’مجھے یقین ہے نفرت کا انجام محبت ہوگا‘

AhmadJunaidJ&K News urduAugust 10, 2025362 Views


میں اپنے عہد کے مسائل سے آنکھیں ملاکر بات کرتا ہوں۔ ان مسائل میں محبت بھی ہے اور نفرت بھی۔ مجھے یقین ہے کہ نفرت کا انجام محبت ہوگا۔ ہاں، موجودہ سیاست میں سچ بولنے والوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ مذہب کے نام پر مثبت سروکاروں کو رسوا کیا جارہا ہے۔ بھیڑ کسی کو بھی اپنا نوالہ بنالیتی ہے۔ اقلیت ہونا جیسے گالی ہو۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے نئی نسل کے شاعر اور تخلیق کار معید رشیدی  کو۔

میں اب تنقید نہیں لکھتا۔ شاعری ہی اوڑھنا بچھونا ہے۔

اپنے بارے میں لکھنا ، زخموں کو کریدنے سے کم نہیں۔ کھٹی میٹھی یادوں کے سلسلۂ جانکاہ میں اپنی رسوائی ، کم مائگی، محرومی، اور ایسے مقامات ِ آہ و فغاں بھی ہیں جہاں رکنا، اور رک کر سوچنا، اپنی مسلسل شکست کو تسلیم کرنا ہے۔ وہ اور ہی مٹی سے بنے ہوتے ہیں جو یادوں کا جشن مناتے ہیں۔

پرانے زخم کرید کر ان کی تعبیر بیان کرنے بیٹھا ہوں۔ تعبیر بھی وہ جو آج تک زنجیر کی قید سے آزاد نہیں ہوپائی۔ میں ذلت کی جمالیات تو نہیں لکھ سکتا۔ پھر بھی نوک ِقلم خون میں ڈوب کر آمادۂ تحریر ہے۔

یہ خون صرف میرا نہیں ، ان تمام انسانوں کا ہے جنھیں دنیا نے تماشا بنارکھا ہے۔

میں کلکتے کی گھنی آبادی والےمضافاتی علاقے کانکی نارہ میں پیدا ہوا۔ کلکتے کے مضافات جوٹ (گولڈن فائبر) کی انڈسٹری کےلیے جانے جاتے ہیں۔ یہاں مشرقی یوپی اور بہار سے لوگ  آکر کارخانوں میں مزدوری کرتے ہیں۔

لوکل ٹرین یہاں کی لائف لائن ہے۔دفتری اوقات میں بھیڑ ایسی ہوتی ہے  کہ تل دھرنے کوجگہ نہ ملے۔ہر دس پندرہ منٹ کے وقفے سے ایک ٹرین مل جائے گی جو آپ کو 50 منٹ میں سیالدہ پہنچا دے گی۔ یہ محض ٹرانسپورٹیشن کا ذریعہ نہیں بلکہ طرزِ حیات ہے۔ مسرت، صبر، اسٹرگل اور فرسٹریشن کا وہ دھارا ہے جس میں سب کو اپنی اپنی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

میرا خاندان یہاں دوسوبرس سے آباد ہے۔میرے دادا (سید محمد جان) یہاں جید حکیم تھے۔ میرے والد صوفی منش قلندر صفت انسان ہیں۔ والدہ پیکرِ صبر و وفا۔ زمانے کے نشیب و فراز نے غربت کے حوالے کر دیا تھا۔آتشِ  جدوجہدِ حیات میں تپ کر یہ سونا کندن بن سکا ہے یا نہیں ، خدا معلوم۔

اسی خطے کا ایک حصہ بھاٹ پاڑہ کہلاتا ہے جو بنگال کی تاریخ میں سنسکرت کی تعلیم کا قدیم مرکز کہلاتا تھا۔ یہاں سے تھوڑے سے فاصلے پر رشی بنکم چندر چٹرجی ‘آنند مٹھ’  لکھ رہے تھے، اور یہیں سے وندے ماترم کا نعرہ اٹھا تھا۔ دس کیلومیٹر کے حصار میں منگل پانڈے نے 1857 میں بیرک پور سے ہندستان کی پہلی جدوجہد آزادی کا بگل بجایا تھا۔

میں نے جب شعور کی آنکھیں کھولیں تو آس پاس بنگالی زبان کی مٹھاس جہاں کانوں میں رس گھول رہی تھی وہیں انقلاب و انقلاب کے نعرے بھی گونج رہے تھے۔

ہم مسلمانوں کی بستی میں رہنے والے لوگ بنگالی تہذیب سے مخلوط ہوتے رہے۔ سٹرک کے ایک جانب مسلمانوں کا علاقہ ہے اور دوسری جانب ہندوؤں کا۔ جیسے ایک ندی کے دوکنارے۔

دونوں آپس میں کبھی نہیں  ملتے لیکن دھارے دونوں کناروں کے احوال سنادیتے ہیں، اور انسان پل بناکر ہر فاصلہ ختم کردیتا ہے۔

تھوڑے فاصلے پر صرف بنگالی آباد ہیں۔ بنگالی امن پسند ہوتے ہیں۔ میں نے جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات دیکھے، وہ یوپی بہار سے آئے ہوئے لوگوں نے بھڑکائے تھے۔ اسی لیے بعض مقامی بنگالیوں کا خیال تھا کہ یہ لوگ باہر سے آکر یہاں کی امن پسند فضا کو تباہ کررہے ہیں، لیکن مقامی بنگالیوں نے باہر سے آئے ہوئے مہاجرین پر کبھی ظلم نہیں کیا۔


