مودی کا جانشین او ر حکمران بی جے پی کا اگلا صدر کون؟

AhmadJunaidJ&K News urduJuly 23, 2025360 Views


 سنگھ کو لگتا ہے کہ مودی کے بعد ایک تو اقتدار کی کشمکش  امت شاہ اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان ہوگی، دوسری طرف کسی سنجیدہ طاقتورلیڈرشپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس کی کانگریس سے بھی بری حالت ہو جائےگی،جس کا سد باب کرنا ضروری ہے۔

نریندر مودی کے ساتھ یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

ویسے تو خواتین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنی عمرچھپاتی ہیں، مگر 2014کے بعد سے جب سے ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں،اکثر  وزیروں  و حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے عہدیداران نے اپنا جنم دن منانا ہی چھوڑ دیا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2015 میں محکمہ اقلیتی امور کی مرکزی وزیر نجمہ اکبر علی ہپت اللہ کے مداحین خاصے حیران و پریشان تھےکہ 13اپریل جب ان کا 75واں جنم دن تھا، انہوں نے نہ صرف اپنا فون بند رکھا ہوا تھا، بلکہ سوشل میڈیا سے بھی غیر حاضر تھیں۔

وجہ تھی کہ وہ اپنے 75ویں جنم دن کی تشہیر نہیں چاہتی تھیں، تاکہ کوئی ان کو مبارکباد نہ دے اور مودی ان کو عہدہ چھوڑنے کی ہدایت نہ دیں۔ خیراس تگ و دو سے ایک سال مزید وہ وزیر رہی اور پھر ان کو منی پور کا گورنر متعین کرکے سیاست سے ریٹائرڈ کر دیا گیا۔

 اس معیار کی رو سے مودی نے آتے ہی پارٹی کے بزرگ لیڈروں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، سمترا مہاجن اور دیگر کئی لیڈروں کو سیاست سے ریٹائرڈ ہونے پر مجبور کر دیا۔

مگر عمر کی جو حد  مودی نے اپنے وزیروں و پارٹی کے عہدیدارو ں کی ریٹائرمنٹ کے لیے مقرر کی، وہی اب ان کے لیےدردسر بن رہی ہے، کیونکہ وہ ستمبر میں خود 75برس کے ہو جائیں گے۔

اسی ماہ بی جے پی کی مربی تنظیم ہندو قوم پرست راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت بھی 75برس کے ہو جائیں گے۔ انہوں نے حال ہی میں ستمبر میں اپنا عہدہ چھوڑنے کا عندیہ دے دیا اور مودی کا نام لیے بغیر سیاستدانوں کو عہدے خالی کرنے اور نوجوان قیادت کو آگے لانے کا مشور ہ دیا۔

پارٹی کے ہی ایک لیڈر سبرامنیم سوامی کا کہنا ہے کہ جب مودی نے اڈوانی کو ٹھکانے لگانے کے لیے عمر کی حد مقر ر کی تھی تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ کہ وہ گیارہ سال تک برسراقتدار رہیں گے۔

دہلی کی پاور گلیاروں میں آجکل خبریں گشت کر رہی ہیں کہ پارلیامنٹ کے مون سون اجلاس، جو ابھی 21جولائی کو شرو ع ہوا ہے،کے دوران مودی کچھ اہم اعلان کرنے والے ہیں۔ اس اجلاس کے پہلے ہی دن نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ سے زبردستی کا استعفیٰ لےکر مودی نے حیران تو کردیا، مگر سوال ہے کیا ابھی کوئی اور بڑا سسپنس باقی ہے۔

مودی کے  کے کام کاج کا طریقہ ہی سسپنس رکھنے کا ہوتا ہے۔اس لیے ان کے کسی اعلان کے بارے میں قیاس آرائی کرنا خود کشی کے مترادف ہوتا ہے۔

ان کے دور میں صدر کا انتخاب ہو، یا صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی تقرری، لگتا ہے کہ وہ میڈیا کی قیاس آرائیوں کے مزے لیتے ہیں اور پھر کسی ایسے شخص کاانتخاب کرتے ہیں، جس کی طرف میڈیا کی یا ان کے اپنے پارٹی لیڈروں کی توجہ ہی نہ گئی ہو۔

