علامتی تصویر۔(تصویر بہ شکریہ: بل کیر/فلکر، CC BY-SA 2.0)
سری نگر: جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے 25 کتابوں پر پابندی عائد کیے جانے کے ایک دن بعد سول سوسائٹی کارکنوں، اظہار رائے کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے والوں اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر نے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور یونین ٹیریٹری انتظامیہ سے پابندی ہٹانے کی اپیل کی۔
کتابوں پر پابندی عائد کرنےکے اقدام کو ‘اختلافات کو دبانے’، ‘آمریت’ اور ‘جمہوری آوازوں کا گلہ گھوٹنے’ سے تعبیر کرتے ہوئے مظاہرین نے بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ ریاست کی حیثیت کو بحال کرکے ‘جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکے۔’
تاہم، جموں و کشمیر پولیس نے جمعرات (7 اگست) کو دارالحکومت سری نگر سمیت وادی کے کئی حصوں میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مار کر پابندی عائد کی، یہ چھاپے ماری اس لیے تھی کہ کسی بھی ممنوعہ لٹریچر کی شناخت کرتے ہوئے اس کو ضبط کیا جا سکے ۔
انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ممنوعہ لٹریچر ‘جھوٹے بیانیے کا پروپیگنڈہ کرتا ہے، علیحدگی پسند نظریات کو فروغ دیتا ہے اور ہندوستان کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے خطرہ پیدا کرتاہے۔’
اس سلسلے میں سری نگر ضلع پولیس کے ایک ترجمان نے کہا،’یہ اقدامات تخریبی اور ملک دشمن مواد سے نمٹنے کی ایک جامع کوشش کے طور پر اٹھائے گئے ہیں، جو امن کو بگاڑ سکتے ہیں یا ملکی سالمیت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ تلاشی مہم پرامن طریقے سے چلائی گئی اور قانونی ضابطے کی پیروی کی گئی۔’
معلوم ہو کہ کتابوں کے حوالے سے پابندی کا یہ حکم نامہ منگل کو جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ نے جاری کیا تھا، جو براہ راست لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو رپورٹ کرتا ہے۔
‘کتابوں پر پابندی ہماری ثقافت اور جمہوریت کے تصور کے خلاف ہے‘
اس حوالے سے ڈیوڈ دیوداس، جن کی کتاب ‘ان سرچ آف اے فیوچر – دی سٹوری آف کشمیر’ ان ممنوعہ کتابوں کی فہرست میں شامل ہے، نے کہا کہ کتابوں پر پابندی لگانا ‘ہماری ثقافت اور جمہوریت کے تصور کے خلاف’ ہے۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا،’تاریخ نے بار بار دکھایا ہے کہ کتابوں کو جلانا اور اس پر پابندی عائد کرنا تہذیبوں کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتاہے۔’
دیوداس نے کہا کہ ان کی کتاب سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے امن اقدام اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تنازعات جاری رکھنے میں اپنے مفادات رکھنے والوں کو اس کتاب سے نفرت ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کے ایجنڈے کی حمایت کرنے والوں کے لیے یہ لعنت ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جن کتابوں نے حقیقت کو سامنے لانے کا کام کیا، تنازعات کے سازشی عناصر اور بیرونی طاقتوں کی حکمت عملی کو بے نقاب کیا اور امن کے لیے کردار ادا کیا، ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انتظامیہ کے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے فکرمند شہریوں کے ایک غیر رسمی گروپ، فورم فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ یہ فیصلہ’سینسر شپ کے ذریعے اختلاف رائے کو دبانے کی ایک اور مثال ہے’ جو کہ ‘پورے ہندوستان میں نظر آ رہا ہے اور جموں و کشمیر میں تو سب سے زیادہ اس وقت اس کا مشاہدہ کیا گیا، جب 2019 میں ریاست کو تقسیم کرکے یونین ٹیریٹری میں بدل دیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ کتابوں پر پابندی سے متعلق نوٹیفکیشن آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کی چھٹی سالگرہ پر جاری کیا گیا، جسے فورم جموں و کشمیر میں لوگوں کے حقوق کو مسلسل دبانے کے طور پر دیکھا جا رہاہے۔ تنظیم نے اس کے خلاف وارننگ بھی جاری کی ہے۔
ایک بیان میں فورم نے کہا، ‘یہ نوٹیفکیشن، جس کے بعد جموں و کشمیر میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپوں مارے جا چکے ہیں، اس بات کا اشارہ ہے کہ لوگوں پر جبر میں اضافے کا ہمارا خدشہ جائز ہے۔ ہمیں یہ بھی خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ضبط شدہ کتابوں کو اپنے پاس رکھنا بھی جرم تصور کیا جائے گا۔ پولیس کے چھاپے اور قابل اعتراض لٹریچر رکھنے کے دعووں کا پہلے سے ہی سخت یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ) اور پی ایس اے (پبلک سیفٹی ایکٹ) کے تحت الزام لگانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ نوٹیفکیشن اس بدعنوانی کو ادارہ جاتی بناتا ہے اور اسے واپس لیا جانا چاہیے۔’