یہاں آباد یوپی بہار کے ہندومسلمانوں میں ایک عجیب بات تھی ، یعنی ایک دوسرے کے بغیر ان کادل بھی نہیں لگتا  تھا۔ میں نے اس علاقے کو ایک چھوٹا سا مثالی ہندوستان پایا جہاں فسادات بھی دیکھے، اور اسی فساد میں مارے گئے مسلمانوں کے جنازوں میں ہندوؤں کے کاندھے بھی دیکھے۔جیسے پھولوں کے سفر میں فاختائیں قطار اندر قطار چلی جاتی ہوں۔  ہندوؤں کی ارتھی کے پیچھے مسلمانوں کو خاموشی سے  چلتے ہوئے بھی دیکھا۔ جیسے چراغوں کا جلوس فنا کے بجائے بقا کا استعارہ بن جائے۔


فساد کے رکتے ہی دونوں طرف کے بزرگوں کو آپس میں بیٹھ کرامن بحال کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ محبت ہی آخری سہارا ہے۔ رمضان میں ہندوؤں کو افطار کراتے ہوئے پایا۔ درگاپوجا میں مسلمانوں کی گرم جوشی دیکھی۔

تعلیمی میدان میں دونوں کی مشترکہ جدوجہد کا مفہوم سمجھا۔فٹ بال کے میدان میں کیا ہندو کیا مسلمان، کیا بنگالی ، کیا بہاری؛ سب کے اندر کھیل کا ایک جنون نظر آیا۔

سچ بتاؤں تو ایک عرصے تک مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ ہندو ؤں اور مسلمانوں میں کچھ فرق بھی ہوتا ہے۔ اسکول میں ہندومسلمان سب ساتھ پڑھتے تھے۔

میرے اندر کے بنارس کی طرف آنا پڑےگا
پاک ہونے کے لیے آنکھوں میں گنگا جل نہیں ہے

میں اپنے اسکول کے ان ہندو اساتذہ کو نہیں بھول سکتا جنھوں نے مجھے آدمی سے انسان بنایا۔ سوچتا ہوں کہ اگر میں ایسے اسکول میں پڑھتا جہاں صرف مسلمان پڑھتے ہوں تو شاید میرے اندر کا ہندوستان ادھورا رہ جاتا۔میرے اسکول میں ہندو اساتذہ بھی اردو جانتے تھے۔ کالج میں بھی امتزاجی  صورت حال برقرارتھی۔ یہاں بنگالی بولنے والوں کی کثیر تعداد تھی۔ ہندوستانی بولنے والے آٹے میں نمک کے برابرتھے۔

بنگال کی تہذیب فنون لطیفہ کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ بچپن میں بنگالیوں کے رہن سہن کو قریب سے دیکھا ۔ ان کے علاقوں میں بدتمیزی، شورشرابا ، ہنگامہ اور بلاوجہ گلیوں میں بیٹھ کر اوباشی کرناممنوع تھا۔

دوپہر میں بنگالی علاقوں میں ہوکاعالم ہوتا ۔ شام ہوتے ہی گھروں سے مختلف آلاتِ موسیقی کی آوازیں، رقص کی مشق اور مصوری و مجسمہ سازی کی کلاسز کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔

مجھے اپنے  مصوری کے ٹیچر چنی لال اب بھی یاد آتے ہیں جن کے آرٹ اسکول میں پہلی بار میں رنگوں اور خطوط کی معنویت سے واقف ہواتھا۔ چنی لال کے یہاں 95فیصد بنگالی طلبہ ہوا کرتے تھے۔ ان کی ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی کو یاد کرکے میں اب بھی مسکرادیتا ہوں۔

جب مصوری کا جنون طاری ہوا تو ہر شے ثانوی لگنے لگی۔ مصوری میرا پہلا عشق ہے۔ کاغذ سے کینوس کا سفر طے کرنے میں مجھے دیر نہیں لگی۔ کلکتہ ورلڈ  بک فیئر میں ہم دوست اپنی پینٹنگز کی نمائش  کرتے۔ کچھ وہاں فروخت بھی ہوجاتیں۔ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب میں نے ابھی ہائی اسکول پاس نہیں کیاتھا۔

یہ دور بے انتہالاپروائی اور خوابوں کے جنون کا تھا۔ مصوری کے ساتھ فٹ بال اور پھر کرکٹ کا بھوت سوار ہوا۔ دوستوں کے ساتھ آوارگی کرنے لگا۔ عین ممکن تھا کہ اس آوارگی میں ایک دن میں تباہ ہوجاتا لیکن میری ماں نے مجھے بچا لیا۔

میری ماں چاہتی تھیں کہ میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنوں۔ خاندان کا نام روشن کروں۔ خاندان کے افراد مجھ سے مایوس ہوچکے تھے۔ انھیں لگتا تھا کہ میں ہائی اسکول بھی نہیں کرسکوں گا لیکن قدرت کے فیصلے کون جانتا ہے۔ امی کی تربیت اور تعلیم سے گہری وابستگی نے مجھے کتاب کی وادیوں میں اتار دیا۔ میرے والد کتب بینی کے علاوہ کوئی دوسرا شوق نہیں رکھتے تھے۔

