سپریم کورٹ نے ہندوستانی فوج کی جج ایڈووکیٹ جنرل (جے اے جی) برانچ میں مردوں اور خواتین کے لیے الگ الگ سیٹیں ریزرو کرنے کی پالیسی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے منگل (12 اگست) کو اسے غیرقانونی قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ’’صنفی غیرجانبداری کا مطلب یہ ہے کہ اہل امیدواروں کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے نہ کہ صنف کی بنیاد پر۔‘‘
جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس منموہن کی بنچ نے کہا کہ ’’ایگزیکٹو مرودں کے لیے سیٹ ریزرو نہیں کر سکتا ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’مردوں کے لیے 6 اور خواتین کے لیے 3 سیٹیں ریزرو کرنا منمانی ہے اور بھرتی کی آڑ میں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔‘‘ سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ’’اگر خواتین امیدوار جے اے جی کے داخلہ امتحان میں مردوں سے زیادہ نمبر حاصل کرتی ہیں تو انہیں میرٹ کی بنیاد پر موقع دیا جانا چاہیے۔ بہتر کارکردگی کے باوجود انہیں 50 فیصد سیٹ تک محدود رکھنا مساوات کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
عدالت کے مطابق ایک بار فوج نے آرمی ایکٹ 1950 کی دفعہ 12 کے تحت خواتین کو کسی بھی برانچ میں شامل ہونے کی اجازت دے دی تو وہ ایگزیکٹو پالیسی کے ذریعہ ان کی تعداد پر مزید پابندی عائد نہیں کر سکتی۔ آرمی ایکٹ کی دفعہ 12 میں بھرتی یا ملازمت کے لیے خواتین کو نااہل قرار دینے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی خاتون باقاعدہ فوج میں بھرتی یا ملازمت کے کے لیے اہل نہیں ہوگی، سوائے ایسی کور، محکمہ، برانچ یا دیگر باڈی کے جو باقاعدہ فوج کا حصہ ہوں یا اس کے کسی حصہ سے منسلک ہوں، جنہیں مرکزی حکومت سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعہ اس سلسلے میں بتائے۔‘‘
اس فیصلے میں حکومت ہند کی قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں کے علاوہ اس آئینی انتظام کی بھی نشاندہی کر دی گئی ہے جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ خواتین کے ساتھ کسی بھی طرح کا کوئی امتیازی سلوک نہ ہو اور ایک زیادہ جامع معاشرہ کی تشکیل کر کے تمام شعبوں میں ان کی نمائندگی کو بڑھایا جا سکے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کہا کہ 31ویں شارٹ سروس کمیشن جے اے جی کورس میں مردوں کے لیے صرف 6 اور خواتین کے لیے صرف 3 سیٹیں ریزرو کرنے کے متعلق موجودہ نوٹیفکیشن آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 16 کے علاوہ آرمی ایکٹ کی دفعہ 12 کی بھی خلاف ورزی ہے۔
آرٹیکل 14، 15 اور 16 مساوات کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ بنچ نے کہا کہ ایگزیکٹو کسی پالیسی یا انتظامی ہدایت کے ذریعہ داخلے کی حد کی آڑ میں ان کی (خواتین) کی تعداد کو محدود نہیں کر سکتی یا مرد افسران کے لیے ریزرویشن فراہم نہیں کر سکتی۔ ساتھ ہی بنچ نے اس سوال پر غور و خوض کے دوران یہ حکم دیا کہ کیا فوج کسی پالیسی یا انتظامی ہدایات کے ذریعہ کسی خاص برانچ میں خواتین کی بھرتی کے دوران خواتین امیدواروں کی تعداد کو محدود کرتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