جب 2017میں صدراتی انتخابات کے لیے حکمران اتحاد کی طرف سے رام ناتھ کووند کا نام پیش ہوا، دہلی کا پورا میڈیا انگشت بدنداں تھا۔ اسی طرح ہریانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش اور دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا تقرر بھی ایسا ہی تھا۔ ایسے چہرے سامنے لائے گئے، جن کے بارے میں برسوں سے بی جے پی کو کور کرنے والے صحافیوں تک کو گمان نہیں تھا۔

 میڈیا کی خبر غلط ہونے سے شاید ان کی انا کی تسکین ہوتی ہے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل بطور پارٹی جنرل سکریٹری  وہ ایک بار جموں و کشمیر کے انچارج تھے اور اشوکا روڑ پر پارٹی صدر دفتر کے احاطے میں ہی ایک کمرے میں ان کی رہائش تھی۔

میں کشمیر ٹائمز کے دہلی بیور و میں کام کرتا تھا، اور یہ جموں و کشمیر کا واحد اخبار تھا، جس کا دفتر دہلی میں تھا۔ دوپہر پارٹی کے قومی ترجمان کی بریفنگ ختم ہونے کے بعد، کشمیر کی خبر لینے کے لیے ان کے کمرے پر دستک دیتا تھا۔

جب ان کو جموں و کشمیر کا دورہ کرنا ہوتا تھا، تو پروگرام سے آگاہ کرتے تھے،تاکہ اس کی خبر بن سکے اور ان کے ورکرز وغیرہ ان کے دورہ کے لیے تیار رہیں۔مگر اکثر ان کا پروگرام جو وہ خود ہی لکھواتے تھے  اور چھپ چکا ہوتا تھا، اس کے برعکس یا کم سے کم اس سے میل نہیں کھاتا تھا۔

میرا گمان تھا کہ شاید سکیورٹی کی وجہ سے وہ پروگرام قطعی نہیں رکھتے ہیں، مگر بعد میں ادراک ہوا کہ میڈیا کی خبر غلط ہونے کا وہ آنند لیتے ہیں او ر ان کو ایک سکون سا آتا ہے۔

سال 2016میں اپنی حکومت کے دوسال مکمل ہونے کے بعد ان کی کابینہ میں خاصا ردو بدل ہو رہا تھا۔ چونکہ اس وقت پرنب مکھرجی صدر تھے، ان کے دفتر سے معلوم ہو گیا تھا کہ نئے چہرے شامل کیے جار ہے ہیں اور کئی وزیروں کی چھٹی ہو رہی ہے۔

اس سے ایک روز قبل  آنجہانی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اپنے گھر پر ایڈیٹروں کے ساتھ ڈنر پر وزیر اعظم کی غیر رسمی ملاقات کا اہتمام کیا  ہوا تھا۔ ہمارے دفتر سے سیاسی امور کی ایڈیٹر جو برسوں سے بی جے پی کور کر رہی تھی، اس ڈنر میں شریک  ہوئی تھی۔

رات کو نیوز روم میں فرنٹ پیج فائنل کرکے ظاہر ہے کہ کابینہ رد و بدل کو پہلی لیڈ بنایا ہوا تھا، کہ میری کولیگ کا فون آیا کہ مودی نے کسی بھی پھیر بد ل سے منع کردیا ہے۔ چونکہ وزیر اعظم نے خود منع کر دیا ہے، اس لیے اس خبر کو اب ہٹانا پڑے گا۔

میں نے جواب دیا کہ جتنا میں مودی کو جانتا ہوں، یہ پھیر بدل ہو کر رہے گا۔خیر وہ بضد رہی اور اس نے چیف  ایڈیٹر سے بھی بات کی۔ چونکہ میں بھی بضد رہا، اس لیے طے ہوا کہ خبر فرسٹ لیڈ کے بجائے تیسری سرخی کے بطور شائع کروائی جائے اور اس سے بائی لائن ہٹادی جائے۔