میں نے گھر میں غربت دیکھی۔ گھر میں آسائش کی چیزیں تو نہ تھیں لیکن جس طرف نظر اٹھاتا کتاب ہی کتاب نظر آتی۔ ہر ہفتے ڈاک سے کتابیں اور رسالے چلے آتے۔ اردو کے دو اخبارات گھر میں نظر آتے۔

میں نے اسکول کے زمانے ہی میں اخبارات میں لکھنا شروع کردیا تھا۔ پہلے مراسلے ، پھر مضامین اور اس کے بعد غزلیں اور نظمیں۔اب میں شاید صحیح راستے پر آگیا تھا۔ مصوری کے ساتھ کھیل کود سب پیچھے رہ گئے۔ اب ایک ہی جنون تھا کچھ کرنا ہے۔ کچھ بننا ہے۔

اسکول سے نکل کر کالج پہنچا تو صحیح معنوں میں میری دنیا بدل چکی تھی۔ مولانا آزاد کالج کے بجائےمیں نے جان بوجھ کر ہگلی محسن کالج میں داخلہ لیاتھا۔

یہ کالج حاجی محمد محسن نے 1836میں قائم کیا تھا۔ بنکم چندر چٹرجی، ڈی ایل رائے (شاعر، ڈراما نگار اور موسیقار)، مشہور سائنٹسٹ راج بہادر سر اوپندرناتھ برہمچاری اورجسٹس  سید امیر علی جیسے نابغۂ روزگار اس کے اولین طلبہ میں تھے۔ اس وقت تک سرسید کے ذہن میں یہ خیال بھی نہ رہا ہوگا کہ آگے چل کر وہ کسی تعلیمی تحریک کی بنیاد ڈالیں گے۔

اس کالج میں داخلہ لینے کا مقصد اس کی قدیم اور زرخیز لائبری سے استفادہ کرنا تھا۔ وہاں مجھے نیر جمال ملے جو مارننگ کالج میں لائبریرین تھے۔ میں نے ان سے دوستی کرلی۔ انھیں میں نے ایسا رام کیا کہ ہر روز وہ مجھے چار کتابیں جاری کرنے لگے۔ کئی موقعوں پر میرے لیے وہ دوسرے بنگالی اسٹاف سے لڑبھی گئے۔ میرا شوق دیکھ کر انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ تم ایم اے کے لیےعلی گڑھ یا دہلی چلے جاؤ۔ وہ خود علی گڑھ کے پروردہ تھے۔

میرے نصاب میں بنگال کے شاعر وحشت کلکتوی شامل تھے۔ ان پر کوئی معقول کتاب دستیاب نہیں تھی۔ میں نے طے کیا کہ ان پر ایک کتاب لکھوں گا۔ میں نے مواد جمع کرنا شروع کرکیا۔ کالج کی لائبری کے علاوہ مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی لائبریری اور کلکتہ نیشنل لائبریری (علی پور) میں گھنٹوں وقت گزارنے لگا۔ وہاں کے اسٹاف سے دوستی ہوگئی۔

‘وحشت: حیات اور فن’ میری اولین کتاب ہے جو 2010 میں دہلی سے شائع ہوئی۔

میری کم عمری اور شوقِ مطالعہ کو دیکھتے ہوئے وہ میری مدد میں کوتاہی نہ کرتے۔ اس طرح دو سال کے عرصے میں آخر میں نے وحشت پر کتاب لکھ ماری۔

یہ وہی زمانہ ہے جب منور رانا کلکتے سے لکھنؤ شفٹ ہورہے تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھنے لگا۔وہ مجھے کئی مشاعروں میں اپنے ساتھ لے گئے۔ اسی دوران کلکتے میں ایک سمینار منعقد ہوا جس میں پروفیسر قمر رئیس اور لطف الرحمٰن تشریف لائے۔

میں قمر رئیس صاحب سے ملا۔ انھوں نے حیرت انگیز طور پر میری حوصلہ افزائی کی۔ ان سے فون پر رابطہ رہنے لگا۔ انھوں نے میری کتاب کا مقدمہ لکھا اور مجھے دہلی آنے کا مشورہ دیا۔ میرے اساتذہ بھی چاہتے تھے کہ میں وہاں کی مقامی تدریسی سیاست کا حصہ نہ بنوں۔

مقدر کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ میں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ گھر سے دورجانا پڑے گا۔ بچھڑنے کے خیال ہی سے جان نکل جاتی لیکن ہوائیں اپنا رخ بدل چکی تھیں۔ میں دہلی کے جواہرلعل نہرو یونیورسٹی پہنچ چکا تھا۔

شہردہلی میری زندگی کا دوسرا پڑاؤ بنا۔ جے این یو میں داخل ہوتے ہی اجنبیت کا شدید احساس ہوا۔ ایسا لگا کہ دیوانہ آبادی سے نکل کر ویرانے کی طرف چلاآیا ہے۔ جنگل، پہاڑیوں کے نشیب و فراز اور خالی سڑکیں۔ سکون ایسا کہ دم گھٹنے لگے۔ گھر کی یاد آئی ۔ آنسو نکل پڑے۔ میں تو کشتیاں جلاکر آیا تھا۔اس لیے واپسی کے تمام راستے بند ہوچکے تھے۔

