نئی دہلی: ہر دور میں علمائے کرام نے وقت کے تقاضے کے مطابق دینی، تعلیمی، علمی و سماجی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہے۔ یہ بات شمال مشرقی دہلی کے معروف دینی ادارہ مدرسہ باب العلوم جعفرآباد، دہلی کے مہتمم اور جمعیۃ علماء صوبہ دہلی کے سابق نائب صدر مرحوم مولانا داؤد امینی کی شخصیت پر صادق آتی ہے۔ ان کے انتقال سے دہلی کے ہر طبقہ میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مولانا داؤد امینی جہاں ایک جانب دینی تعلیم کے قائل تھے وہیں دوسری طرف عصری تعلیم حاصل کرنے کی تلقین طلبا کو اکثر کیا کرتے تھے۔ ان کا نظریہ تھا کہ نئی نسل دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ موجودہ وقت کے تقاضوں کے فن میں بھی مہارت حاصل کرے تاکہ وہ دوسری قوموں کی طرح ہر شعبہ میں ترقی کر سکیں۔
مولانا داؤد امینی کے انتقال کو اُردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے قومی صدر ڈاکٹر سید احمد خاں نے بڑا خسارہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا داؤد امینی ایک اچھے استاد کے ساتھ قائدانہ صلاحیت کے حامل تھے۔ ان کا انتقال قوم و ملت کے لئے عظیم خسارہ ہے۔ ڈاکٹر سید احمد خاں نے مزید کہا کہ وہ دینی تعلیم اور بچوں کی تربیت میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے، وہ سماجی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ وہ ایک اردو نواز شخصیت بھی تھے۔ عام طور سے مدرسہ باب العلوم جعفر آباد میں ان سے بغرض اشتیاق ملاقات کے لئے حاضری پر چاہت کی چائے کے ساتھ اردو کے سبھی روزنامہ اخبارات دیکھنے کو ملتے تھے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین میموریل سینئر سیکنڈری اسکول کے سابق پرنسپل اور ماہر تعلیم ڈاکٹر معروف خان نے کہا کہ آج ہم سب کے درمیان ایسا شخص نہیں رہا جس نے ہمیشہ قوم کی خدمت کی۔ ان کے والد مرحوم مولانا ظفر الدین کے بعد مدرسہ کی کمان مرحوم مولانا داؤد امینی نے سنبھالی اور جب تک وہ حیات رہے انہوں نے مدرسہ اور تعلیم کو لے کر خوب کام کیا، جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا ہمیشہ قوم و ملت کے لئے فکر مند رہتے تھے۔ ملاقات کے دوران وہ مختلف امور پر تبادلہ خیال اور مستقبل کو لے کر تفصیلی بات چیت کیا کرتے تھے۔ وہ ایک خوش اخلاق انسان تھے، ہر کس و ناکس سے محبت سے پیش آنا اور آئے ہوئے مہمان کی مزاج پرسی کرنا یہ سب ان کی عادت میں شمار تھا۔ جعفرآباد جیسے گھنی آبادی والے علاقے میں، جہاں تعلیم کے تئیں بیداری لانا، بالخصوص دینی تعلیم کو لے کر جدوجہد کرنا اپنے آپ میں ایک بڑا کام ہے۔ مولانا اس کام میں ہمیشہ مصروف نظر آتے تھے۔ انہوں نے مدرسہ میں مقیم بچوں کے علاوہ محلے کے بچوں کو دینی و عصری تعلیم کی طرف مائل کرنے میں بڑی محنت کی ہے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے آمین۔
عام آدمی پارٹی لیڈر ندیم احمد اور کانگریس لیڈر ببو ملک نے مشترکہ طور پر کہا کہ آج علاقے کی اہم شخصیت نے ہمیں الوادع کہہ دیا، جس کی بھرپائی کبھی نہیں ہو سکتی۔ مولانا داؤد امینی دہلی کی فعال شخصیتوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ وہ دینی تعلیمی بورڈ جمعیۃ علماء صوبہ دہلی اور رابطہ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند کے بھی صدر تھے۔ ان کا تعلق متعدد ملی، سماجی اور تعلیمی تحریکات سے رہا، بالخصوص 2020 کے دہلی فسادات کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے متاثرین کی بازآبادکاری میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ انھوں نے فساد زدہ مساجد کی باز آبادکاری میں بڑھ چڑھ کر محنت کی اور اول وقت میں ضرورت مندوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
ماسٹر ارشد چودھری نے نم آنکھوں سے کہا کہ مولانا داؤد امینی مشہور عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قوم و ملت کے سچے خادم تھے۔ مختلف پروگراموں میں ان سے ملاقات ہوا کرتی تھی اور وہ ہمیشہ بچوں کی تعلیم اور ان کے روشن مستقبل کیلئے فکر مند رہتے تھے۔ ان کا یوں چلے جانا بہت بڑا نقصان ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