جب ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ساتھ زیادہ تر یورپی ممالک اور امریکا کا نیوکنزرویٹو طبقہ یہ امید کررہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ولادیمیر پیوٹن کا الاسکا سربراہی اجلاس ناکامی کا شکار ہوجائے تب بھارت کھلے عام اس کی کامیابی کی امید ظاہر کررہا تھا۔
اگرچہ بھارت کی سوچ غلط نہیں تھی لیکن ان کے دلائل کسی حد تک خود پرست تھے۔ اگر دونوں رہنماؤں کی ملاقات مثبت نقطے پر ختم ہوئی تو متفرق بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت کی جانب سے روسی تیل خریدنے پر برہمی ختم ہوجاتی۔ یعنی پیوٹن نئی دہلی کے لیے نجات کا ذریعہ بن سکتے تھے۔
دعاؤں اور امید پر چلنے والی مودی کی خارجہ پالیسی کی مثال کھیلوں کے عالمی مقابلے میں حصہ لینے والی اس ٹیم کی طرح ہے جو شکست کے بعد باہر ہونے والی ہوتی ہے لیکن اس امید سے کیلکولیٹر نکال کر حساب لگانا شروع کردیتی ہے کہ اگر فلاں ٹیم کو دوسری ٹیم ہرا دے تو ٹورنامنٹ میں ہماری واپسی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ٹرمپ کی جانب سے روسی تیل کی خریداری پر ناراضی سے چین بھی متاثر ہے۔ لیکن چین کی کمیونسٹ پارٹی کی سرپرستی میں چلنے والے گلوبل ٹائمز کی شہ سرخیوں میں بیجنگ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی اور امریکا-روس مذاکرات کے نتائج کے بارے میں زیادہ جذبات کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اخبار گلوبل ٹائمز نے صرف یہ بتایا کہ ’ٹرمپ اور پیوٹن نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا‘۔
اور یہ کم و بیش وہی ہے جو ہم جانتے ہیں۔ اور بھی بہت کچھ قیاس آرائی پر مبنی ہے۔ یہ واضح ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی اکثر مستقبل کے واقعات پر انحصار کرتی ہے جن پر بھارت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ اس سے بہت مختلف ہے جیسے چیزیں پہلے ہوا کرتی تھیں۔ ماضی اور حال کے درمیان اب ایک اہم تبدیلی ابھر کر سامنے آئی ہے۔
اندرا گاندھی نے فوجی اور اقتصادی کمزوریوں کو ختم کرنے کے لیے سوویت یونین کی مدد لی۔ اس کے باوجود جب اتحادی نے افغانستان پر حملہ کیا تو انہوں نے ماسکو کی مذمت کی۔ جواہرلال نہرو کے برطانیہ کے ساتھ بہترین تعلقات تھے اور یہاں تک کہ انہوں نے بھارت کو دولت مشترکہ کا رکن بنا دیا جس کی وجہ سے ان کے بائیں بازو کے حامیوں کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک شاعر مجروح سلطان پوری کو نہرو کے فیصلے کے خلاف تنقیدی نظم لکھنے پر جیل بھیجا گیا تھا جہاں جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے ہٹ فلم ’انداز‘ کے لیے مشہور گانے لکھے۔ لیکن دولت مشترکہ کی رکنیت کے باوجود نہرو نے ایشیا اور افریقہ میں نوآبادیاتی مخالف تحریکوں کی حمایت کی جس کی وجہ گلوبل ساؤتھ میں مختلف ممالک سے ان کے دیرپا دوستانہ تعلقات رہے۔
نہرو نے نوآبادیات کے بعد ایک اہم ملک کے طور پر چین کے عروج کی حمایت کی لیکن انہیں کچھ مورخین اور نقشہ سازوں نے تبت کے ان حصوں کا دعویٰ کرنے میں گمراہ کیا جسے چین نے برطانوی دور میں بھی قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ نہرو کو اپنے فیصلے کی قیمت چکانا پڑی اور ان کے فیصلے نے مسائل کو جنم دیا جبکہ یہ اس وقت تک جاری رہے کہ جب تک ان کے نواسے نے 1988ء میں چین کا دورہ کرکے ڈینگ ژیاؤپنگ سے مصافحہ نہیں کیا۔
حتیٰ کہ اٹل بہاری واجپائی نے بھی بھارت کے ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کرکے بہتر یا بدتر عوامل کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ انہوں نے بل کلنٹن کو یہ بتا کر غلطی کی تھی کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا مقصد چین کو نشانہ بنانا ہے۔ سب نے وہ کیا جو انہیں اپنے ملک کے لیے ٹھیک لگا لیکن نریندر مودی کے لیے یہ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ امریکا کو خوش کرنے کے لیے جو کچھ کرسکتے تھے انہوں نے کیا جب تک کہ ٹرمپ نے ان کے جوش کی آگ کو پانی ڈال کر بجھا نہیں دیا۔