یہی صورتحال اس رات دیگر اخبارات کے نیوز رومز میں بھی پیش آرہی تھی۔ دی ہندو کی ایڈیٹر جو چنئی سے اس میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے آگئی تھی، جب رات گئے اپنے دہلی آفس پہنچی، اور دیکھا کہ کابینہ کی پھیر بدل کی خبر بطور فرسٹ لیڈ جارہی ہے، اس نے نیوز ایڈیٹر اور رپورٹر کو سخت سست کہا اور بتا یا کہ خود وزیر اعظم نے ڈنر کے دوران اس کی تردید کی ہے۔

اس نے اس خبر کو ہی ہٹوادیا۔ دیگر اخبارات نے اس خبر کو صفحہ اول سے نکال کر اندر کے صفحات پر ڈال دیا۔ خیر اگلے روز جب صدارتی محل میں حلف برداری کی تقریب ہو رہی تھی، معلوم ہو اکہ 19نئے وزراء کو شامل کیا گیا  اور چار کی تنزلی کی گئی، جس میں اسمرتی ایرانی بھی شامل تھی۔ نجمہ ہبت اللہ سمیت پانچ وزیروں کی چھٹی کر دی گئی۔

ہمارا واحد اخبار تھا، جس نے اس خبر کو صفحہ اول پر ہی رکھا تھا۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں، جس کے بعد مودی کے کسی بھی فیصلہ کے حوالے سے قیاس آرائی کرنا صحافتی خود کشی کے مترادف قرار دیا گیا۔

خیر ابھی ستمبر سے قبل حکمران بی جے پی کو اپنا قومی صدر بھی منتخب کرنا ہے۔ موجودہ صدر جگت پرساد نڈا کی مدت کب کی ختم ہو چکی ہے۔  اس سے قبل مودی اور امت شاہ اپنی پسند کے کسی پارٹی کارکن کو صدر منتخب کرواتے تھے۔

بھلا ہو حال میں برپا ہوئی ہندوستان-پاکستان جنگ کا کہ مودی کی پکڑ ڈھیلی پڑ گئی ہے، جس کی وجہ سے پارٹی صدر کا انتخاب ان کے لیےٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا ہے۔

 دی وائر میں تجزیہ کار سنجے جھا لکھتے ہیں کہ وہ دن اب بیت چکے ہیں جب نریندر مودی کا حکم حرفِ آخر سمجھا جاتا تھا۔ ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس مودی اور امت شاہ کی دو رکنی بالادستی کو مزید برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بی جے پی کا نیا صدر کوئی ایسا شخص ہو جو مودی اور شاہ کی آنکھ میں آنکھ ملاکر بات کرسکے۔

یہی کشمکش اس تقرری میں تاخیر کا سبب بنی  ہوئی ہے۔یہ ٹکراؤ اس قدر شدید ہے کہ آر ایس ایس نے حال ہی میں مودی کے انتہائی مخالف  سنجے جوشی کو بی جے پی کے صدر کے عہدے پر فائز کرنے کی تجویز دے دی۔ جوشی، جو نہایت باوقار شخصیت کے حامل ہیں کو  ایک جعلی جنسی ویڈیو کی بنیاد پر پارٹی سے بے دخل کردیا گیا ہے۔

جوشی نے خاموشی سے یہ بدنامی برداشت کی، ہمیشہ آر ایس ایس کے وفادار رہے اور کبھی پلٹ کر وار نہیں کیا۔ اب موہن بھاگوت جانے سے قبل ان کی عزتِ رفتہ کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ان کا نام مودی اور شاہ کو کسی طور قبول نہیں ہوگا، مگر آر ایس ایس کی طرف سے ان کا نام آنا ہی مودی اور شاہ کے غلبے پر عدمِ اعتماد کا کھلا اظہار ہے۔