یہاں کی فضا سے مطابقت میں تھوڑا وقت لگا۔میں چونکہ بنگال سے آیا تھا، اور بنگال میں اس وقت لیفٹ کی حکومت تھی، اس لیے یہاں کی سیاسی فضا اجنبی نہیں لگی۔ یہاں بھی وہی نعرے گونج رہے تھے جن سے میرے کان بچپن ہی سے آشنا تھے۔ یہاں بنگالی طلبہ کی بھی کثیر تعداد تھی۔ پھر  کچھ دوست بنے۔ سالم سلیم میرے ہم درس تھے۔ فیاض احمد وجیہہ کے ساتھ سب سے زیادہ وقت گزرتا۔ راغب اختر کی ضیافت کے ہم سب قائل ہوئے۔

جابرزماں کا کمرہ مرجعِ خلائق بناہوا تھا جسے ہم لوگ ‘کتھارسس ہاؤس’ کہا کرتے تھے۔  یہاں ادبی محفلیں منعقد ہونے لگیں۔ اب دھیرے دھیرے جے این یو کے اسرار مجھ پر کھلنے لگے تھے۔ جیسے یہی اب میرا دوسرا گھر ہو، اور یہی احباب میرا خاندان۔

یہاں کی ہریالی، اراؤلی پہاڑی سلسلے کی قدامت، سناٹے کا شور یعنی فطرت کی گود میں بیٹھ کر کوئی نیا باب لکھاجارہا ہو۔ یہاں رات رات بھر ہم جاگتے ۔ ایک ڈھابے سے دوسرے ڈھابے ، کبھی پی ایس آر ، کبھی رنگ روڈ اور کبھی گنگا ڈھابے کی پہاڑی باقیات پر رات گزرجاتی۔رومان پرور فضا،  گرما گرم بحثیں، چائے اور غیبت۔

صبح جب مور پنکھ پھڑپھڑاتے ہوئے رقص کرتے، نیل گائیں جگالی کرتے ہوئے تھک جاتیں، کہیں دور ہرن جھاڑیوں میں چھپ جاتی، طرح طرح کے جانور اور پرندے بے خوف ہو کر بیدار ہورہے ہوتے اور ہم شب بیدار اپنا چراغ بجھا رہے ہوتے۔

کبھی کبھی لگتا کہ عرفانِ ذات بھی نہ ہوا،  رات بھی گئی لیکن خلوص اور بے لوث تعلق نے کبھی احساسِ زیاں کا شائبہ تک  نہ آنے دیا۔ ایسی آزاد فضا تھی کہ کیا چرند کیا پرند ؛ سب کو فطرت کی گود میں جینے کا حق تھا۔ایک  ہی سڑک پر ایک طرف انسان چل رہے ہوتے ، اور اسی سڑک کے کنارے کبھی کبھار سانپ بھی رینگ رہے ہوتے، لیکن کسی کو کسی سے خوف نہیں تھا۔

ہر تہذیب، خطے، نسل، مذہب اور زبان کے لوگ یہاں موجود تھے۔ رواداری کی عمدہ مثال تھی۔کسی کی آزادی مشروط نہیں تھی۔  کبھی اس آزادی پر حرف آتا تو انقلاب کے نعرے گونجتے۔ دنیا میں کہیں ظلم ہوتا تو یہاں کی صدائے احتجاج رات کا سینہ چیر دیتی۔ ایسا لگتا تھا کہ اب انقلاب آیا ہی چاہتا ہے۔ انقلاب تو نہیں آیا لیکن ہم نے انقلاب کے معنی ضرور سمجھ لیے۔

کبھی کبھی ہم کیمپس کے باہر بھی نکلتے۔ دہلی کی ادبی محفلوں کا حصہ بنتے۔ مشاعروں،سمیناروں اورر مذاکروں میں شرکت کرتے۔ ساہتیہ اکادمی، غالب انسٹی ٹیوٹ، غالب اکادمی، اردو اکادمی، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ…….۔اس زمانے میں ان اداروں کی ادبی محفلیں پھیکی نہیں ہوتی تھیں۔ ہاسٹل کے کھانوں سے جی اوبتا تو ان اداروں کے سمینار اور مذاکرے لذتِ کام و دہن کا ذریعہ بنتے۔

کیمپس میں مجھے افسانہ نگار پروفیسر معین الدین جینابڑے کی سرپرستی میسر آئی۔ ان کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں مشہور تھیں۔ یہ سچ ہے کہ وہ بے حد پیچیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ انھیں سمجھ لینے کا دعویٰ بے سود ہے لیکن ان کی فن کارانہ صداقت میں کلام نہیں۔ دل ایسا صاف کہ ان کے فیصلے کو دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی، اور جس سے بدگمان ہوئے، دنیا کی کوئی طاقت انھیں قائل نہیں کر سکتی۔

دہلی کی ادبی فضامیں کچھ نئے دوست بنے۔ تصنیف حیدر ذاکر نگر میں مقیم تھے۔ کبھی کبھی غالب ایاز سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ دہلی کی ادبی کارگزاری زبیر رضوی اور شمیم حنفی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ انھیں ہم کیمپس کے جلسوں میں آسانی سے بلالیتے تھے۔

