Ph..9149995881
جموں کشمیر میں ہر طرف آجکل موٹر گاڑیوں کی بڑی تعداد دیکھنے کو مل رہی ہے اگر چہ یہ سب دیکھنے میں اچھا لگتا ہے تاہم اس طرح کی خوشی تب ختم ہوتی ہے جب لوگوں کو ہر جگہ ہر گلی ہر نکڑ ٹریفک جام کی وجہ سے سخت ذہنی کوفت کاسامنا کرنا پڑتا ہے ایک زمانہ ایسا تھا جب لوگوں کو گاڑیوں میں اس قدر سفر کرنے کی عادت نہیں تھی لیکن جس طرح سے زمانے نے ترقی کی تو لوگوں نے مسافر گاڑیوں کے بجائے اپنی گاڑیوںکا استمال زیادہ سے کرنا شروع کردیا اور اگر سڑکوں کی بات کریں تو وہی ہیں جو پہلے تھی ہاں اتنا ضرور ہے کہ کئی ایک مقامات پر سڑکوں کو کشادہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم جس قدر سڑکوں کو کشادہ کیا جانا چائے شاید اُس قدر ابھی تک بھی اُس قدر سڑکو ں کو نہیںکیا جاسکا جو بڑ ے افسوس کی بات ہے اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جموں اور سرینگر میںflyoverتو بنائے گئے تاہم اس کے باجود بھی ٹریفک جام میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ flyoverبھی کم پڑ رہے ہیں کیونکہ لوگوں کو کئی دہائیوں سے جموں کشمیر میں ٹریفک جام کا مسلہ درپیش ہے جسکو کسی بھی طور کوئی بھی سرکار آج تک دور کرنے میں کامیاب نہیں ہورہی ہے اگر دیکھا جائے تو ٹریفک جام یا دوسری ٹریفک سے معتلق مسائل کو دور کرنے کیلئے سرکار نے ایک محکمہ بھی قائم کیا ہوا ہے جس کو محکمہ ٹریفک کے نام سے لوگ جانتے ہیں اگر چہ اس بات کا بھی لوگوں کو علم ہے کہ آجکل سرکار بھی تمام احکامات کو عملانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے تاہم اسکے باجود بھی ٹریفک جام سے لوگوں کو نجات دلانے میں ہر ایک سرکار ناکام ہی دکھائی دے رہی ہے جسکی وجہ سے لوگوں کو ہر دن سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ظاہر سی بات ہے جب ٹریفک جام ہوتا ہے تو کئی سارے مسلے بھی لوگوں کو درپیش ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ مسلہ ایسے لوگوں یا مسافروں کو ہوتا ہے جن کو بیماروں کو لیکر ہسپتال جانا ہوتا ہے جسکے ساتھ ساتھ سرکار ی ملازمین اور اسکولی طلبہ و طالبات کو ہوتا ہے اس بات میں کوئی شک نہیںہے کہ ٹریفک جام سے صرف اتنے ہی لوگوں کو پریشانی نہیں ہوتی ہے بلکہ جو بھی لوگ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اُن تمام لوگوں کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس طرح کی پریشانی اگر چہ کئی دہائیوں سے جموں کشمیر میں عوام کو درپیش ہے تو کیا سرکار کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس پریشانی کو جتنی جلدی ہوسکے دور کیا جائے اس طرح کی پریشانی سے لوگوں کو جس قدر مشکلات کاسامنا ہوتا ہے اُن کو بیان کرنا بھی ممکن ہے ایک طرف یہ کوئی بڑا مسلہ لگتا نہیں ہے دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو اس سے بڑا کوئی مسلہ نہیں ہے ہاں ٹریفک جام اس لئے بھی کوئی بڑا مسلہ دکھائی نہیں دیتا کہ گاڑیاں رات تک سڑکوں سے غائب ہو ہی جاتی ہے ورنہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو شاید سرکار نے اس جانب کوئی بڑا فیصلہ کیا ہوتا جو اس لئے بڑ ا مسلہ دکھائی نہیں دیتا کہ صبح سے شام تک یہ مسلہ نظر آتا ہے اگر اس طرح کی صورتحال لگاتار دن رات کئی دنوں تک رہتی شاید سرکار نے اس مصیبت کاحل نکالا ہوتا تاہم یہ پریشانی ایک عارضی پریشانی دکھائی دیتی ہے جسکی وجہ سے اس کی طرف بڑی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جارہی ہے جسکی وجہ سے یہ مسلہ کئی دہائیوں سے موجود ہے اگر دیکھا جائے تو ہر وقت لوگوں کو ہر شہر ہر قصبہ میں اسی ٹریفک جام کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے جسکی وجہ سے اُن کے کام بھی وقت پر نہیں ہوتے ہیں اس بات کی طرف توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اگر جلد از جلد اس مسلے سے عوام کو نجات نہیں دلائی گئی تو ٹریفک جام کی پریشانی جموں کشمیر کے لوگوں کو ذہنی مریض بنا کر ہی چھوڑ لے گی ۔دیکھا جائے تو ہمیں سرکار کو ہی اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چائے کیونکہ سرکار کے ساتھ ساتھ عوام بھی ٹریفک جام میں اچھا کردار نبھا رہی ہے اور ہر ایک شخص خود ٹریفک جام کی غلطی میں خود کو بے قصور ہی سمجھتا ہے اگر حقیقت پر نظر ڈالیں تو ہر ایک شخص کو خود ہی یہ اندازہ ہوجائے گا کہ وہ کس حد تک ٹریفک جام کیلئے ذمہ دار ہے جو ہمیں اپنی اپنی جگہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے اس کیلئے جتنا عام لوگ بھی سنجیدہ ہوجائیں گے اُس قدر اچھا ہے کیونکہ جب عوام کی سوچ مثبت ہوتی ہے تو سرکار کو بھی کام کرنے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ کسی بھی صورت سرکا ر تب تک کسی بھی کام میں کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک نہ عوام اُس کو ساتھ دے ایسے میں سرکار کو بھی چائے کہ وہ عوام کو اس بات کی جانکاری فراہم کرے کہ اُن کی کس حد تک ضرورت ہے کسی بھی سرکاری کام کو کامیاب کرنے لئے اور جب کام عوام کی سہولیات کیلئے ہو تو اس میں مزید پہل کرنی چائے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے غرض کوئی بھی کام تب تک ممکن نہیں جب تک تمام لوگ اس میں شامل نہ ہوجائیں اس لئے بہت ضروری ہے کہ عوام اور سرکار جموں کشمیر میں ٹریفک جام سے نجات پانے کیلئے ایک ساتھ کام کریں اور اگر دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا تو کامیابی یقینی ہے جس کی طرف ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