ذرائع کے مطابق، پارٹی کی مرکزی قیادت نے مودی کی ایما پر اس ماہ کے آغاز میں وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان اور ماحولیاتی وزیر بھوپیندر یادو کے نام آرایس ایس کی لیڈرشپ کو بھیجے تھے۔ مگر آر ایس ایس نے تاحال ان دونوں میں سے کسی نام کو منظوری نہیں دی ہے۔

سنگھ کا اصرار ہے کہ بی جے پی کا نیا صدر ایک ‘طاقتور تنظیمی لیڈر’ ہو، نہ کہ وزیرِ اعظم مودی اور وزیرِ داخلہ شاہ کا محض ایک مہرہ ہو۔پچھلے ہفتے سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے تجویز دی تھی کہ رہنماؤں کو ایک خاص عمر کے بعد باوقار طریقے سے سبکدوش ہو جانا چاہیے، جس سے یہ قیاس آرائیاں بڑھ گئیں کہ وہ مودی پر استعفیٰ کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

اندرونی ذرائع کے مطابق، آر ایس ایس چاہتا ہے کہ بی جے پی کو 2029 کے بعد کے دور کے لیے تیار کیا جائے، جب غالب امکان ہے کہ ‘برانڈ مودی’ موجود نہیں ہوگا۔

بی جے پی کو 2029 کے بعد کے لیے تیار کرنے کی ذمہ داری نئے پارٹی صدر کے کندھوں پر ہوگی، اسی لیے یہ انتخاب بے حد اہم ہے۔چونکہ راجیوگاندھی کے زمانے میں کانگریس نے لیڈرشپ کی تیاری کے معاملہ کو سنجیدگی  کے ساتھ نہیں لیا، اس لیے نوے کی دہائی کے بعد وہ کبھی اپنے بل بوتے پر برسراقتدار نہیں آپائی۔

 سنگھ کو لگتا ہے کہ مودی کے بعد ایک تو اقتدار کی کشمکش  امت شاہ اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان ہوگی، دوسری طرف کسی سنجیدہ طاقتورلیڈرشپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس کی کانگریس سے بھی بری حالت ہو جائےگی،جس کا سد باب کرنا ضروری ہے۔

شاہ، جو موجودہ حکومت میں دوسرے نمبر پر سمجھے جاتے ہیں، بی جے پی کے عملی صدر بھی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف تنظیمی معاملات بلکہ وزرائے اعلیٰ اور وزرا کے انتخاب میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

سنگھ کی قیادت چاہتی ہے کہ نیا بی جے پی صدر پارٹی کو مودی-شاہ کی بے لگام گرفت سے آزاد کرا کے، نوجوان قیادت کو آگے لائے تاکہ بعد از مودی دور کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔

ذرائع کے مطابق آر ایس ایس کو یہ بھی گوارہ نہیں کہ یوگی آدتیہ ناتھ، جو جارحانہ ہندوتوا کے چہرہ سمجھے جاتے ہیں، مودی کے جانشین بنیں۔ وہ نہ تو آر ایس ایس کی پرورش یافتہ قیادت سے ہیں اور نہ ہی وہ کسی کے ماتحت کام کرنے پر راضی ہو جاں گے۔ وہ مودی کی ہی طرح آر ایس ایس کے لیے درد سر ثابت ہو سکتے ہیں۔

اتر پردیش میں بھی بی جے پی کے نئے صدر کا انتخاب شاہ اور یوگی کی شخصی کشمکش کا شکار ہے۔شاہ یوگی کے مخالفین کو ریاستی صدر بنوانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ریاست میں دھڑے بندی اتنی شدید ہے کہ اب تک تمام ضلع صدور بھی مقرر نہیں ہو سکے۔

گزشتہ عام انتخابات میں اتر پردیش میں شکست—جہاں بی جے پی صرف 80 میں سے 33 نشستیں جیت سکی—ہی دراصل لوک سبھا میں اکثریت سے محرومی کی بنیادی وجہ تھی۔