زبیر رضوی سے قلبی تعلق تھا۔ ان کے دولت کدے پر میں اور فیاض وجیہہ اکثر چلے جاتے۔ دیر تک بیٹھتے اور ان کے کام کرنے کے طریقوں سے متاثر ہوتے۔ وہ ہم دونوں سے محبت کرتے تھے۔ ‘ذہن جدید’ کے صفحات ہمارے لیے کھلے ہوئے تھے۔ فیاض کے عمدہ افسانے یہیں شائع ہوئےتھے۔ جس نوع کے افسانے وہ لکھ رہے تھے ، کوئی اور رسالہ چھاپنے سے شاید قاصر رہتا۔

زبیر صاحب کا اکثر فون آجاتا۔ وہ گھنٹوں باتیں کیا کرتے۔ اکثر کہتے میرے ساتھ پریس کلب چلو۔

ابھی جے این یو آیا ہی تھا کہ دوسرے سمیسٹر میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگیا۔ یہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا۔‘وحشت: حیات اور فن’ میری اولین کتاب ہے جو 2010میں دہلی سے شائع ہوئی۔

اسی سال میرا ،ایم اے مکمل ہوا۔ایم فل کے لیے دہلی یونیورسٹی کا رخ کرنا پڑا۔ ایم اے کے فوراً بعد قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں رسرچ اسسٹنٹ منتخب کرلیا گیا۔ تحریری امتحان پاس کرلینے کے بعد انٹرویو کی باری آئی۔

اس مقالے کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے شائع کیا۔

شمس الرحمن فاروقی نے کونسل کے ڈائرکٹر حمید اللہ بھٹ سے میری سفارش کی، اور میں منتخب کرلیا گیا۔ 2012میں مومن خاں مومن پر ایم فل مکمل ہوئی۔ایک سال کے بعد اس مقالے کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے شائع کیا۔ 2011میں ‘تخلیق، تخئیل اور استعارہ’ شائع ہوئی۔ اس کتاب نے مجھے اعتبار عطا کیا۔

اسی کتاب پر 2013 میں ساہتیہ اکادمی نے مجھے نوجوان ادیبوں کے قومی اعزاز سے سرفراز کیا۔شمس الرحمٰن فاروقی نے اس کتاب پر لکھتے ہوئے کہا؛

ایک مدت کے بعد اردو میں ایسی تنقیدی کتاب دیکھی جس کو پڑھ کر نہ الجھن ہوتی ہے، نہ دم الٹتا ہے ، نہ غصہ آتا ہے اور نہ تفہیم و ترسیل کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔

گوپی چند نارنگ نے شفقت فرمائی۔ ایک دن ان کا فون آیا۔ کہنے لگے جلدہی آپ کو ایک خوش خبری ملے گی۔ جس دن ایوارڈ کا اعلان ہوا، میں بنگلور میں قومی کونسل کا ایک ورک شاپ کروا رہا تھا۔ وہ میری زندگی کا ایک خوشگوار دن تھا۔

ملازمت کی وجہ سے اب میں جے این یو اور منیرکا سے شاہین باغ شفٹ ہوچکا تھا۔ سالم سلیم بھی ابوالفضل انکلیو شفٹ ہوئے۔ تصنیف سے ملاقات کاسلسلہ دراز ہوا۔ غالب ایاز اور کبھی کبھی زمرد مغل کے ساتھ وقت گزرنے لگا۔ فیاض وجیہہ اکثر جے این یو سے چلے آتے۔ جب وہ آتے تو ہمارا سارا وقت حقانی القاسمی کے ساتھ گزرتا تھا۔

اس کتاب پر 2013 میں ساہتیہ اکادمی نے مجھے نوجوان ادیبوں کے قومی اعزاز سے سرفراز کیا۔

سال 2014 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میرا تقرر ہوگیا۔ ایک نئی فضا جہاں جدیدیت سے زیادہ تاریخی حوالوں پر زور دیا جارہا تھا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ سرسید کے تمام سروکار جدید تھے۔یہاں سکون ہی سکون ہے۔ ٹھہری ہوئی فضا میں تحقیق، تنقید اور تخلیق کے لیے کافی گنجائشیں ہیں۔

جے این یو کی طرح یہاں وہ کھلاپن نہیں ہے جس کا سبب یہاں کی روایات ہیں۔ بعض روایتیں کھٹکتی ہیں، بعض اچھی لگتی ہیں۔ شاید یہی حدود اس ادارے کی پہچان بھی ہیں۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ جے این یو بھی اب کافی بدل چکی ہے۔ سیاسی تبدیلیوں نے ایک نوع کا جبر مسلط کررکھا ہے۔ یہ جبر صرف تعلیمی اداروں پر نہیں بلکہ ہر شعبۂ حیات میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ علی گڑھ میرے لیے مادر علمی کبھی نہیں رہا۔

بحیثیت استاد میں نے ‘جدید غزل کی شعریات’ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ داخل کیا، اور مجھے اس مقالے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔

یہاں  بحیثیت استاد میں نے ‘جدید غزل کی شعریات’ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ داخل کیا، اور مجھے اس مقالے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ مقالہ شائع ہوچکا ہے۔ یہاں مجھے تقریباً گیارہ برس ہوچکے ہیں ، لیکن مجھ سے کانکی نارہ کی تنگ گلیاں چھوٹیں، نہ کالج اسٹریٹ اور کلکتہ کافی ہاؤس کی شامیں، جے این یو کی آوارگی چھوٹ سکی نہ دہلی کا شور کم ہوسکا۔