اور ہاں اندرا گاندھی نے پاکستان کے خلاف فیصلہ کُن جنگ چھیڑی تھی لیکن انہوں نے کبھی پاکستانی عوام سے نفرت نہیں کی۔ انہوں نے شملہ میں ذوالفقار علی بھٹو سے تاریخ ساز ملاقات کی۔ اسی طرح راجیو گاندھی اور بے نظیر بھٹو کی بھی پاکستان میں شاندار ملاقات ہوئی۔ اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ تو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے قریب آ چکے تھے اور سب سے بڑھ کر ایسا کسی بیرونی ثالث کی مداخلت کے بجائے لوگوں کی حمایت اور مدد سے ممکن ہورہا تھا۔
آج کے بھارت کی کیلکولیٹر پر حساب لگانے کی خارجہ پالیسی میں یہی کمی ہے۔ لوگوں سے بات چیت سے زیادہ حساب پر توجہ ہے پھر مسئلہ پاکستان کا ہو، بنگلہ دیش کا یا پھر سری لنکا کا۔ بھارتی فوج کو پاکستانی فوج سے مسئلہ ہے۔ لیکن یہ پاکستانی عوام ہی ہیں جنہوں نے بہت سے فوجی یا سویلین آمروں کو راستہ دکھایا۔
مودی تو خیر دونوں ممالک کی عوام کو خاطر میں نہیں لاتے۔ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار فیض احمد فیض کی بیٹیوں کو ویزا دینے سے انکار کیا گیا۔ اب مودی نے ملک کو دشمنوں کے حملوں سے بچانے کے لیے آئرن ڈوم نما پروجیکٹ کا اعلان کیا ہے۔ بہت سے لوگ اسے ایک فضول خیال کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ حال ہی میں ایران نے سخت دفاعی نظام رکھنے والے اسرائیل پر کامیاب حملے کیے تھے۔
سفارتکاری کا سادہ، کم لاگت والا خیال پیش کرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ ریاستی حمایت یافتہ گروہوں کے خلاف کیوں نہ عوام کو ناگزیر اچھے تعلقات استوار کرنے میں پہل کرنے دی جائے اور پھر دیکھیں کہ کیسے دہشتگردی کا ناسور مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔
آج کی خارجہ پالیسی کی بہت سی ترجیحات مودی کے ہندوتوا نظریے پر پختہ یقین سے جڑی ہیں۔ لیکن زیادہ واضح طور پر یہ ہندوتوا کے ساتھ بڑے کاروباری مفادات کو جوڑنے اور اسے ’قومی مفاد‘ کہنے کے بارے میں ہے۔ وسیع پیمانے پر بدعنوانی کے علاوہ اس نقطہ نظر نے بہت کچھ حاصل نہیں کیا ہے جیسا کہ امریکا میں ایک بڑے بھارتی کاروباری تاجر پر فوجداری مقدمہ چلنا مثال ہے۔
بیوروکریسی بھی بھارت کا نام خراب کرنے میں اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ وہ اکثر ریاستی پالیسیز کی وجہ سے ہونے والے سماجی نقصان کو نظرانداز کرتے ہیں اور اپنی سہولت یا ذاتی تعصب کی بنیاد پر ’قومی مفاد‘ کی تشریح کرتے ہیں جس کا اب مغرب کی طرف زیادہ جھکاؤ نظر آتا ہے۔ مودی کے حد سے زیادہ ڈرامائی میڈیا کو پہلے ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے، جس نے پاکستان کے ساتھ حالیہ فوجی تصادم کی انتہائی ناقص رپورٹنگ کی۔ لیکن موجودہ اور سابق معزز سفارتکاروں کا کیا ہوگا؟
پاکستان کے ایک سابق ہائی کمشنر نے تو یہاں تک مشورہ دیا کہ بھارت کو پاکستان میں وقتاً فوقتاً صفائی کرنی چاہیے۔ یہ تصور اسرائیل کی طرف سے غزہ پر حملوں اور اکتوبر 2023ء کے واقعات سے پہلے فلسطینیوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ واقعی ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کی صفائی کریں گے؟
بھارت پہلے ہی معاشی پریشانیوں کا سامنا کررہا ہے جن میں سے زیادہ تر تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہے۔ جب 1990ء میں قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں اور سوویت یونین بھی ختم ہو گیا تو بھارت نے سونے کے ذخائر کا استعمال کرکے خود کو ڈیفالٹ سے بچایا تھا۔ لوگوں نے اسے قبول کیا۔ وی پی سنگھ وزیر اعظم تھے جب تیل کا بحران شروع ہوا تھا۔ انہوں نے پٹرول راشننگ کا اعلان کیا اور لوگ سمجھ گئے۔ ہاں تک کہ کار کے استعمال کے اصول بھی تھے اور عوام نے اس پر بھی سمجھوتہ کیا۔
لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ روسی تیل کو صاف کرنے اور اسے یورپ فروخت کرنے والے کچھ بڑے کاروباروں کے منافع اور مفادات کے تحفظ پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ بھارت کے نقطہ نظر سے، حالیہ الاسکا سربراہی اجلاس جوہری تباہی کو روکنے کے بجائے روسی تیل کے بارے میں زیادہ تھا جوکہ افسوسناک بات ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