دیکھا گیا ہے کہ سیاست میں جب لوگ اوپر پہنچ جاتے ہیں، وہ پھر اپنی جگہ چھوڑتے نہیں۔ مثال کے طور پر، لالو پرساد نے نوجوانی میں مقبولیت حاصل کی، 1990 میں 42 برس کی عمر میں بہار کے وزیرِ اعلیٰ بنے۔ لیکن وہ راشٹریہ جنتا دل کے صدر کے عہدے پر جمے رہے۔ یوپی میں، اکھلیش یادو کو بھی پارٹی کی باگ ڈور حاصل کرنے کے لیے اپنے والد، ملائم سنگھ یادو سے لڑنا پڑا۔

تجزیہ کار راہُل ورما کے مطابق  دنیا بھر میں ایک فیصد سے بھی کم منتخب نمائندے 35 سال سے کم عمر کے ہوتے ہیں۔ہندوستان میں تو یہ مسئلہ اور زیادہ گہرا ہے۔ 1952 کی پہلی لوک سبھا سے لے کر 2024 کی حالیہ لوک سبھا تک،  اراکین پارلیامنٹ کی اوسط عمر بڑھتی گئی ہے۔ 35 سال سے کم عمر کے اراکین کی تعداد کم ہوئی ہے، جبکہ 60 سال سے زیادہ عمر والے اراکین کی تعداد بڑھی ہے۔

آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ بھاگوت نے اپنی مدت کے دوران تنظیم میں نوجوانوں کو اہم تنظیمی ذمے داریاں دی  ہوئی ہیں۔  انہوں نے رام مادھو کو محض 36 سال کی عمر میں تنظیم کا ترجمان بنا دیا تھا۔

اس وقت اس کے کئی ریاستی منتظمین 50 سال سے کم عمر کے ہیں اور قومی سطح پر بھی کئی لیڈران 60 سے کم عمر کے ہیں۔تنظم کے بانی کے بی ہیڈگوار اور اُن کے جانشین ایم ایس گولوالکر بالترتیب 51 اور 68 سال میں وفات پا گئے تھے۔ اگلے تین سربراہ، بالا صاحب دیورس، رجو بھیا، اور  کے سدرشن نے  بالترتیب 79، 78، اور 79 سال کی عمر میں عہدہ چھو ڑ دیا تھا۔

 اندرون خانہ بی جے پی میں پچھلے کئی سالوں سے گجرات لابی کی برتری کی وجہ سے رن پڑا ہوا ہے۔ مودی اور امت شاہ  دونوں گجرات سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کی وجہ سے مرکزی حکومت میں گجرات بیوروکریسی کا پورے طور پر قبضہ جما ہوا ہے۔ مودی نے ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کو رام کرنے کے لیے وارانسی سے انتخاب جیت کر اپنے آپ کو اسی صوبہ کے نمائندہ کے طور پر منوا تو لیا، مگر یہ شاید امت شاہ کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا۔ پچھلے کئی برسوں سے آدتیہ ناتھ نے سیاسی قد کے معاملے میں شاہ کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب آدتیہ ناتھ پہلی بار پارلیامنٹ میں آئے تھے، زعفرانی رنگ کے کپڑے پہنے وہ خاصے شرمیلے دکھائی دیتے تھے اور اکثر لالو پرساد یادو کے طنزیہ جملوں کا نشانہ بنتے تھے۔

یوگی آدتیہ ناتھ کا اصل نام اجئے سنگھ بشٹ ہے، اور وہ اتراکھنڈ صوبہ کے ایک راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد فارسٹ رینجر تھے۔ حساب میں گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے دنیا تیاگ کر گورکھ ناتھ مٹھ میں مہنت آوید ناتھ کی شاگردی اختیار کی۔ جس نے ان کو چند سال بعد ہی پجاریوں کا سربراہ بنا دیا۔

یہ عہدہ کسی برہمن کو ہی دیا جاتا ہے، مگر آخر آوید ناتھ نے اس نوجوان سنیاسی میں کیا دیکھ کر اس کی پذیرائی کی، ہنو ز ایک راز ہے۔