یادیں مجھے دفن ضرور کردیں، میں یادوں کو دفن نہیں کرسکتا۔ آج میرے گلے میں غربت کا طوق نہیں ہے لیکن فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے لوگوں کے چہرے پڑھتا ہوں تو کاٹی ہوئی زنجیریں مجھ پر یلغار کردیتی ہیں۔ میں اپنا دکھ بھولنا بھی چاہوں تو نہیں بھول سکتا، کیوں کہ اس دنیا کا کمینہ پن روز چابک لیے تیار بیٹھا ہے اور موقعے کی تلاش میں ہے۔

فضا میں زہر ہوتو کوئی بات نہیں کہ لوگ مرجائیں گے، لیکن یہ دنیا احساس میں زہر بھردے تو گھٹ گھٹ کے جینے کے لیےآدمی مجبور ہوجاتا ہے۔ ذاتی زندگی کے بہت سے حوالے میں لکھنا چاہتا ہوں لیکن ان میں بکھراؤ اس قدر ہے کہ خود کو یکجا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔

مصوری میرا پہلا عشق ہے اور شاعری دوسرا عشق، لیکن دوسرے عشق نے پہلے عشق پر  دبیز  پردے ڈال دیے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ میں شاعری میں بھی رنگ آمیزی ہی کرہاہوں۔ مبہم لکیریں ہوں کہ مبہم الفاظ؛ ان میں معنی کا قرینہ تلاش کرہا ہوں۔

انٹرمیڈیٹ میں میری ایک غزل مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے سہ ماہی رسالے ‘روحِ ادب’میں شائع ہوئی تھی۔ رسالے کا کوئی نسخہ میرے پاس محفوظ رہ سکا ، نہ اس غزل کا کوئی شعر مجھے یاد رہ سکا ہے۔ اسی زمانے میں بچوں کے لیے نظمیں لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ پابندی سے ایوانِ اردو کے متعدد شماروں میں نظمیں شائع ہوئیں۔

جب باقاعدہ اردو درسیات کے نرغے میں آیا تو پتا چلا کہ یہاں تخلیقی فنکار ہونا معیوب ہے۔ یہاں محققین اور ناقدین کی پذیرائی ہوتی ہے،تخلیق کاروں کی نہیں۔

یہی سبب ہے کہ ہمارے ادارے بانجھ ہوتے جارہے ہیں۔ جے این یو آکر مجھے لگا کہ کچھ تو کرنا ہوگا کہ یونیورسٹی ٹیچنگ کا حصہ بن سکوں۔ ملازمت کا حصول میرا بنیادی مسئلہ تھا، ‘مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا’ کے مصداق ہر حال میں مجھے اسے حاصل کرنا تھا۔

میں نے تنقید لکھنا شروع کیا۔ بہت جلد دنیائے تنقید میں قبول کرلیا گیا۔ جب میری کتاب‘تخلیق، تخئیل اور استعارہ’شائع ہوئی تو ہر طرف سے پذیرائی ملی۔ شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی،، عتیق اللہ،مرزاخلیل احمد بیگ،  ناصر عباس نیر…..صف اول کے تمام ناقدین اور تخلیق کاروں میں زبیر رضوی، ستیہ پال آنند، انیس رفیع، معین الدین جینابڑے، مشرف عالم ذوقی، مولا بخش وغیرہ نے دل کھول کر حوصلہ بڑھایا۔

آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن میں اس کتاب پر مذاکرہ ہوا جس میں شمیم حنفی، عتیق اللہ، معین الدین جینا بڑے اور ابوبکر عباد شامل ہوئے۔ اس کتاب پر ممبئی کے رسالے ‘اردو چینل’ نے ایک خصوصی گوشہ شائع کیا جس میں ریڈیو کا یہ مذاکرہ بھی شامل تھا۔ اس کتاب کی مقبولیت اسے پاکستان سے افغانستان لے گئی اور وہاں پشتو زبان میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔


تنقید میری درسی ضرورت تھی ، میرا جنون نہیں۔ جیسے ہی ملازمت ملی ، ضرورت پوری ہوگئی۔ اب میں ہوں، میری شاعری ہے اور ایک تماشے کی صورت ‘بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے’۔


یہ سچ ہے کہ تنقیدی مطالعات نے میرے تخلیقی شعور کو روشنی عطا کی۔ عروض ، آہنگ، معنی اور بیان کے رموز سے پردہ اٹھا۔ 2021 میں میرا پہلا شعری مجموعہ ‘آخری کنارے پر’اردو رسم الخط میں ریختہ فاؤنڈیشن نے شائع کیا۔

یہی مجموعہ ‘عشق’ کے عنوان سے ناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوا جس کے اب تک متعدد اڈیشن نکل چکے ہیں۔ دوسرا مجموعہ زیرترتیب ہے۔ میں اب تنقید نہیں لکھتا۔ شاعری ہی اوڑھنا بچھونا ہے۔

