سپریم کورٹ۔شیخ محمد علی عالم شیخ (درمیان میں)، جوممبئی ہائی کورٹ کی طرف سے 7/11 کے ممبئی ٹرین دھماکوں کے کیس میں بری کیے گئے افراد میں سے ایک ہیں۔ منگل 22 جولائی 2025 کو ممبئی ہوائی اڈے پر پہنچنے پر ان کے اہل خانہ اور دوست ان کا استقبال کر رہے ہیں۔ (تصویریں: فائل اور پی ٹی آئی)
ممبئی: ممبئی ہائی کورٹ کی جانب سے 11 جولائی 2006 کے ممبئی سلسلہ وار ٹرین دھماکوں کے معاملے میں قصوروار ٹھہرائے گئے تمام 12 لوگوں کو بری کیے جانے کے تین دن بعد سپریم کورٹ نے جمعرات، 24 جولائی کو فیصلے پر جزوی طور پر روک لگاتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو مہاراشٹر کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا) کے دیگر معاملوں میں مثال کے طور پر نہیں مانا جائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس نتیجے میں کوئی مداخلت نہیں کی ہے کہ یہ لوگ بے قصور ہیں۔
مہاراشٹر کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتہ کے دلائل کے بعد یہ حکم امتناعی جاری کیا گیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے کچھ حصوں کا اثرمکوکا کے دیگر زیر التواء معاملوں پر پڑے گا۔
ہائی کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنائے جانے کے فوراً بعد 21 جولائی کو 11 زندہ بچے مدعا علیہان (ایک ملزم کی موت 2021 میں جیل میں ہوئی تھی) کو رہا کر دیا گیا۔ فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئےمہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے کہا کہ یہ ‘حیران کن’ ہے اور ایک دن کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔
اپنی دلیل میں مہتہ نے جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس این کے سنگھ کی سپریم کورٹ بنچ سے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ مدعا علیہان کو واپس جیل بھیج دیا جائے، بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ فیصلے پر روک لگائی جائے۔
عدالت نے پہلے کہا کہ اس فیصلے کو دیگر معاملات میں ‘نظیر’ کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جب مہتہ نے فیصلے پر روک لگانے کے لیے مزید اصرار کیا تو جسٹس سندریش نے کہا، ‘فیصلہ اس حد تک روک لگائی جاتی ہے۔’
عدالت نے فیصلے میں کہا، ‘ہمیں مطلع کیا گیا ہے کہ تمام ملزمان کو رہا کر دیا گیا ہے اور انہیں واپس جیل بھیجنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم، قانونی سوال پر اسپیشل سالیسٹر جنرل (مہتہ) کے پیش کردہ دلائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہم یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ متنازعہ فیصلے کو نظیر کے طور پر نہیں مانا جائے گا۔ اس حد تک، متنازعہ فیصلے پر روک لگا ئی جاتی ہے۔’
یہ تمام افراد 19 سال کی طویل قید کے بعد بری ہوئے ہیں۔ 2015 میں خصوصی مکوکا عدالت نے سلسلہ وار ٹرین دھماکوں کے کیس میں 12 افراد کو ان کے مبینہ کردار کے لیے قصوروارٹھہرایا تھا۔ اس دھماکے میں 189 افراد ہلاک اور 400 سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے بری کیے گئے پانچ افراد میں سے کمال انصاری، محمد فیصل عطا الرحمان شیخ، احتشام قطب الدین صدیقی، نوید حسین خان اور آصف خان کو مکوکا عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔
مکوکا عدالت نے جن سات دیگر افراد کو عمر قید (موت تک) کی سزا سنائی تھی، ان کے نام ہیں- تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری، محمد ماجد محمد شفیع، شیخ محمد علی عالم شیخ، محمد ساجد مرغوب انصاری، مزمل عطا الرحمن شیخ، سہیل محمود شیخ اور ضمیر احمد لطیع الرحمن شیخ شامل ہیں۔ کمال انصاری کا انتقال 2021 میں ہوگیا تھا۔
عبدالواحد شیخ نامی شخص کو بھی 12 افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا اور بالآخر مکوکا عدالت نے نو سال قید کے بعد 2015 میں بری کر دیا تھا۔ ریاستی حکومت نے اس وقت ان کی رہائی کے خلاف اپیل دائر نہیں کی تھی۔
جمعرات کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کیا بری کیے جانے والوں میں سے کوئی پاکستانی شہری تھا۔ عدالت نے پوچھا ،’آپ نے اپنی اپیل میں ذکر کیا ہے کہ اس کیس میں پاکستانی ملزم بھی ہیں۔’
اس پر نچلی عدالت میں کیس کی سماعت کرنے والے خصوصی سرکاری وکیل راجہ ٹھاکرے نے کہا کہ پاکستانی شہریوں کو اس معاملے میں مفرور ملزم دکھایا گیا ہے اور بری کیے گئے تمام 12 افراد ہندوستانی تھے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)