتے ہیں، جیسے جانبداری یا حکومت کو فائدہ پہنچانے کی بات تو آئین کے تحت مواخذہ کی تحریک لائی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے جمہوری نظام اور آئینی اقدار کے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہے۔ مواخذہ کے عمل پر پارلیمنٹ میں بحث ہو سکتی ہے اور اکثریت یا اتفاق رائے سے فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔‘‘
بہار میں جاری ووٹر لسٹ کی نظر ثانی پر پپو یادو نے بھی سوال اٹھائے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایس آئی آر کے دوران نیپال، بنگلہ دیش اور میانمار کے کئی لوگ پائے گئے، جن کے نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں کیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کے اس بیان پر پپو یادو نے طنز کستے ہوئے کہا کہ ’’الیکشن کمیشن بغیر کاغذات لیے کیسے دعویٰ کر رہا ہے کہ کوئی نیپال یا بنگلہ دیش کا ہے؟ اگر آدھار کارڈ، راشن کارڈ یا دیگر دستاویز ہیں تو کس بنیاد پر لوگوں کو فہرست سے ہٹایا جائے گا؟‘‘
آزاد رکن پارلیمنٹ نے سوال کیا کہ جب کوئی شناختی کارڈ یا دستاویز مانگا ہی نہیں جا رہا ہے تو صرف نام اور والد کا نام پوچھ کر کیسے طے ہو رہا ہے کہ کوئی غیر ملکی ہے؟ ساتھ ہی پپو یادو نے اس عمل کو غلط اور مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اپوزیشن اس مسئلہ کو اس لیے اٹھا رہا ہے کہ بغیر ٹھوس ثبوت کے لوگوں کے نام ہٹائے جا رہے ہیں۔ یہ انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔‘‘
پپو یادو کے مطابق بی ایل او (بوتھ لیول آفیسر) بغیر دستاویزات کی تحقیقات کے صرف زبانی طور پر معلومات اکٹھا کر رہے ہیں جو غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ کو لے کر اپوزیشن سپریم کورٹ کا رخ کر رہا ہے، کیونکہ یہ عمل شفاف نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بہار میں گزشتہ 10 انتخابات موجودہ ووٹر لسٹ کی بنیاد پر ہوئے ہیں تو اب اچانک یہ نظر ثانی کیوں؟ رکن پارلیمنٹ نے اس عمل کو آئینی اور جمہوری اقدار کے خلاف قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اسے شفاف اور غیر جانبدار بنایا جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