میں اس کائنات کا چھوٹا سا  ذرہ ہوں۔ مٹی، پانی اور ہوا میرے لیے ایک ہیں۔ یہ اجزا ناقابل تقسیم ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی ہم ہر روز انسانوں کو تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ میرے لیے انسانیت ناقابل تقسیم ہے۔ اس وسیع کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہم پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر تخلیق کار اپنے باطن اور اطراف کی تخلیقی روداد قلم بند کرتا ہے۔

2021 میں میرا پہلا شعری مجموعہ ‘آخری کنارے پر’اردو رسم الخط میں ریختہ فاؤنڈیشن نے شائع کیا۔
یہی مجموعہ ‘عشق’ کے عنوان سے ناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوا جس کے اب تک متعدد اڈیشن نکل چکے ہیں۔

وہ جس فضا اور جس جغرافیائی خطے میں رہتا ہے ، اس کے اثرات اس کی تخلیقی زندگی پر پڑتے ہیں۔ کسی تخلیق کار کی تخلیقی شخصیت اس کی مٹی اور اس کی جڑوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ انسان جس فضا میں سانس لے رہا ہے، اس سے خود کو الگ کرلے۔

میری خوش قسمتی ہے کہ میں ایک ایسے ملک میں پیدا ہوا جس کی تاریخ  ، تہذیب  اور ثقافت دنیا کا قدیم ترین حوالہ ہے۔ میرا تخلیقی حوالہ اپنے ملک کی تاریخ، تہذیبی شناخت، جغرافیائی اثرات، سماجی اور سیاسی حالات اور مشترکہ و مخلوط تہذیبی وراثت کی روح میں پنہاں ہے۔ اس سفر میں میرا پہلا پڑاؤ پنڈت چندربھان برہمن لاہوری(1574ء) ہے جو اردو کا پہلا شاعر ہے۔

اردو زبان روزاول سے سیکولر مزاج کی آئینہ دار ہے۔دوسرا پڑاؤ امیر خسرو ہیں جنھیں ہم قومی یکجہتی کے علمبردار اور صوفی شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ خسرو ہمارا پہلا وطن پرست شاعر ہے جس نے ہندوستان کا قصیدہ لکھا۔ قطب الدین مبارک شاہ کی فتوحات پر مبنی مثنوی نہ سپہر(نو آسمانی طبقات ) میں ہندوستان کا یہ خوبصورت قصیدہ موجود ہے۔اس نے ہندوستان کو ترکی، ایران اور یونان سے  برترقرار دیاہے۔ ہندوستانی بود وباش، جانور، پرندوں، حسیناؤں، لباس، موسموں، تہواروں اورعلاقوں کے ساتھ ہندسہ،شطرنج اورپنچ تنترسے ہندوستان کی شناخت متعین کی ہے۔

میرا تیسرا پڑاؤ کبیر ہے جس نے انسانیت کی روح کو سمجھا اور ہندوستانیت کو اس کے برابر لاکھڑا کیا۔ میرا چوتھا پڑاؤ قلی قطب شاہ ہے جس نے ایران اور یونان کے مقابلے ہندوستانیت اور دکنیت کو برتر بتاتے ہوئے اپنی مٹی سے عشق کیا۔ میرا پانچواں پڑاؤ میر تقی میر ہے جس نے کہا؛

اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمعِ حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا

میرا چھٹا پڑاؤنظیر اکبرآبادی ہے جو صاف کہتا ہے:

زنار گلے یا کہ بغل بیچ ہو قرآن
عاشق تو قلندر ہے نہ ہندو نہ مسلمان

میرا ساتواں پڑاؤ غالب ہے جو کہتا ہے:

ایماں مجھے روکے ہےجو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

مومن، اقبال، فیض، حسرت موہانی،فراق گورکھپوری کی فہرست میں وہ تمام شعرا جنھوں نے انسانیت سے محبت کی، اپنے اطراف کو تخلیقی رمز عطا کیا، میری تخلیقی بصیرت نے سب سے کسب فیض کیا ہے۔ ان سے بھی جنھوں نے عشق کے معنی سمجھائے، ان سے بھی جنھوں نے انقلاب کا مفہوم بتایا، اور ان سے بھی جنھوں نے تصوف کے وسیلے سے دنیا کا اصل چہرہ دکھایا۔ یہ انھی شعرا کا فیض ہے کہ میں اس طرح کے شعر کہہ سکا؛

میرے اندر کے بنارس کی طرف آنا پڑےگا
پاک ہونے کے لیے آنکھوں میں گنگا جل نہیں ہے

یہاں بنارس ایک شہر نہیں ، بلکہ استعارہ بن چکا ہے۔اگر میری بنیادی پہچان ہندوستان کی مٹی نہ ہوتی تو یہ لفظیات آتیں نہ یہ اسلوب بنتا۔

میں اپنے عہد کے مسائل سے آنکھیں ملاکر بات کرتا ہوں۔ان مسائل میں محبت بھی ہے اور نفرت بھی۔ مجھے یقین ہے کہ نفرت کا انجام محبت ہوگا۔اس لیے کہ ہندوستان ہمیشہ سے محبت ، رواداری، قربانی، انقلاب اور عشق کا علمبردار ، رہا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ انسانیت کا پہلا اور آخری پڑاؤ محبت ہے۔ میرا پتا یہی پڑاؤ ہے۔سانس اگر اپنے ہی جسم میں بنواس کاٹنے لگے تو یہ داغ سریو کے مقدس پانی سے بھی نہیں دھل سکتا۔ جذبۂ تقدس نے عالم تخلیق میں دھونی رماکر آسن جمایا ہے اور محسوسات نے ناریل کے پانی سے وضو کرلیا ہے۔