 مودی نے وزیرا عظم بننے کے بعد جس طرح اپنی پارٹی کے لیڈران کو کنارے لگادیا یا ان کی وقعت کم کردی، آدتیہ ناتھ واحد شخصیت ہیں، جو اس دوران اپناسیاسی قد بڑھانے اور حلقہ اثر وسیع کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

پچھلے کئی برسوں سے مودی اور امت شاہ کی جوڑی نے کئی وزراء اعلیٰ اور مرکزی وزیروں کو چھٹی کردی، مگر انتظامی ناکامی کے باوجود وہ یوگی کو ہاتھ نہیں لگا سکے۔

ایک اور چہرہ مرکزی وزیر  نیتن گڈکری بھی ہیں، جو نظریہ کے حوالے سے اٹل بہاری واجپائی کے جانشین سمجھے جاتے ہیں۔مودی کے جانشین کے بطور ان کے نام پر بھی قیاس آرائیاں ہو ہی رہی تھیں کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا۔ وہ چونکہ ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے وزیر ہیں، اس لیے حال میں گجرات میں پل گرنے کا ملبہ ان پر گرا یا گیا۔

خیر  ایک سیاسی تجزیہ کار کے مطابق آرایس ایس میں یہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ مودی سے جتنا کام لیا جاسکتا تھا وہ لیا جا چکا ہے۔پاکستان کے ساتھ جنگ میں اگر مودی نے کامیابی حاصل کی ہوتی، تو شاید آر ایس ایس ان کو ہاتھ لگانے کے لیے سوچ بھی نہیں سکتی، کیونکہ ابھی بھی ہندو تو ا کے پاس کوئی عوامی لیڈر موجود نہیں ہے۔ شاہ یا گڈکری کو بطور عوامی لیڈر پذیرائی نہیں مل پائے گی۔

اس لیے اس میں بس یوگی ہی بچتے ہیں، جو عوامی لیڈرا کا کردار نبھا سکتے ہیں۔مزید کہ ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں یوگی کا اپنا ہندو واہنی کا کیڈر قریہ قریہ میں پھیلا ہوا ہے۔

سال 2017کے اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے بعد تو مودی، جموں و کشمیر کے موجودہ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔ وہ حلف برداری سے قبل ایک ہیلی کاپٹر چارٹر کرکے اترا کھنڈ کے پہاڑوں میں اپنے آبائی مندر میں آشیر واد لینے بھی چلے گئے تھے۔ مگر واپسی پر ان کو معلوم ہوا کہ آرایس ایس نے قرعہ یوگی کے نام نکالا ہے۔

کئی تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ 2017 میں لگتا تھا کہ وزارت اعظمیٰ کی کرسی سنبھالنے سے قبل ان کو انتظامی امور کی تربیت کے لیے اتر پردیش کے وزارت اعلیٰ کا منصب سونپا گیا تھا۔

مگر اب بتایا جاتا ہے کہ ان کی خود پسندی کی وجہ سے آر ایس ایس ان کے کردار پر نظر ثانی کر رہی ہے۔ ان کا آرایس ایس کے کیڈر سے براہ راست وابستگی نہ رکھنا بھی ان کے لیے ایک منفی پوائنٹ ہے۔

آر ایس ایس اپنی ہی کھوکھ میں پلے کسی لیڈر کو ترجیح دے گی۔ یوگی بھی دوسری طرف اپنی سخت گیر ہندو انتہا پسند شبیہ کو کم کرنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ وہ بالکل مودی کے نقش قدم پر چل کر کارپوریٹ سیکٹر کو مراعات دے کر ان کی خوشنودی حاصل کرکے اور اپنی تقریروں میں اقلیتی طبقوں کو نشانہ بناکر اور قوم پرستی کا جنون پیدا کرکے ووٹ بٹورنے کا کام کر رہے ہیں۔

وہ کس حد تک کامیاب ہوں گے، دیکھنا باقی ہے۔ مودی کے دور میں قیاس آرائیاں کرنا یا اندازے لگانا بہت بھاری پڑتے  ہی، جس کا کوئی صحافی متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس لیے بس انتظار کیجئے اور دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...