‘یہ پابندیاں اظہار رائے کی آزادی پر ایک اور سفاک حملہ ہے‘
وہیں، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے اس پابندی کو اظہار رائے کی آزادی پر ایک اور سفاک حملہ قرار دیا ہے۔
ایک بیان میں پارٹی پولٹ بیورو نے لیفٹیننٹ گورنر سنہا پر الزام لگایا کہ وہ ‘بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کے نمائندے کے طور پر کام کر رہے ہیں’ اور’جارحانہ طور پر ہندوستانی آئین کے ذریعہ فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ‘کررہے ہیں۔
پارٹی نے ایک بیان میں کہا، ‘علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے بہانے، ان کی انتظامیہ نے کشمیر کی تاریخ اور اس کے موجودہ مسائل کی جڑوں پر روشنی ڈالنے والی 25 کتابوں پر پابندی لگا دی ہے۔سی پی آئی (ایم) ان کتابوں پر سے فوراً پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہے۔’
پارٹی نے جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ منتخب حکومت کو مکمل انتظامی اختیارات دیے جائیں۔ ایسے اقدامات سے ہی جموں و کشمیر کے لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
اس معاملے پر شہری حقوق کی کارکن اور فری اسپیچ کلیکٹو کی شریک بانی گیتا شیشو نے کہا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ سرکردہ ماہرین تعلیم، محقق اور صحافی کی کتابیں ہیں جو مبینہ طور پر کشمیر کے تنازعے کا ایک بامعنی تاریخی تجزیہ فراہم کرتی ہیں۔
شیشو نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا،’یہ مضحکہ خیزی ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ پولیس اسٹیشنری کی دکانوں اور اسکول کالجوں کی کتابوں کی دکانوں پر ماہرین تعلیم، محققین اور صحافیوں کی کتابوں کی تلاشی لے رہی ہے؟ جلد ہی تعلیم خود ایک ‘شدت پسند’ سرگرمی بن جائے گی۔ پروپیگنڈے کا بول بالا ہوگا۔’
‘پابندی نے جموں و کشمیر میں جمہوریت کی حالت اور اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں تشویش کو جنم دیا ہے‘
دوسری جانب حکمراں نیشنل کانفرنس (این سی) نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس پابندی سے جموں و کشمیر میں جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کے بارے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
این سی کے ترجمان عمران نبی ڈار نے کہا، ‘اگر اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کتابوں میں تشدد کو ہوا دی گئی ہے یا دہشت گردی کی بڑائی بیان کی گئی ہے، تو حکومت کی جانب سے ان پر پابندی لگانا جائز ہے۔ لیکن اے جی نورانی جیسے قابل احترام مصنفین کی گہری تحقیق شدہ اور تنقیدی تخلیقات پر پابندی لگانا سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے۔’
معلوم ہو کہ ممنوعہ کتابوں کی فہرست میں ہندوستانی آئینی ماہر اور دانشور اے جی نورانی کی مشہور کتاب ‘دی کشمیر ڈسپیوٹ’، برطانوی مصنفہ اور تاریخ دان وکٹوریہ شوفیلڈ کی ‘کشمیر ان کانفلیکٹ- انڈیا، پاکستان اینڈ دی انڈینڈنگ وار’، بکر پرائز یافتہ اروندھتی رائے کی ‘آزادی’ اور لندن کے سکول آف اکنامکس کے پروفیسر سمنتر بوس کی ‘کنٹسٹیڈ لینڈز’ شامل ہیں۔
مؤرخ وکٹوریہ شوفیلڈ نے ٹیلی گراف کو بتایا کہ محکمہ داخلہ کی طرف سے ان کی کتاب اور دیگر کتابوں پر ‘جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے’ اور ‘دہشت گردی کی بڑائی بیان کرنے’ کے الزامات ‘مکمل طور پر جھوٹے’ ہیں اور یہ پابندی ہندوستان میں جمہوریت کے لیے ‘سیاہ دن’ ہے ۔
انھوں نے لندن کے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا،’میرا ماننا ہے کہ ہندوستان کے لبرل ازم کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہ کتاب اتنے سالوں تک لوگوں کے درمیان رہی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تازہ ترین پیش رفت سے کتاب نہیں بلکہ اظہار رائے کی آزادی پر اثر پڑ رہا ہے، جو بتدریج ختم ہو رہی ہے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے حزب اختلاف کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رہنما واحد پارہ نے کہا کہ کتاب پر پابندی کو ‘تاریخ اور فکری تنوع کو مٹانے کے لیے نہ صرف آمرانہ کنٹرول کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، بلکہ یہ آنے والے وقت میں اور شدید جبر کی طرف بھی اشارہ ہے۔’
پارہ نے مزید کہا کہ یہ رجحان جرمنی کے معاملے میں واضح تھا۔ کشمیر میں جس طرح جمہوری آوازوں اور خیال، اظہار اور شخصی آزادی کی سب سے بنیادی آزادی کو دبایا جا رہا ہے، اس سے ناراضگی اور بیگانگی مزید گہری ہو گی۔ آئیڈیاز کا مقابلہ آئیڈیاز سے ہونا چاہیے، سنسر شپ سے نہیں۔ خیالات کو کبھی دبایا نہیں جا سکتا؛ آپ انہیں سنسر شپ کے ذریعے مزید متعلقہ بنا سکتے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