اگر آپ مجھ سے ہندوستانیت کا مفہوم جاننا چاہتے ہیں تو میری ہندوستانیت انسانیت ہے۔ ہندوستان ایک ملک ضرور ہے لیکن ہندوستانیت کا کوئی ایک تصور قائم کرنا اور اس پر اڑے رہنا حماقت ہے۔ جذبۂ وطنیت کے ایک دھارے میں شریک ہونے کے باوجود اس کی الگ الگ شاخوں سے انکار ناممکن ہے۔

جس طرح ساری ندیاں مل کر ایک مہاساگر بناتی ہیں، اسی طرح الگ الگ تصور ِ حیات اور طرزِ معاشرت مل کر ایک عظیم ملک کا تصور پیش کرتے ہیں۔ہندوستان کو سمجھنے والے ہر نظریے کا ہمیں احترام کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ملک واقعی کثرت میں وحدت کی بہترین مثال ہے۔ ایسی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔

میں نے تنقید لکھنا شروع کیا۔ بہت جلد دنیائے تنقید میں قبول کرلیا گیا۔

میں اپنے بچپن کا ہندوستان کیسے بھول جاؤں؟

موجودہ سیاست میں سچ بولنے والوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ گویا سچ بولنا گناہ ہو۔ اختلاف کو مخالفت سمجھ لیا گیا ہے۔ مذہب کے نام پر مثبت سروکاروں کو رسوا کیا جارہا ہے۔ بھیڑ کسی کو بھی اپنا نوالہ بنالیتی ہے۔ اقلیت ہونا جیسے گالی ہو۔

صفائی، صحت، تعلیم اور ،روزگار کے بجائے مندرومسجد کا قضیہ میڈیا کا محبوب موضوع بن جائے تو معاشرے کے اصل مسائل کا کیا ہوگا۔بعض مواقع پر عدالتیں بھی مایوس کردیتی ہیں۔ سماجی ڈھانچہ مسلسل تخریب کے عمل سے گزر،رہا ہے۔ حکمراں جیسے خدائی کا دعویٰ کررہے ہوں، اور جیسے کہ انھیں کسی نے یقین دلادیا ہو کہ تمھارا اقتدار کبھی ختم نہیں ہوگا۔

جب یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے تو حکومت جمہوریت کے بجائے ڈکٹیٹرشپ کی طرف چل پڑتی ہے۔ احتجاج اور مثبت مزاحمت کے لیے جس معاشرے میں جگہ نہ ہو وہ معاشرہ صحت مند ہوہی نہیں سکتا۔

جہاں کمزور وں پر ظلم کیاجاتا ہو، اقتدار کا غلط استعمال کیا جاتا ہو، وہ معاشرہ بیمار ہے۔ اس کا علاج سیاست دانوں کے پاس نہیں ہوسکتا۔

اس بیماری کا علاج تو اس عہد کے فن کاروں، مصنفین، مورخین، صوفیااور دردمند افراد ہی کو  کرنا پڑے گا۔ ہر نفرت کی ایک عمر ہوتی ہے۔ کوئی بھی سماج صرف نفرت کے سہارے زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتا، کیونکہ انسان بنیادی طور پر محبت کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارا یہ ملک تبدیل ہوگا اور یہ آلائشیں دم توڑ دیں گی۔

معید رشیدی، فوٹو: دی وائر

میری شاعری اسی عہد کی نبض سے نکلی ہے۔ میرے اشعار میرے عہد کی دھڑکنیں ہیں۔ ان میں میری ذات بھی ہے اور کائنات بھی۔ میں اگر مقتدرہ پر طنز کرتا ہوں تو اس کا مقصد تبدیلی کی تمنا ہے۔

میں صرف اپنے ملک ہی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو محبت کی آماجگاہ بنتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ خواب ضرور ہے لیکن یہ خواب نہ ہوں تو دم نکل جائے آدمی کا۔

میری شاعری میرے خوابوں کی تعبیر ہے، اور میرے قارئین کے لیے نئے خوابوں کا سرچشمہ۔ اس میں شک نہیں کہ بہت تیزی سے دنیا بدل رہی ہے۔ میں اپنے اطراف کی سیاست، ثقافت ، انسانی رویوں، رشتوں اور ان کے بکھراؤ کو دیکھتا ہوں تو گھن آنے لگتی ہے، لیکن انھی میں کہیں سے محبت کی روشنی پھوٹتی ہے اور جینے کے معانی نکل آتے ہیں۔ جس دن یہ روشی ختم ہوجائے گی، اندھیرا مجھے شکست دے دے گا، اور میں نہیں چاہتا کہ دنیا مجھے شکست خوردہ کہہ کر پکارے؛

سانس کی دھار کو تلوار کہاں مانی ہے
جنگ باقی ہے ابھی ہار کہاں مانی ہے

اس سیریز کے مضامین  پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔



0 Votes: 0 Upvotes, 0 Downvotes (0 Points)

Leave a reply

Loading Next Post...
Search Trending
Popular Now
Loading

Signing-in 3 seconds...

Signing-up 3 seconds...